ماں بیٹی کے ملاپ کی کہانی: ’میں 17 سال بعد بیٹی کو دیکھ کر دوبارہ زندہ ہو گئی‘

بی بی سی اردو  |  Mar 29, 2024

دنیا میں بہت کم مائیں اس تجربے سے گزری ہوں گی جو کچھ جرمنی میں مقیم ایک ایرانی پناہ گزین ستارہ فاروخی نے برداشت کیا۔ انھوں نے 17 سال کی جدائی کے بعد اپنی بیٹی سپیدہ سے ملاقات کی۔ کئی برسوں کی کوششوں کے بعد وہ دو سال قبل اپنی بیٹی سے ملنے اور اسے گلے لگانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔

مغربی ایران کے شہر کرمنشاہ سے تعلق رکھنے والی 44 سالہ ہیئر ڈریسر کا کہنا ہے کہ وہ چائلد میرج یعنی کم عمری کی شادی کا شکار ہوئی تھی۔ 15 سال کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی تھی اور 16 برس کی عمر میں انھوں نے اپنی بیٹی سپیدہ کو جنم دیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے شادی کی تھی تو اس وقت میں جسمانی اور جنسی پختگی کو بھی نہیں پہنچ پائی تھی۔ یہ شادی گھر والوں کے زور دینے پر ہوئی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس شادی کے لیے بالکل بھی راضی نہیں تھی۔جب میں 17 یا 18 سال کی ہوئی تو تب مجھے احساس ہوا کہ میں کمر عمری کی شادی کی شکار ہوں۔‘

ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کم عمری یا بچوں کی شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لڑکیاں 13 سال کی عمر سے اور لڑکے 15 سال کی عمر سے شادی کر سکتے ہیں۔ اس قانون کے تحت بچے کے سرپرست کی رضامندی اور عدالت کی منظوری سے مخصوص عمر سے پہلے شادی ممکن ہے۔

اس قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس بچے کے حقوق کا خیال نہیں کرتے جس کی شادی ہونی ہے۔

ستارہ کہتی ہیں کہ وہ شادی شدہ زندگی اور والدہ بننے کے لیے بہت چھوٹی تھیں۔

وہ اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد حالات کے متعلق بتاتی ہیں کہ ’ہم دونوں بچپن کے ساتھیوں کی طرح ساتھ کھیل کر پلے بڑھے ہیں۔ اس وقت اگر وہ روتی تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ اسے دودھ چاہیے یا اس نے خود کو گندا کیا ہے، یا کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔ میں بہت چھوٹی تھی اور میں شادی شدہ زندگی کے لیے تیار نہیں تھی۔ میری زندگی میں بچہ بہت جلد آگیا تھا۔‘

’میں نے زمین پر بیٹھ کر رونا شروع کر دیا‘

ستارہ نے آخری بار جب اپنی بیٹی کو دیکھا تھا اس لمحے کی یاد ہمیشہ کے لیے ان کے ذہن میں نقش ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ اپنے والد کی گاڑی سے باہر نکلی اور میں بھی، ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور زمین پر بیٹھ کر رونے لگے۔ میں اسے بیان نہیں کر سکتی۔‘

ثقافتی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے باپ نے ان کی بیٹی کو اس سے چھین لیا جب وہ صرف آٹھ سال کی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کا والد سخت مزاج تھا اور مجھے اپنی بیٹی کو بالکل بھی دیکھنے نہیں دیتا تھا، جبکہ عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنے بچے کو عوامی سطح پر مہینے میں کم از کم ایک بار مل سکتی ہوں۔‘

ایرانی قانون کے مطابق سات سال کی عمر تک بیٹیوں اور بیٹوں کی تحویل ماں کے پاس ہے۔ اس کے بعد سات سے نو سال تک کی بیٹیوں اور سات سے پندرہ سال کے بیٹوں کی تحویل والد کو دی جاتی ہے۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد بیٹیاں اور بیٹے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس والدین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

ستارہ کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کے ساتھ اس آخری ملاقات کے بعد اس کے والد نے سپیدہ کو ان سے ملنے نہیں دیا اور اسے بتایا کہ اس کی ماں کی موت ہو گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں اس کی سالگرہ پر اس کے لیے تحائف لیتی تھی اور تنہائی میں پاگلوں کی طرح روتی تھی۔ یہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔‘

جرمنی میں نئی زندگی کا آغاز

سنہ 2016 میں نئے سال کے موقع پر ستارہ بہت سے دوسرے پناہ گزینوں کی طرح، ترکی، یونان اور بلقان کے راستے جرمنی پہنچی جہاں انھیں ایک ہیئر ڈریسر کے طور پر کام ملا۔

انھوں نے وہاں اپنے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو اس یقین کے ساتھ پبلک بنا دیا کہ ایک دن سیپیدہ انھیں ڈھونڈ لے گی اور پھر بالکل ایسا ہی ہوا۔

ان کی بیٹی سپیدہ جو اب 26 سالہ خاتون ہیں، چند سال قبل انسٹاگرام کے ذریعے انھیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئیں اور پھر اس نے انھیں ایک پیغام بھیجا۔

ستارہ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔ میں نے اپنا رابطہ نمبر چھوڑ دیا تھا، لیکن سپیدہ اور میں کچھ دنوں تک بات نہیں کر سکے۔ وہ روتے ہوئے کیمرہ آن کرتی اور پوچھتی ’کیا واقعی یہ آپ ہیں ماں؟‘

وہ ایک ماہر نفسیات کی مدد سے مہینوں تک رابطے میں رہیں یہاں تک کہ آخر کار سیپیدہ جرمنی کا سفر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیےایک صدی قبل بچھڑے خاندانوں کو ملانے والے شمشو دین: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو ایک بار پھر محبت ہو جائے‘ یوٹیوب پر ویڈیو نے 40 سال سے بچھڑے خاندان سے ملا دیاپیدائش کے وقت جدا کر دی جانیوالی جڑواں بہنیں جنھیں کئی سال بعد ٹاک ٹاک نے ملوا دیا’مجھے اب بھی لگتا ہے یہ سب ایک خواب ہے‘

بلآخر سنہ 2022 کے موسم گرما میں وہ لمحہ آ گیا جس کا کئی برسوں سے ستارہ اور سیپیدہ کو انتظار تھا۔ 17 سال کی علیحدگی کے بعد وہ ایک دوسرے سے گلے ملے اور تقریباً آدھے گھنٹے تک روتے رہے، ایک دوسرے کو چوما اور ایک دوسرے کے خوشی کے آنسو پونچھے۔

اس وقت سپیدہ صرف ایک جملہ بول سکی تھی کہ ’مجھے امید ہے کہ کسی ماں اور بچے کو کبھی الگ نہیں ہونا پڑے گا۔‘

میں نے ڈیڑھ سال بعد دوبارہ ستارہ اور سپیدہسے ملاقات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ اب کیسی زندگی گزار رہی ہیں۔ دونوں نے حال ہی میں اپنی سالگرہ منائی ہیں۔ ان کی سالگرہ کے دن کی تاریخ میں صرف تین دن کا وقفہ ہے۔

دونوں اپنی زندگی میں مصروف ہیں۔ ستارہ اب بھی ہیئر سیلون میں کام کر رہی ہیں جبکہ سیپیدہ جو جرمنی میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں خود کو جرمن معاشرے میں ڈھالنے اور زبان سیکھنے میں مصروف ہیں۔

سپیدہ جنھوں نے اب اپنے بال چھوٹے کر لیے ہیں اپنی والدہ کے گھر چائے کی چسکی لیتے ہوئے اپنی والدہ سے ملاپ کے بعد والے وقت پر غور کرتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جھے اب بھی ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب ایک خواب ہے۔ ایک خواب کی طرح جہاں آپ کو سب کچھ تفصیل سے یاد ہو لیکن یقین نہیں آتا۔ جیسے ایک نفسیاتی صدمہ۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے پچھلے ڈیڑھ سال میں بہت سی یادیں بنائی ہیں لیکن یہ ان 17 سالوں کی جگہ نہیں لے سکتیں جو ہم نے کھو دیے ہیں۔‘

سپیدہ نے اپنی ماں کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی دولت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اب جب کہ میرے پاس میری ماں ہے، مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘

ستارہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ ایسی یادوں کا تجربہ کیا ہے جن کے بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہم ایک ساتھ بڑے ہو رہے ہیں۔‘

وہ اپنی بیٹی کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ ’اسے جاننا میرے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ وہ مجھ سے بہت دور ایک ایسی دنیا میں پلی بڑھی تھی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ کئی طریقوں سے مجھ سے ملتی جلتی ہے۔‘

وہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں گھنٹوں صرف اسے دیکھتے ہوئے گزارتی ہوں، میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اسے دیکھ کر میں دوبارہ زندہ ہو گئی ہوں۔‘

22 ماہ کی عمر میں خاندان سے بچھڑنے والی خاتون کی 51 برس کے بعد والدین سے ملاقاتریل کا پرانا انجن جس نے 13 برس سے بچھڑے بہن بھائی کو ماں سے ملا دیا: ’سب رو رہے ہیں، یقین نہیں آ رہا کہ یہ سچ ہے‘پیدائش کے وقت جدا کر دی جانیوالی جڑواں بہنیں جنھیں کئی سال بعد ٹاک ٹاک نے ملوا دیاپیدائش کے فوراً بعد سمگل کیے جانے والے بچے نے 40 برس بعد اپنی ماں کو کیسے ڈھونڈ نکالا؟ایک صدی قبل بچھڑے خاندانوں کو ملانے والے شمشو دین: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو ایک بار پھر محبت ہو جائے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More