ارب پتی ’کرپٹو کنگ‘ کا ڈرامائی زوال، فراڈ کے جرم میں سیم بینک مین کو 25 سال قید کی سزا

بی بی سی اردو  |  Mar 29, 2024

Reuters

ناکام کرپٹو ایکسچینج ایف ٹی ایکس کے شریک بانی سیم بینک مین کو اپنی دیوالیہ کمپنی کے صارفین اور سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے جرم میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اس فیصلے سے سابق ارب پتی کے زوال کو تقویت ملتی ہے، جو 2022 میں اپنی فرم کے ڈرامائی زوال سے قبل کرپٹو کے ہائی پروفائل چیمپیئن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔

سیم بینک مین پر کمپنی کے دیوالیہ ہونے سے پہلے صارفین سے اربوں روپے چوری کرنے کا انکشاف ہوا تھا۔

اب بینک مین کو امریکی عدالت کی جانب سے سُنائی جانے والی سزا کے خلاف اُن کی قانونی ٹیم اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بینک مین کے نمائندے کی جانب سے ان کے والدین کا پیغام بی بی سی تک پہنچایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارا دل ٹوٹ چکا ہے، ہم غمگین ہیں لیکن ہم اپنے بیٹے کے لیے لڑتے رہیں گے۔‘

اس سے قبل 32 سالہ بینک مین نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ واقعی مایوس‘ ہیں۔

سزا سنائے جانے کے موقع پر انھوں نے کہا کہ ’ہر مرحلے پر جو کچھ ہوا اس پر مجھے دُکھ اور افسوس ہے۔‘

سیم بینک مین فرائیڈ کو ’کرپٹو کنگ‘ کا خطاب ملے ابھی آٹھ ہی دن ہوئے تھے کہ ان کی کمپنی نے دیوالیہ ہونے کا دعویٰ کر دیا اور وہ چیف ایگزیکٹیو کے عہدے سے مستعفی ہوئے جس کے بعد انھیں امریکہ میں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سیم بینک مین کے حراست میں لیے جانے سے چند سال قبل انٹرنیٹ اُن کے انٹرویوز سے بھرا ہوا تھا جن میں وہ بہاماس میں اپنے آفس سے بیٹھے ویڈیو چیٹ پر بات چیت کرتے دکھائی دیتے تھے۔

ایف ٹی ایکس اپنے خاتمے سے پہلے دنیا کے سب سے بڑے کرپٹو ایکسچینج میں سے ایک تھا، جس نے بینک مین کو کاروباری شخصیت میں تبدیل کردیا اور لاکھوں صارفین کو راغب کیا جنھوں نے کرپٹو کرنسی خریدنے اور اس کی مدد سے کاروبار کرنے کے لئے بینک مین کے پلیٹ فارم یعنی اُن کی کمپنی کا استعمال کیا۔

انہیں گزشتہ سال نیویارک کی جیوری نے وائر فراڈ اور منی لانڈرنگ کی سازش سمیت الزامات میں سزا سنائی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح انہوں نے صارفین سے 8 ارب ڈالر (6.3 بلین پاؤنڈ) سے زیادہ لیے، اور اس رقم کو جائیداد خریدنے، سیاسی عطیات دینے اور دیگر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا۔

جمعرات کو بینک مین کو سزا سُنانے سے قبل جج لیوس کپلان نے اُن (بینک مین) کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے مقدمے کی سماعت کے دوران جھوٹ بولا تھا جب انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آخری لمحے تک اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کی کمپنیاں صارفین کی جانب سے لی جانے والی رقم کو محفوظ انداز میں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا ئے گا۔

جج لیوس کا مزید کہنا تھا کہ ’اگرچہ بینک مین نے صارفین کے نقصانات کے بارے میں ’افسوس کا اظہار‘ کیا تھا، تاہم انھوں نے اپنے ’خوفناک جرائم کے ارتکاب پر پچھتاوے کا نہ تو ااظہار کیا اور نہ ہی اس بارے میں ایک لفظ کہا۔‘

جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’اگرچہ 25 سال ایک سنگین سزا ہے، لیکن یہ سرکاری ہدایات کے تحت بینک مین فریڈ کو ملنے والے 100 سال سے کہیں کم ہے۔‘

Getty Imagesایف ٹی ایکس کے شریک بانی سیم بینک مین فرائیڈ کے والدین باربرا فرائیڈ اور ایلن جوزف بینک مین نے کہا کہ سزا سنائے جانے کے بعد ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔

بینک مین کو وفاق کی جانب سے سُنائی جانے والی عُمر قید اور پھر اب امریکی عدالت کی جانب سے سُنائی جانے والی 25 سال کی سزا سے متعلق بحث ہو رہی ہے کہ اس کا دورانیہ کم ہے یا زیادہ۔

ویسٹرن نیو انگلینڈ یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر اور وائٹ کالر کرائم کی ماہر جینیفر توب کا کہنا ہے کہ ’ان کے خیال میں سزا کا دورانیہ مناسب ہے۔‘

جج کپلان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عمر قید کی سزا غیر ضروری ہے لیکن بینک مین کو مستقبل میں جرائم کا ارتکاب کرنے سے روکنے کے لیے مناسب سزا دی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ مستقبل میں کچھ بہت برا کرنے کی پوزیشن میں ہوگے اور یہ کوئی معمولی خطرہ نہیں ہے۔‘

انھوں نے بینک مین فریڈ کو 11 ارب ڈالر ضبط کرنے کا بھی حکم دیا جو متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

تاہم حکومت پہلے ہی ان میں سے کچھ اثاثے ضبط کر چکی ہے، جیسے بینک مین فریڈ کے روبن ہڈ میں موجود حصص، تجارتی ایپ جس نے گزشتہ سال فروخت ہونے پر 600 ملین ڈالر سے زیادہ جمع کیے تھے۔

بینک مین نے عدالت کی جانب سے سُنائے جانے والے اس فیصلے پر کوئی خاص ردِ عمل ظاےر نہیں کیا۔

بینک مین نے بدانتظامی کی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ نیک نیتی سے کام کر رہے تھے۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے لوئس ڈوریگنی، جو ایف ٹی ایکس کے کسٹمر رہ چکے ہیں، نے کہا کہ یہ ’قرض دہندگان کے لئے ایک تلخ لمحہ‘ تھا کہ جب انھیں اس بات کا علم ہوا کہ جس کمپنی میں انھوں نے انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی وہ اب دیوالیہ ہو چُکی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں کبھی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو قید کی سزا ہو اور انھیں جیل میں 25 سال گُزارنے پڑیں جو ایک لمبا وقت ہوتا ہے، لیکن اس سے متاثرین کو کے نقصان کی تلافی نہیں ہوتی۔‘

کرپٹو ٹریڈنگ فنڈ ونسینٹ کے چیف ایگزیکٹیو سیموئل ہپاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ فیصلہ ’منصفانہ‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’25 سال بہت کچھ ہے اور میرا ماننا ہے کہ یہ صنعت کے لئے ایک معقول اشارہ کی طرح ہے کہ اسے کھیل کو آگے بڑھانے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ اپنا سرمایا کہاں لگا رہے ہیں۔

جج کپلان نے کہا کہ وہ بینک مین فرائیڈ کو زیادہ سے زیادہ سکیورٹی والی جیل میں سزا کاٹنے کی سفارش نہیں کریں گے کیونکہ عدالت کے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے وکلاء اور والدین کی جانب سے اٹھائے گئے ان خدشات کو بھی مدنظر رکھ رہے ہیں کہ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کی وجہ سے بینک مین کی سماجی بے چینی انھیں جیل میں غیر محفوظ بنا دے گی۔

بینک مین کے معاملے پر دیگر کرپٹو ایگزیکٹوز اور الزامات کا سامنا کرنے والی فرموں نے گہری نظر رکھی ہے۔

لیکن وہ انڈسٹری میں سزا پانے والے پہلے فرد نہیں ہیں۔

کارل سباسٹین گرین ووڈ، جنھوں نے ’کرپٹوکوئن‘ روجا اگناٹووا کے ساتھ کام کیا تھا، کو گزشتہ سال لاکھوں لوگوں کو جعلی کرنسی ون کوائن میں 4 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے پر قائل کرنے کے الزام میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ان کے کیس کا موازنہ برنی میڈوف سے بھی کیا گیا، جنھیں 64 ارب ڈالر کی پونزی سکیم کے الزام میں 150 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سابق وفاقی پراسیکیوٹر مارک لٹ، جو میڈوف کے خلاف مقدمے پر کام کر چکے ہیں اور اب واچٹل مسری کے وکیل ہیں، نے کہا کہ انھوں نے دونوں دھوکہ بازوں کے درمیان بڑے اختلافات دیکھے، جب انھیں سزا سنائی گئی تو وہ عمر رسیدہ تھے، انھوں نے کئی دہائیوں سے اپنے جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’عدالت نے اس طرح کے اہم باتوں کو مدِ نظر رکھا اور میرا ماننا ہے کہ اس کے نتیجے میں کم سزا دونوں کی ضرورت تھی۔‘

Getty Imagesبینک مین کے کام کا انداز

فروری 2021 میں بینک مین نے لکھا تھا کہ ’میں اپنے صارفین کے ساتھ فون کال اور میٹنگز کے دوران ’لیگ آف لیجنڈز‘ نامی ویڈیو گیم کھیلنے کی وجہ سے کافی بدنام ہوں۔‘

کرپٹو کرنسی ایکسچینج ایف ٹی ایکس کے سابق باس ویڈیو گیمز کے شوقین تھے۔ اپنے 10 لاکھ فالوورز کو انھوں نے بتایا کہ اس سے ان کو روزانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالر کی ٹریڈنگ کرنے والی اپنی دو کمپنیوں کے کاروباری معاملات سے ذہن کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

وہ کہتے تھے کہ ’کچھ لوگ شراب پیتے ہیں، کچھ جوا کھیلتے ہیں۔ میں لیگ کھیلتا ہوں۔‘

ایف ٹی ایکس کے تقریبا 12 لاکھ رجسٹرڈ صارفین تھے جو اس ایکسچینج کے ذریعے بٹ کوائن اور ہزاروں دیگر کرنسیوں کی سودے بازی کر رہے تھے۔

ان میں چھوٹی سرمایہ کاری کرنے والوں سے لے کر بڑی کمپنیاں تک شامل تھیں جو اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایف ٹی ایکس کے ڈیجیٹل بٹوے میں پھنسا ہوا ان کا پیسہ کبھی واپس ملے گا یا نہیں۔

BBC

یہ ایک حیران کن عروج اور زوال کی کہانی ہے جس میں بینک مین کی خطرات سے کھیلنے اور انعام پانے کی ڈرامائی داستانیں موجود ہیں۔

بینک مین نے ایک مشہور امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے فزکس اور حساب کی تعلیم حاصل کی۔

تاہم اس ذہین نوجوان کا کہنا تھا کہ بے شمار دولت کے حصول کا سفر دراصل ہوسٹل کے کمروں سے شروع ہوا۔

بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس تحریک سے متاثر ہوئے جس میں ’لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایسا کیا کر سکتے ہیں جس سے دنیا پر مثبت اثر پڑے۔‘

چنانچہ بینک مین کے مطابق انھوں نے یہ سوچ کر بینکنگ کا رخ کیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائیں گے اور اسے اچھے کاموں کے لیے استعمال کریں گے۔

پہلے انھوں نے نیو یارک میں ٹریڈ سٹاک کا کام سیکھا لیکن جلد ہی اس سے بے زار ہو کر بٹ کوائن کی دنیا کا رخ کیا۔

انھوں نے دیکھا کہ کس طرح بٹ کوائن کی قیمت مختلف ایکسچینج میں یکساں نہیں تھی اور اسی وجہ سے انھوں نے ایک جگہ سے سستا بٹ کوائن خرید کر دوسری جگہ مہنگے داموں فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا۔

کروڑوں ڈالر کے بٹ کوائن کچرے میں پھینکنے والا شخص جو اب انھیں ڈھونڈنا چاہتا ہےقزاقستان کی نوجوان خاتون جو بٹ کوائن مائننگ میں جانا مانا نام بن چکی ہیںتین ارب ڈالر کے بٹ کوائن کی چوری کی کہانی، جو پوپ کورن کے ڈبے پر ختم ہوئی

ایک ماہ تک منافع بخش کاروبار کرنے کے بعد انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مل کر المائدہ ریسرچ کے نام سے ٹریڈنگ کاروبار کا آغاز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ آسان کام نہیں تھا اور ان کو بینکوں اور سرحدوں کے پار سرمایہ چلانے کا فن سیکھنے میں کافی وقت لگا لیکن تین ماہ بعد ان کا جیک پاٹ لگ گیا۔‘

جیکس جونز اور مارٹن وارنر شو پوڈ کاسٹ پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ ’ہم کام کرتے چلے گئے۔ اگر ہمارے راستے میں رکاوٹ آتی تو ہم نیا راستہ تلاش لر لیتے۔ اگر ہمارا سسٹم بوجھ برداشت نہیں کر پاتا تو ہم نیا سسٹم تخلیق دے لیتے۔‘

جنوری 2018 تک ان کی ٹیم روزانہ ایک ملین یعنی 10 لاکھ ڈالر کما رہی تھی۔

سیم بینک مین فرائیڈ باضابطہ طور پر 2021 میں ارب پتی بن چکے تھے جس کی وجہ ایف ٹی ایکس نامی کمپنی تھی جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی کرپٹو ایکسچینج بن چکی تھی جس میں روزانہ 10-15 ارب ڈالر کی ٹریڈنگ ہوتی تھی۔

2022 کے اوائل میں ایف ٹی ایکس کی مالیت کا تخمینہ 32 ارب روپے لگایا گیا تھا جو اس وقت تک ایک گھریلو نام بن چکا تھا اور مشہور شخصیات اس سے تعلق جوڑ رہی تھیں۔

اس دوران بینک میں اپنے آفس میں ہی ایک چھوٹے سے بستر پر سوتے تھے۔

ان کا وہ خواب بھی پورا ہونا شروع ہو گیا تھا جس کے تحت انھوں نے خطیر رقم خیرات کرنا تھی۔ بی بی سی ویڈیو کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں ان کا دعویٰ تھا کہ اب تک وہ کروڑوں ڈالر عطیہ کر چکے ہیں۔

ان کی دریا دلی صرف خیراتی اداروں تک محدود نہیں تھی۔ گذشتہ چھ ماہ میں کرپٹو کنگ کو ایک اور خطاب بھی ملا - ’کرپٹو کا وائٹ نائٹ‘ یعنی سورما۔

ایک ایسے وقت میں جب کرپٹو کرنسی کی مالیت کم ہو رہی تھی اور مارکیٹ مندی کا شکار تھی، بینک مین کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر عطیہ کر رہے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے مندی کا شکار کرپٹو فرمز کی مدد کرنے کی کوشش کیوں کی تو انھوں نے سی این بی سی کو بتایا کہ انھوں نے کرپٹو کمپنیوں کی مدد کرنے کے لیے دو ارب ڈالر سرمایہ رکھا ہوا ہے۔

تاہم گزشتہ ہفتے وہ اپنی کمپنی اور صارفین کو بچانے کے لیے مدد مانگتے دکھائی دیے۔

ایف ٹی ایکس کے اصل مالی استحکام کے بارے میں اس وقت سوال اٹھنا شروع ہوئے جب کائن ڈیسک نامی ویب سائٹ نے دعوی کیا کہ المائدہ ریسرچ دراصل ایک ایسے کوائن کی بنیاد پر کھڑی ہے جس کو ایف ٹی ایکس کی ایک اور کمپنی نے خود ہی ایجاد کیا ہے۔

Getty Images

ان پر وال سٹریٹ جرنل نے یہ الزام بھی لگایا کہ المائدہ ریسرچ نے ایف ٹی ایکس کے صارفین کا پیسہ بطور قرض استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی۔

ان کے اختتام کا آغاز اس وقت ہوا جب ایف ٹی ایکس کی مرکزی مدمقابل کمپنی بائنانس نے ایف ٹی ایکس سے جڑے تمام کرپٹو ٹوکن چند دن بعد فروخت کر دیے۔

بائنانس کے چیف ایگزیکٹیو چینگ پینگ ژاو نے اپنے 75 لاکھ صارفین کو بتایا کہ ان کی کمپنی حال ہی میں سامنے آنے والے انکشافات کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے۔

اس قدم کے بعد پریشان صارفین نے ایف ٹی ایکس کرپٹو ایکسچینج سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کر دیا جو مجموعی طور پر اربوں ڈالر تھا۔

بینک مین نے پیسہ نکالنے کے عمل کو روک دیا اور مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بائنانس نے بھی ایک موقع پر ایف ٹی ایکس کو خریدنے کے بارے میں سوچا لیکن پھر کہا کہ صارفین کے پیسے کے غلط استعمال اور امریکی ایجنسی کی ممکنہ تحقیقات کے باعث یہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ایک دن بعد ایف ٹی ایکس نے دیوالیہ پن کا اعلان کر دیا۔

بینک مین نے ٹؤٹر کے ذریعے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے بہت افسوس ہے کہ ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں۔‘

اسی بارے میںتین ارب ڈالر کے بٹ کوائن کی چوری کی کہانی، جو پوپ کورن کے ڈبے پر ختم ہوئیقزاقستان کی نوجوان خاتون جو بٹ کوائن مائننگ میں جانا مانا نام بن چکی ہیںکروڑوں ڈالر کے بٹ کوائن کچرے میں پھینکنے والا شخص جو اب انھیں ڈھونڈنا چاہتا ہےبٹ کوائن کے گمشدہ خزانوں کے متلاشی ‘ٹریژر ہنٹرز‘ کی بڑھتی مقبولیتکرپٹو کرنسی کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے مگر اس کا استعمال ہر کسی کے بس کی بات نہیں!’ڈالریا‘ گاؤں کے باپ، بیٹے نے لوگوں سے کروڑوں کیسے لوٹے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More