نوجوانوں میں منشیات کی لت: کشمیر کو نئے بحران کا سامنا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 05, 2023

مئی کی ایک صبح کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر سرینگر میں درجنوں نوجوان تیز بارش میں نشہ چھڑانے کے ایک مرکز کے باہر قطار میں کھڑے تھے۔

ان میں سے بہت سے نوجوان 19 سال سے کم کے تھے اور وہ وہاں اپنے والدین کے ہمراہ آئے تھے۔ واضح رہے کہ کشمیر میں حکومت کے زیر انتظام منشیات کی لت سے نجات دلانے کا یہ واحد مرکز ہے جسے انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (آئی ایم ايچ اے این ایس یا امہانس) کہا جاتا ہے۔

مرکز کے اندر ڈاکٹر ایک نوجوان کی آنکھوں کی پتلیوں کے سائز کا معائنہ کرنے کے بعد پوچھتے ہیں: ’کیا تم نے دوبارہ ہیروئن لی ہے؟‘

وہ کہتا ہے: ’ہاں، میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا۔‘

کئی دہائیوں سے کشمیر کے ہمالیائی علاقے میں زندگی تصادم اور بدامنی سے دوچار ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک انڈیا اور پاکستان اس پورے خطے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔

سنہ 1989 کے بعد سے کشمیر میں انڈیا کی حکمرانی کے خلاف شورش جاری ہے جس میں دسیوں ہزار جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سنہ 2019 میں انڈیا نے سابق ریاست جموں و کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا، جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اب اس خطے کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر میں منشیات کی لت تشویشناک صورتِ حال اختیار کر چکی ہے اور اس سے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیروئن جیسی سخت نشہ آور منشیات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

رواں سال مارچ میں ایک وفاقی وزیر نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ جموں و کشمیر میں تقریباً دس لاکھ لوگ (خطے کی آبادی کا تقریباً 8 فیصد) کسی نہ کسی قسم کی منشیات کا استعمال کرتے ہیں، جن میں بھنگ، افیون اور کوکین کے مرکبات یا سکون آور ادویات شامل ہیں۔ اگرچہ اس کے متعلق پہلے کے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہے جن سے موازنہ کیا جا سکے کہ اس میں کس قدر اضافہ ہوا ہے لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔

امہانس کے ماہر نفسیات اور پروفیسر ڈاکٹر یاسر راتھر کہتے ہیں: ’ایک دہائی پہلے تک، ہم اپنے ہسپتال میں روزانہ نشے کے 10-15 کیسز دیکھتے تھے۔ اب ہم روزانہ 150-200 کیسز دیکھتے ہیں۔ یہ تشویشناک ہے۔‘

ماہرین کئی عوامل کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان عوامل میں ملازمتوں کی کمی اور شورش زدہ علاقے میں رہنے سے پیدا ہونے والی ذہنی صحت کے مسائل شامل ہیں۔

پریس کانفرنسوں میں پولیس کے اعلیٰ حکام نے بڑی مقدار میں ممنوعہ اشیاء کے پکڑے جانے اور پاکستان سے اس کے تعلق کی بات کی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ منشیات کی سمگلنگ سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال کشمیر میں عسکریت پسندی کے لیے کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے اس الزام کا سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے لیکن کچھ منشیات فروشوں نے بتایا کہ انھیں پنجاب اور دارالحکومت دہلی سمیت دیگر انڈین ریاستوں سے بھی سپلائی ملتی ہے۔

خطے میں منشیات کا استعمال کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر یاسر راتھر کہتے ہیں: ’اس سے پہلے، لوگ بھنگ، افیون یا کوکین کے دیگر ادویاتی مرکبات لیتے تھے لیکن ہیروئن کا استعمال نہیں تھا۔‘

جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے پچھلے سال کیے گئے ایک سروے کے مطابق (2018 سے خطے میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے) کشمیر میں 52,000 سے زیادہ لوگوں نے ہیروئن کا استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوسطاً ایک صارف دوا حاصل کرنے کے لیے ماہانہ تقریباً 88,000 روپے یا ایک ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ کل تعداد کا اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ بہت سے لوگ منشیات کے ساتھ جڑے کلنک کی وجہ سے اس کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مدد طلب کرتے ہیں۔

کشمیر میں ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مشتاق احمد راتھر نے کہا کہ حکومت مسئلے کی سنگینی کو سمجھتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مزید ڈی ایڈکشن سینٹرز کی اشد ضرورت ہے، جہاں نشے کے عادی افراد کو داخل کیا جا سکے اور ان کا مستقل علاج ہو سکے۔

کچھ نجی اداروں کے علاوہ کشمیر میں نشہ چھڑانے کے شرف دو سرکاری مراکز ہیں، اور دونوں سری نگر میں واقع ہیں۔ ان میں سے ایک امہانس ہے اور دوسرے کو پولیس چلاتی ہے۔

ڈاکٹر مشتاق راتھر کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہر ضلع میں نشے کے علاج کے مراکز (اے ٹی ایف سیز) بھی قائم کیے ہیں۔ لیکن نشہ چھڑانے کے مراکز کے برعکس اے ٹی ایف سی میں داخلے کی سہولیات نہیں ہیں۔ وہ چھوٹے کلینک ہیں جن میں ایک ڈاکٹر، ایک کونسلر اور ایک نرس مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق راتھر کہتے ہیں: ’یہ اے ٹی ایف سیز مریضوں کو مفت مشاورت، علاج اور ادویات فراہم کرتے ہیں۔‘

امہانس میں پورے کشمیر سے لوگ آتے ہیں۔ اگرچہ منشیات کا استعمال کرنے والے کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر خود ہسپتال آتے ہیں لیکن زیادہ تر کو ان کے اہل خانہ ہی لے کر آتے ہیں۔ زیادہ تر مریض مرد ہیں تاہم کچھ خواتین بھی ہیں۔

امہانس میں تین ہفتوں سے علاج کروا رہے 23 سالہ دانش نذیر (نام بدلا ہوا ہے) کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک میٹھا زہر ہے جو آپ کو تباہ کر دے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے رجحان

’کشمیر کی طرح انسانیت کو بھی آزادی چاہیے'

کشمیر: ڈپریشن اور دل و دماغ پر چھائی مایوسی کی چادر

نذیر ایک تاجر ہیں اور سری نگر میں ایک دکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی آمدنی تقریباً ہر روز ہیروئن خریدنے میں استعمال کر رہے تھے۔ لیکن حال ہی میں ان کی منگنی ہوئی اور جب ان کی منگیتر کو ان کے نشے کی عادت کا پتہ چلا تو انھوں نے اس لت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مدد حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ جوڑے نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ نذیر کے مکمل صحت یاب ہونے کے بعد ہی شادی کریں گے۔

ایک اور مریض ایک 15 سالہ لڑکا ہے جس کے چہرے پر بمشکل ہی بال آئے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ منشیات کا استعمال شروع کیا تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ ’منشیات یہاں آسانی سے دستیاب ہیں۔‘

کچھ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ منشیات کی سپلائی کا سلسلہ توڑنے کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے۔

کشمیر میں مقیم ایک کارکن سید شکیل قلندر کہتے ہیں: ’پولیس اور انتظامیہ کو منشیات فروشوں کے بارے میں موصول ہونے والی کسی بھی اطلاع یا خبر پر تیزی سے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔‘

Getty Imagesڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ہیروئن کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے

انتظامی امور کی نگرانی کرنے والے کشمیر کے ڈویژنل کمشنر وجے کمار بیدھوری سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

کشمیر کے پولیس سربراہ وجے کمار نے ٹیکسٹ میسجز کا بھی جواب نہیں دیا۔ پولیس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2019 اور 2022 کے درمیان انسداد منشیات کے قانون کے تحت 5,000 سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

حکام نے کہا ہے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ منشیات کی فروخت اور استعمال سے متعلق قوانین کے علاوہ، وہ پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے سخت قوانین کا بھی استعمال کر رہے ہیں، جس کے تحت پولیس کو یہ اجازت ہے کہ وہ لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال تک حراست میں لے سکتی ہے، تاکہ منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔

ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’منشیات کے استعمال سے نمٹنا صرف پولیس کا کام نہیں ہے۔ معاشرے کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔‘

منشیات کے استعمال کے سنگین جسمانی اور منفی اثرات کے علاوہ دیگر نتائج بھی ہیں۔ ڈاکٹر یاسر راتھر کہتے ہیں کہ اس کا استعمال کرنے والے بعض اوقات ایک ہی سرنج کا مل کر استعمال کرتے ہیں جس سے ہیپاٹائٹس سی جیسی انفیکشن ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اس کی وجہ سے چوری جیسے دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگ نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی طرح سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر چہ خطے کی صورتحال سنگین ہے لیکن مسٹر نذیر جیسے لوگ اپنی زندگی کو دوبارہ پٹری پر لانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ اب بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ ابتدا میں مشکل لگتا ہے لیکن اگر آپ کے پاس حوصلہ ہے تو آپ یہ کر سکتے ہیں۔ آپ کے خاندان کو آپ کی ضرورت ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More