انڈیا میں الیکشن کے پہلے مرحلے کا آغاز جہاں کروڑپتی امیدوار ووٹ کے لیے پیسے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی استعمال کرتے رہے

بی بی سی اردو  |  Apr 19, 2024

Getty Images

انڈیا کی 543 رکنی پارلیمنٹ کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں آج ملک کی 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اس مرحلے میں صرف جنوب کی تمل ناڈو ہی ایک بڑی ریاست ہے جہاں تمام 39 حلقوں میں اسی مرحلے میں پولنگ مکمل ہو جائے گی۔

انڈین پارلیمنٹ کے 102 حلقوں کے لیے 1625 سے زیادہ امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں جن میں 135 خواتین امیدوار ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے اس مرحلے میں اروناچل پردیش اور سکم کے اسمبلی انتخابات کے لیے بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

انڈیا کے پارلیمانی انتخابات کے اس پہلے مرحلے میں آسام کی پانچ، بہار کی چار نشستوں پر، مدھیہ پردیش کی چھ، مہاراشٹر کی پانچ، راجستھان کی 12، بنگال کی تین اور اتر پردیش ریاست کی آٹھ نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

اتر پردیش میں انڈیا کی پارلیمنٹ کی 80 سیٹیں ہیں۔ ان ریاستوں کے علاوہ، شمال مشرق کی چھوٹی ریاستوں کی نشستوں، انڈمان نکوبار جزائر، لکش دیپ اور جموں کشمیر کے ایک حلقے کے لیے بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ کی 543 نشستوں کے لیے انتخابات سات مرحلوں میں پورے کیے جائیں گے اور ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہو گا۔ ووٹوں کی گنتی پورے ملک میں ایک ساتھ چار جون کو ہو گی۔

یہ انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا۔

انڈیا کے کروڑ پتی انتخابی امیدوارGetty Imagesمدھیہ پردیش سے اپوزیشن کے ایک امیدوار نکول ناتھ 716 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں

انڈیا کے انتخابات کے اس مرحلے میں جو امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں ان میں سے تقریبا 450 امیدوار کروڑ پتی ہیں۔

انتخابی شفافیت کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنطیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے ایک تجزیے کے مطابق اس انتخابی مرحلے میں شامل 28 فیصد امیدوار کروڑ پتی ہیں جن میں سے کم از کم دس امیدوار ایسے ہیں جن کی ذاتی دولت کی مالیت سو کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہے۔

دوسری جانب اسی تجزیے کے مطابق حکمران جماعت بی جے پی کے 90 فیصد امیدوار کروڑ پتی ہیں۔ حکمراں جماعت بی جے پی کے 77امیدوار پہلے مرحلے میں انتخاب لڑ رہے ہیں جن میں سے 69 ایسے ہیں جو کروڑ پتی ہیں۔

کروڑپتی امیدواروں کے معاملے میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس کے 56 امیدوار انتخابی میدان میں ہیں جن میں سے 49 کروڑ پتی ہیں۔

مدھیہ پردیش سے اپوزیشن کے ایک امیدوار نکول ناتھ 716 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ یہ اس مرحلے میں انتخاب لڑنے والے سب سے امیر امیدوار ہیں۔

سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال تمل ناڈو کی ہے۔ وہاں کی حکمراں جماعت ڈی ایم کے اور اپوزیشن اے آئی ڈی ایم کے 96 فیصد امیدوار کروڑ پتی ہیں۔

شراب، سونے اور چاندی کا استعمال Getty Images

انڈیا کے الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کے لیے ایک امیدوار کو انتخابی مہم کے اخراجات کرنے کی حد تقر یباً ایک کروڑ روپے مقرر کی ہے۔

لیکن اے ڈی آر کے مطابق انتخابات اب انتہائی مہنگا عمل بن چکا ہے اور امیدوار مختلف طریقوں سے مقررہ حد سے کہیں زیادہ رقم انتخابی مہم پر صرف کرتے ہیں۔

انڈیا میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت امیدواروں کو اپنی زمین، جائیداد، سٹاکس، بینکوں میں جمع رقم اور زیورات وغیرہ کی مالیت کی تفصیلات ڈکلیئر کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھیں مجرمانہ کیسز کی بھی تفصیل دینی ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ووٹرز ووٹ دینے سے پہلے اپنے امیدواروں کے بارے میں اچھی طرح جان سکیں۔

انڈیا کے الیکشن کمیشن نے گذشتہ دنوں نامہ نگاروں کو بتایا کہ کمیشن نے انتخابات سے قبل یکم مارچ اور 13 اپریل کے درمیان 4650 کروڑ روپے مالیت کی نقدی، منشیات، شراب، سونا چاندی اور ووٹروں کو راغب کرنے والے دوسرے لوازمات ضبط کیے ہیں۔

یہ 2019 کے انتخابات کے مقابلے 34 فیصد زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیےانڈیا الیکشن 2024: دنیا کے سب سے بڑے انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں اور ہفتوں پر محیط کیوں ہوں گے؟انڈیا میں انتخابات سے قبل ’ہندوتوا فلموں‘ کی دھوم: کیا فلمیں ووٹرز کو متاثر کرتی ہیں؟انڈیا کے انتخابات میں اہم ریاستیں کون سی ہیں؟Getty Images

بی جے پی کے رہنما اور ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی تیسری مدت کے لیے بی جے پی کی انتخابی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔

انھوں نے اپوزیشن کے خلاف ایک جارحانہ مہم کے دوران ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ہندوتوا ، قوم پرستی اور اقتصادی ترقی کو اپنی انتخابی مہم کا محور بنا رکھا ہے۔

دوسری جانب کانگریس نے دوسری اپوزیشن اور علاقائی جماعتوں کے ساتھ ایک متحدہ محاذ بنایا ہے اور وہ مہنگائی، بےروزگاری اور کرپشن کے ایشو پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

انڈیا میں ووٹنگ کا پورا عمل الیکٹرانک مشین کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ ووٹنگ کے بعد تمام مشینیں مجسٹریٹ اور انتخابی افسروں کی نگرانی میں ایک سرکاری عمارت میں رکھ دی جاتی ہیں جسے پوری طرح سیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ مشینیں ووٹوں کے گنتی کے دن کاؤنٹنگ سینٹر پر لے جائی جائیں گی۔ ان مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کے امکان کے سوال پر سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا ہے۔

حکمراں بی جے پی کے اتحاد کو پچھلے انتخابات میں بیشتر سیٹیں اتر پردیش، بہار، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر،کرناٹک اور ہریانہ سے ملی تھیں جبکہ صرف اتر پردیش اور بہار کی دو ریاستوں سے بی جے پی کے اتحاد کو 100 سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں۔

انڈیا کے الیکشن میں ہار یا جیت کا فیصلہ بنیادی طور پر انھی ریاستوں سے ہو گا۔

کیا انڈیا دنیا کی اگلی سپر پاور بن سکتا ہے؟انڈیا میں انتخابات سے قبل ’ہندوتوا فلموں‘ کی دھوم: کیا فلمیں ووٹرز کو متاثر کرتی ہیں؟انڈین سیاست میں بالی وڈ کا بڑھتا ہوا کردارانڈیا الیکشن 2024: دنیا کے سب سے بڑے انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں اور ہفتوں پر محیط کیوں ہوں گے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More