سورج کی ایکٹویٹی میں دس سالوں بعد پریشان کن اضافہ، سائنسدانوں کا اہم انکشافات

ہماری ویب  |  Mar 01, 2023

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دس سال بعد سورج کی ایکٹویٹی میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ زمیں کے لئے مسائل کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس حالت میں سورج پر ہونے والے دھماکوں سے زمیں پر جی پی ایس سگنلز اور پاور گرڈ وغیرہ پر اس کے اثرات ہوسکتے ہیں اور اس کا نظام متاثر ہوسکتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہر 11 سالوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں اس کے اثرات اتنے زیادہ نہیں ہوئے، تاہم اب ہمارا انحصار بجلی اور جی پی ایس پر بہت زیادہ ہے تو اب کی بار اس کے اثرات زیادہ ہوسکتے ہیں۔

سورج کی مثال ایک پلازمہ سے بھرے گیند کی ہے جس کے وسط میں مسلسل مادہ گرم ہوتا رہتا ہے اور گرم ہونے کے بعد وہ سطح کی طرف جاتا ہے۔ سطح پر پہنچ کر یہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور پھر واپس وسط کی طرف جاتا ہے۔ اس مستقل عمل سے اس کے پولز پر طاقتور قسم کی میگنیٹک فیلڈ بن جاتی ہے۔

سورج کی ایکٹو حالت میں یہ عمل تیزی کے ساتھ ہونے لگتا ہے جس سے اس کا نظام غیر متوازن ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں سورج کی سطح پر دھماکے ہونے لگتے ہیں۔ اور وہ خلع میں ان چارگ ہوئے پارٹیکلز کو پھینکنے لگتا ہے۔ جس کے اثرات زمیں پر بھی ہوتے ہیں۔

ان پارٹیکلز کی وجہ سے سب سے زیادہ ہوائی سفر متاثر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مواصلاتی نظام کو درہم برہم کردیتا ہے جس کی وجہ سے جہازوں کا سیٹیلائٹ اور ریڈیو رابطہ استوار نہیں ہوسکتا۔

2023 کی ایک تحقیق کے مطابق پچھلے 22 سال کے ریکارڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سورج کی بڑھی ہوئی ایکٹیویٹی کے دوران 21 فیصد فلائٹس متاثر ہوئیں۔

اس کے علاوہ ان پارٹیکلز کی وجہ سے سمندر میں ظغیانی کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے سیلاب بھی آسکتے ہیں۔ بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خلع باروں کے لئے مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔

سائینسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سائنسی ترقی نے ہمیں اس قابل بنادیا ہے کہ یم پہلے سے اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے خود کو تیار کرسکتے ہیں۔ سائنسدان مستقل سورج کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ ہر طرح کے خدشات سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More