گھر والوں نے سوچ لیا تھا کہ اب میں مر جاؤں گا لیکن ۔۔۔ 6 دفعہ کینسر کے وار سے زندہ بچ جانے والے نوجوان کی وہ کہانی جو بیماروں کو بھی نئی امید دلا دے

ہماری ویب  |  Mar 06, 2023

کینسر ایک ایسا مرض ہے جس میں کسی بھی وقت موت ہوسکتی ہے اس کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگوں کو تو اس کا پتہ ہی تب چلتا ہے جب یا تو آخری سٹیج ہو یا پھر دوسرا سٹیج ہو۔ ابتداء میں کینسر کی تشخیص ہونا بھی ایک اہم بات ہے علاج بروقت ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا بروقت معلوم ہونے پر بھی وہ اس مرض سے بازی جیت نہیں پاتے۔ لیکن ایک ایسا نوجوان بھی ہے جس نے 6 مرتبہ کینسر کے وار سے لڑ کر دنیا دیکھی ہے۔

بھارتی نوجوان جن کا تعلق اجمیر سے ہے۔ 23 سالہ جینت کندوئی جن کو چھوٹی عمر سے ہی کینسر کا مرض تھا انہوں نے اپنی زندگی کے 1,237 یعنی تقریباً کم و بیش 9 سال اس مرض سے لڑتے لڑتے گزارے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، "یہ سب 2013 میں شروع ہوا جب میں 10ویں جماعت میں تھا۔ مجھے اپنی گردن کے دائیں جانب ایک چھوٹی سی گانٹھ محسوس ہوئی اور یہ کینسر کی نشانی تھی۔ یہ بھی پہلی بار تھا جب میں نے ہڈکن لیمفوما کے بارے میں سنا تھا۔ درد نہ ہونے کے باوجود گانٹھ بڑھنے لگی اور یہ زیادہ نمایاں ہو گئی۔ یہ بھی پہلی بار تھا جب میں نے کسی بھی آپریشن تھیٹر کو اندر سے دیکھا۔ اس وقت میری پہلی بار کیموتھراپی ہوئی تھی۔ مجھے کیموتھراپی کے 6 خطرناک اور تکلیف دہ چکروں سے گزرنا پڑا اور 12 جنوری 2014 کو کینسر سے میری جان چھٹ گئی۔

اس کے بعد میں اجمیر واپس آیا اور اپنے 10ویں جماعت کے بورڈ کے امتحان میں بیٹھا اور کلاس میں بھی ٹاپ کیا۔ "میں ہمیشہ اپنے تعلیمی سفر میں اے ون گریڈ ہولڈر رہا ہوں،" مجھے کینسر تو ختم ہوگیا تھا لیکن جلد ہی تھکاوٹ محسوس کرتے لگا تھا جس کی وجہ سے اسکول نہیں جاتا تھا، جس پر مجھے تکلیف ہوئی کہ میں وہی طالبِ علم ہوں جو کبھی بھی چھٹی نہیں کرتا تھا۔

14 فروری 2015 کو میں دوبارہ کینسر کا علاج کروانے کے لیے بھگوان مہاویر کینسر ہسپتال میں داخل ہوا کیونکہ مجھے دوبارہ کینسر ہوگیا تھا لیکن میں نے کبھی اپنی صحت کو اپنے تعلیمی مقاصد میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور دہلی یونیورسٹی کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی کام کورس بھی شروع کیا۔ مگر بدقسمتی سے 2017 کے شروع میں، کینسر نے پھر حملہ کیا اور اس بار یہ میرے لبلبے پر تھا۔ میں اکثر پیٹ میں دردناک درد مھسوس کرتا تھا اور یہ اس وقت تھا جب میں یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا۔ چونکہ میں دہلی میں اکیلا رہ رہا تھا میرے والد نے مجھ پر زور دیا کہ میں واپس گھر آؤں اور فوری طور پر علاج کرواؤں۔

کیونکہ میں کمزوری اور تکلیف کے باعث اٹھ بھی نہیں پا رہا تھا اس لیے میں نے اپنی پڑھائی کو چھوڑنے اور پہلے علاج کو ترجیح دینے کا سوچا میں سب کچھ چھوڑ کر گھر واپس گیا۔ علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ٹیومر تک پہنچنے کے لیے پیٹ میں 9 انچ کا چیرا لگانا پڑے گا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اپنے والد کو پریشان دیکھا۔ ٹیومر کا سائز صرف 1 سینٹی میٹر تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے پیٹ کے ایک حصے کو ہٹانا پڑ سکتا ہے، یہ سن کر میری فیملی کو شدید تکلیف پہنچی اور یہ وہ وقت تھا کہ جب خاندان والوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب میں مر جاؤں گا۔

اس وقت تو کسی طرح میں ٹھیک ہوا لیکن 2019 میں مجھے لبلبے کا کینسر دوبارہ ہوگیا جس سے میں بالکل بستر پر آگیا، اب میں نہ بات کرتا تھا نہ ہی کچھ کھاتا پیتا تھا۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ میں ہر موقع پر میں آگے بڑھتا گیا اور صحت مند رہا، لیکن 2020 میں کینسر کا شدید وار میری آنکھیں بند کرگیا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور ایک مرتبہ پھر ہر قسم کے کینسر کو مات دے کر صحت مند ہوگیا اور اب مجھے میرے گھر والے، دوست، اساتذہ سب ایک زندہ چلتا پھرتا کرشمہ کہتے ہیں۔ میں ہر کسی سے یہی کہوں گا کہ امید نہ چھوڑیں بلکہ زندگی میں آگے بڑھتے جائیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More