جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا

بی بی سی اردو  |  Apr 26, 2024

’میرے ذہن میں نہ جانے کتنے خیال آئے کہ شاید میزائل پھنس گیا ہے یا کچھ اور ہو گیا ہے۔ وہ ایک سیکنڈ میری زندگی کا طویل ترین لمحہ تھا۔ پھر اچانک میزائل چلا اور دو تین سیکنڈ لگے ہوں گے جب میزائل اسرائیلی میراج کو لگا اور میں نے اسے پھٹتے ہوئے دیکھا۔‘

یہ واقعہ آج سے ٹھیک 50 برس قبل 26 اپریل 1974 کو پیش آیا تھا جب پاکستانی فضائیہ کے پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ ستار علوی نے شامی فضائیہ کا مگ لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے ایک اسرائیلی مگ طیارے کو مار گرایا تھا۔

یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ اس لیے بھی تھا کہ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس ایک دوسرے ملک کی فضائیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف لڑے جسے پاکستان سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتا۔

لیکن پاکستانی پائلٹ شام پہنچے کیسے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں پانچ دہائی قبل جانا ہو گا۔

’کیا تم واقعی لڑو گے؟‘

1973 اکتوبر میں عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو نوجوان پائلٹ ستار علوی رسالپور میں ٹریننگ کورس کا حصہ تھے۔

تربیت حاصل کرنے والے پائلٹس شام کے وقت عرب اسرائیل جنگ کے موضوع پر اکثر بات چیت کرتے تھے جب ایک دن یہ سوال اٹھا کہ وہ خود کیا کر سکتے ہیں۔

ستار علوی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے کہا کہ ہم فائٹر پائلٹ ہیں، ہم رضاکارانہ طور پر جانے کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ کسی نہ کہا کہ کیا تم واقعی جا کر لڑو گے؟ میں نے کہا ہاں۔ میرے روم میٹ نے کہا میں بھی تمھارے ساتھ ہوں۔ ابھی اٹھو۔‘

ستار علوی کے مطابق آدھی رات کا وقت تھا جب ’ہم اکیڈمی کے کمانڈنٹ کے گھر جا پہنچے۔ وہ باہر نکلے تو ان کو ہم نے ساری بات بتائی اور انھوں نے پوچھا کہ کیا بار سے آ رہے ہو؟ ہم نے کہا نہیں تو انھوں نے کہا کہ صبح آفس میں ملو۔‘

اگلے دن کمانڈنٹ کے دفتر میں رضا کارانہ طور پر شام جانے والے پاکستانی پائلٹس سے ایک بار پھر سوال ہوا کہ کیا وہ اپنی پیشکش میں سنجیدہ ہیں۔ ستار علوی بتاتے ہیں کہ ’ہم نے کہا بلکل۔ انھوں نے ہمیں 10 منٹ انتظار کرنے کو کہا اور پھر کہا کہ پشاور پہنچو، وہاں سے طیارہ تم لوگوں کو لے جائے گا۔‘

’بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ فضائیہ کے ایئر چیف نے بھٹو صاحب سے بات کی جنھوں نے شام کے صدر حافظ الاسد سے رابطہ کیا اور انھوں نے حامی بھر لی۔‘

ستار علوی کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنا ایک شلوار قمیض اور فلائنگ گیئر لیا اور پشاور پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ چودہ اور لوگ بھی رضاکارانہ طور پر جانے والوں میں شامل ہیں۔ ہمیں چیف کے فوکر جہاز میں بٹھا دیا گیا، تھوڑی دیر بعد چیف بھی آ گئے۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔‘

’حکومت اور فضائیہ ذمہ نہیں لے گی‘

اس دوران ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ پاکستانی پائلٹس کو ایک کاغذ دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اس پر دستخط کر دیں۔

ستار علوی کے مطابق ’اس خط میں لکھا تھا کہ ہم بیرون پاکستان چھٹی پر جا رہے ہیں اور اگر اس دوران کوئی انہونی بات ہوئی تو حکومت پاکستان یا پاکستانی فضائیہ ہمارا ذمہ نہیں لے گی یعنی اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوتی تو حکومت اور فضائیہ ہمیں پہچاننے سے انکار کر دیتی کہ ہم اس بندے کو نہیں جانتے۔‘

پاکستانی پائلٹس کو پہلے کراچی اور پھر ایک سی ون تھرٹی جہاز پر بغداد لے جایا گیا۔ بغداد سے ستار علوی اور دیگر پائلٹ پہلے اردن اور پھر بذریعہ سڑک گاڑیوں میں دمشق پہنچے۔

پاکستان پائلٹس کی مجموعی تعداد 16 تھی جن میں سے آٹھ کو مصر روانہ کیا گیا جبکہ آٹھ کو شام میں رہنے کے لیے ہدایات دی گئیں۔ ستار علوی شام میں رہ جانے والے آٹھ پائلٹس میں شامل تھے۔

ستار علوی اور دیگر پائلٹس کو بعد میں دمشق سے 30 منٹ دور دمیر ایئر بیس پر لے جایا گیا جہاں ان کو 67 اے یونٹ کا نام دیا گیا۔

پاکستانی پائلٹس کو دفاع کی ذمہ داری

پاکستانی پائلٹس کے لیے ایک مسئلہ زبان کا تھا۔ ستار علوی بتاتے ہیں کہ شامی ایئر فورس کے روسی ساختہ مگ ٹوئنٹی ون جہازوں میں روسی زبان درج تھی جبکہ ریڈار اور اے ٹی سی عربی میں بات کرتے تھے۔

’ہم نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ جو ضروری باتیں جہاز اڑانے کے لیے ہمیں درکار تھیں وہ ہم نے لکھ لیں اور ان کو ایک کاغذ پر اپنے فلائنگ سوٹ میں رکھ لیا جو ہم نے ہر وقت پہنا ہوتا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کے لیے درکار عربی زبان ہمیں ایک ہفتے میں یاد ہو گئی۔‘

پاکستانی پائلٹس کی شامی یونٹ کو ایئر ڈیفینس یعنی دفاع کا کردار سونپا گیا جس کے تحت اگر کوئی بھی اسرائیلی جہاز شام کی فضائی حدود میں داخل ہوتا تو اسے روکنے کی ذمہ داری پاکستانی پائلٹس کی ہوتی۔

تاہم اس دوران مصر نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کرنے پر اتفاق کر لیا تھا تاہم شام اور اسرائیل کے درمیان گولان کی پہاڑیوں پر جنگ کی صورت حال برقرار رہی۔

Getty Images

ستار علوی کے مطابق ’ہم روز صبح سحری سے پہلے تیار ہوتے اور فضائی اڈے پہنچ کر انتظار کرتے۔ یہ روٹین سات ماہ تک جاری رہی۔‘

اس دوران پاکستانی پائلٹس کو کئی بار فضا میں بھیجا گیا اور کئی بار ان کا اسرائیلی جہازوں سے آمنا سامنا تو ہوا لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔

شہباز 8 بمقابلہ اسرائیلی فضائیہ

ستار علوی کے مطابق ’پاکستانی پائلٹس نے سوچ رکھا تھا کہ چاہے ہم کسی اسرائیلی طیارے کو گرائیں یا نہ گرائیں، کسی پاکستانی پائلٹ کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں نہیں گرنا چاہیے۔ ہماری فضائی حکمت عملی اسی نظریے کے تحت بنی۔‘

26 اپریل 1974 بھی کسی عام دن کی طرح ہی شروع ہوا لیکن دوپہر کو ساڑھے تین بجے کے قریب پاکستانی پائلٹس کو معمول کا ایک دفاعی مشن سونپا گیا۔

ستار علوی کے مطابق ’جب ہم مشن مکمل کرنے کے بعد بیس کی جانب واپس لوٹ رہے تھے تو اچانک ریڈار نے اسرائیلی طیاروں کی موجودگی کے بارے میں مطلع کیا۔‘

اس وقت ستار علوی سمیت پاکستانی پائلٹس کے جہاز میں زیادہ ایندھن استعمال ہو چکا تھا جبکہ اچانک ہی ریڈار جام ہونے سے ان کے درمیان رابطے بھی منقطع ہو گئے۔

آٹھ پاکستانی پائلٹس شہباز 8 فارمیشن میں اڑ رہے تھے جس میں ستار علوی سب سے آخر میں موجود تھے۔ ان کے مطابق رابطہ منقطع ہونے سے قبل فارمیشن کمانڈر کی جانب سے سب کو اس سمت میں مڑنے کی ہدایت کر دی گئی تھی جس طرف سے اسرائیلی طیاروں کی آمد کی اطلاع تھی۔

یہ لبنان کی فضا تھی جہاں اسی دوران ستار علوی کو زمین کی طرف ایک چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔

ان کے مطابق یہ ایک اسرائیلی میراج جنگی جہاز تھا۔ ستار علوی نے اسی لمحے میں اپنی فارمیشن سے الگ ہوتے ہوئے اپنا رخ اس جہاز کی طرف موڑ لیا۔

ان کے مطابق اس دوران ’وہ جہاز میرے قریب سے گزر چکا تھا لیکن میری نظر اس کے پیچھے ایک دوسرے میراج لڑاکا جہاز پر پڑی۔‘

’جیسے ہی یہ دوسرا طیارہ میرے پاس سے گزار تو میں نے اس کی جانب دوبارہ مڑنے کے لیے ایک ایسی فضائی تکنیک کا استعمال کیا جس میں جہاز کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔‘

’میں نے دیکھا کہ مخالف جہاز نے بھی اسی تکنیک کا استعمال شروع کر دیا تھا جسے ہم ’سزرز‘ یعنی قینچی کی طرح جہاز اڑانا کہتے ہیں۔ یعنی دونوں جہاز آگے پیچھے ہیں اور دائیں بائیں مڑتے ہیں تاکہ مخالف کے عقب میں پہنچ کر اسے نشانہ بنا سکیں۔‘

ستار علوی کے مطابق اسی دوران انھوں نے زیرو سپیڈ پر اپنا جہاز ہوا میں ایک لمحے کو روکا تو اسرائیلی میراج ان کے آگے آ گیا۔

لیکن اب ستار علوی کو ایک مسئلہ درپیش تھا۔

ان کے مطابق ’وہ جہاز اتنا قریب تھا کہ اگر میں فورا فائر کرتا تو اس کا ملبہ میرے جہاز پر گرتا۔ مجھے محفوظ فاصلہ اختیار کرنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔‘

لیکن وقت کم تھا کیوں کہ ایک اور اسرائیلی لڑاکا طیارہ اب ستار علوی کا رخ کر رہا تھا جبکہ ستار علوی کے جہاز کا ایندھن بھی ختم ہونے کے قریب تھا اور ان کو جلد ہی فیصلہ کرنا تھا۔

ستار علوی کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیارے کے پائلٹ، کیپٹن لٹز، نے اپنی کمزور پوزیشن دیکھتے ہوئے نیچے کی جانب فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اس کوشش نے ستار علوی کو وہ محفوظ فاصلہ فراہم کر دیا جو ان کو فائر کرنے کے لیے درکار تھا۔

یہ بھی پڑھیےیوم کپور: عرب ممالک کا وہ حملہ جس نے ’ناقابلِ تسخیر‘ اسرائیل کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیادارا فیروز چنائے: وہ انڈین پائلٹ جو پاکستانی فوج سے بچ کر پیدل انڈیا پہنچنے میں کامیاب ہوا

ستار علوی نے جہاز کا روسی ساختہ میزائل فائر کرنے کے لیے چنا اور بٹن دبا کر فائر کر دیا۔ لیکن میزائل نہیں چلا۔

وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم کا وقت تھا جس میں ستار علوی کہتے ہیں کہ ’میرے ذہن میں نہ جانے کتنے خیال آئے کہ شاید میزائل پھنس گیا ہے یا کچھ اور ہو گیا ہے۔‘

حقیقت میں میزائل بٹن دبانے کے بعد ایک سیکنڈ کے وقفے کے بعد ہی فائر ہوتا ہے۔ ستار علوی کے لیے وہ ایک سیکنڈ ان کی زندگی کا طویل ترین لمحہ تھا۔

’دو تین سیکنڈ اور لگے ہوں گے جب میزائل اسرائیلی میراج کو لگا اور میں نے اسے پھٹتے ہوئے دیکھا۔‘

یہ پوری جھڑپ تقریبا 30 سیکنڈ میں ختم ہو چکی تھی جس کے بعد ستار علوی نے جہاز کو زمین کی جانب لے جا کر سپر سونک سپیڈ پر زمین سے صرف 50 فٹ کی بلندی پر اپنے شامی فضائی اڈے کا رخ کیا۔

اس دوران جیمنگ ختم ہونے پر ستار علوی نے فارمیشن کمانڈر کو اسرائیلی جہازوں سے ہونے والی جھڑپ کے بارے میں آگاہ کیا اور رن وے کا رخ کیا۔

فیول گیج زیرو سے بھی نیچے جا چکی تھی جب ستار علوی کا جہاز رن وے پر لینڈ کیا۔

’میری ٹانگوں میں جان نہیں تھی‘

ستار علوی کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی میں نے جہاز روک کر سوئچ آف کیا تو مجھے لگا کہ میری ٹانگوں میں سے جان نکل چکی ہے۔‘

زمین پر موجود عملے دیکھ چکا تھا کہ جہاز کا ایک میزائل غائب ہے لیکن ستار علوی نے کاک پٹ سے نکلتے ہی ایک کپ چائے کا مطالبہ کیا۔

ستار علوی نے شامی فوج کو اس مقام کے بارے میں بتایا جہاں ممکنہ طور پر جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد ایک ہیلی کاپٹر پر شامی فوجی اس مقام پر گئے جہاں ان کو زخمی اسرائیلی پائلٹ کیپٹن لٹز ملے جنھیں گرفتار کر لیا گیا۔

ستار علوی اسرائیلی پائلٹ سے ملاقات کے خواہشمند تھے لیکن اس سے قبل ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیپٹن لٹز کی موت واقع ہو گئی۔

شامی حکومت نے ستار علوی کو ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا جبکہ اسرائیلی پائلٹ کیپٹن لٹز کا فلائنگ اوورآل بھی ان کو بطور ٹرافی دیا گیا۔

ستار علوی کے مطابق حکومت پاکستان نے کئی سال اس واقعے کا اعتراف نہیں کیا۔ ’میں بھی چپ رہا، اگر کوئی مجھ سے پوچھتا تھا تو میں کہتا تھا کہ میں تو کبھی شام گیا ہی نہیں۔‘ تاہم حکومتِ پاکستان کی جانب سے بھی ستار علوی کو ستارۂ جرات دیا گیا۔

نوٹ: یہ تحریر ستار علوی کے اسرائیلی پائلٹ سے مقابلے پر ان کی جانب سے ماضی میں دیے جانے والے مختلف انٹرویوز پر مبنی ہے جن کی بی بی سی سے بات چیت کے دوران انھوں نے تصدیق کی ہے۔

1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاسب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک اسرائیل اتنی طاقتور ریاست کیسے بنا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More