’ہیرا منڈی، دی ڈائمنڈ بازار‘: لاہور کے شاہی محلے کو یہ نام کیسے ملا؟

بی بی سی اردو  |  May 02, 2024

بالی وڈ کے مشہور ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز ’ہیرا منڈی- دی ڈائمنڈ بازار‘ بالاخر ویب سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر ریلیز کر دی گئی ہے۔

فلم کے شاندار سیٹ کی بات ہو یا بہترین کیمرہ ورک کی، ریلیز کے ساتھ ہی آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کو شائقین کی جانب سے کافی پذیرائی مل رہی ہے۔

اس ویب سیریز کی کہانی تقسیم ہندوستان سے قبل اس علاقے میں بسنے والی ایک طوائف ملکہ جان اور ان کے کوٹھے کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔

دہائیوں قبل ہیرامنڈی رقص، موسیقی اور تہذیب کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ تبدیلیاں آتی گئیں اور اس علاقے سے ’بدنامی‘ جڑ گئی۔

مؤرخین کے مطابق اِس علاقے کی تاریخ 450 سال پرانی ہے جس کی تفصیلات کافی دلچسپی کی حامل ہیں۔

ہیرامنڈی وجود میں کیسے آئی تھی؟Getty Imagesبادشاہ اکبر کے دور میں لاہور شہر سلطنت کا مرکزی شہر تھا

ہیرامنڈی کو اس کا موجودہ نام تقریباً 250 سال پہلے ملا۔ اِس کا نام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دیوان ہیرا سنگھ کے نام پر رکھا گیا تھا۔

بادشاہ اکبر کے دور میں لاہور شہر سلطنت کا مرکزی شہر تھا اور اس وقت ہیرا منڈی کا علاقہ شاہی محلّہ کہلاتا تھا۔

آج بھی لاہور کے وہ علاقے جن میں حیدری گلی، ٹبی گلی، ہیرامنڈی اور قلعہ روڈ پر واقع ناولٹی چوک ’شاہی محلّہ‘ ہی کے نام سے معروف ہیں۔

ماضی میں شاہی خاندان کی رہائش گاہ کے ارد گرد کا علاقہ جہاں اُن کے نوکر، ملازمین اور دیگر اہلکار رہتے تھے اسے ’شاہی محلّہ‘ کہا جاتا تھا۔

آج بھی جو لوگ آٹو رکشہ یا ٹیکسی کے ذریعے ان علاقوں تک جاتے ہیں وہ اسے شاہی محلّہ ہی کہتے ہیں۔

یہاں موجود بہت سے ’کوٹھے‘ مغل دور حکومت میں قائم ہوئے اور یہ اس خطے کا سنہری دور تھا۔

Getty Images

سٹیج ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے پروفیسر تریپوراری شرما بتاتے ہیں کہ مغل دور میں ان علاقوں میں ریاست سے تعلق رکھنے والے امیر لوگ اور ان کے خاندان رہتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ خوشی کے موقعوں پر ان کے پروگرام شاہی محلّات میں ہوتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’آج کل لفظ کوٹھا کی جس طرح تشریح کی جاتی ہے وہ درست نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب کوٹھا آرٹ کا مرکز تھا جہاں صرف گانا، موسیقی اور رقص ہوتا تھا۔‘

’کوٹھوں سے منسلک خواتین اپنے آپ کو فنکار یا اداکارہ کہتی تھیں، یہاں اچھی تحریریں لکھی جاتی تھیں اور شاعری ہوتی تھی۔ کوٹھوں پر بہت اعلیٰ درجے کا مکالمہ ہوا کرتا تھا اور لوگ گفتگو کرنے کا ہنر جاننے کے لیے بھی یہاں آتے تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں بہت اعلیٰ سطح کے مکالمے ہوا کرتے تھے اور لوگ یہاں آ کر سیکھتے تھے کہ معاشرے میں بات چیت اور استدلال کیسے کیا جائے۔‘

اگرچہ 16ویں صدی کے آخر تک لاہور مغلیہ سلطنت کا مرکز نہیں رہا تھا لیکن ریاست کا اثر و رسوخ برقرار رہا۔

شاہی محلے میں جسم فروشی کی ابتداGETTY IMAGES

کرن جوہر کی فلم ’کلنک‘ میں ’حسن آباد‘ نام کا ایک شہر دکھایا گیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کی تحریک ہیرا منڈی نامی اسی علاقے سے لی گئی ہے۔

مغلوں کے زوال کے ساتھ ساتھ برصغیر میں مرہٹے مضبوط ہو رہے تھے جنھیں احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سامنا تھا۔ ابدالی نے پنجاب، شمالی ہند اور راجپوتانہ پر حملے کیے اور ان کی فوجوں نے ابتدا میں دھوبی منڈی اور ہیرا منڈی کے قریب محلہ دارا شکوہ کے علاقے میں اپنے مراکز قائم کر لیے۔

یہاں بسنے والی طوائفوں کا رابطہ کئی شاہی خاندانوں کے افراد سے بھی رہتا تھا۔

ابدالی کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث غربت بڑھی اور اس علاقے میں پیسوں کے عوض جسم فروشی کا کاروبار بڑھنے لگا اور یہاں کوٹھوں پر رہنے والی خواتین جسم فروشی کے پیشے کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو گئیں۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے غربت سے نبرد آزما خواتین اس پیشے میں روزگار کے لیے شامل ہونے لگیں۔

اس دور میں مغل گورنر ابدالی کے حملوں کو روکنے کی کوششیں کر رہے تھے اور مختلف گروہوں اور افواج میں تصادم کے باعث پیدا ہونے والی افراتفری کی وجہ سے یہ علاقہ بھی متاثر ہوا۔

اس پرآشوب دور کے بعد سنہ 1799 میں لاہور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں یہ علاقہ اور اس کے گردونواح مختلف وجوہات کی بنا پر زیادہ پریشانی میں نہیں پڑے۔ اسی دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دیوان ہیرا سنگھ کے نام پر شاہی محلے کا نام ہیرا منڈی پڑا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور ایک بار پھر ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرا اور اس کی شاہی رونق لوٹ آئی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب مارچ 1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔

Heritage imagesمہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور ایک بار پھر ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرا برطانوی دور اور ہیرا منڈیGetty Images

پروفیسر شرما کے مطابق جب انگریز اقتدار میں آئے تو انھوں نے ایسی تمام چیزوں کو بند کرنا شروع کر دیا جو بغاوت کا چارہ بن سکتی تھیں اور طوائفوں کے لیے بھی لائسنس کو لازمی قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جب کوٹھوں کے لیے لائسنس والا سلسلہ شروع ہوا تو پولیس نے قانون پر عملدرآمد کے لیے ان جگہوں پر چھاپے مارنا شروع کر دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’برطانوی دور حکومت میں پولیس تفتیش کے بہانے کسی بھی وقت چھاپہ مارنے کے لیے یہاں پہنچ جاتی تھی۔‘

’یہ معمول بن گیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے یہاں آنا جانا چھوڑ دیا اور اس جگہ کا تاثر آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔‘

پروفیسر شرما کے مطابق اس تبدیلی کی وجہ سے ہماری سماجی زندگی کے ایک حصے یعنی کوٹھوں کو عزت کی نگاہ دیکھنا ماضی کا قصہ بننے لگا اور بالآخر یہ علاقہ صرف جسم فروشی کے اڈوں کے طور پر معروف ہوا۔

Getty Imagesلاہور کا پرانا علاقہفلموں میں ہیرامنڈی

ہیرا منڈی: لاہور کے شاہی محلے کو یہ نام کیسے ملا؟دادا صاحب پھالکے نے پہلی ہندوستانی فلم 1913 میں بنائی۔ ابتدائی سالوں میں، خواتین فلموں میں اداکاری نہیں کرتی تھیں اور مرد ہی خواتین کا روپ دھار کر فلموں میں خواتین کا کردار کرتے تھے۔

غیر منقسم ہندوستان اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں فلموں میں کام کرنے والے کئی اداکاروں کی جڑیں ہیرا منڈی میں ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد یہاں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد انڈیا آئے اور یہاں فلمی صنعت اور دوسرے پیشوں سے منسلک ہو کر اپنی زندگی گزارنے لگے۔

پاکستان میں مقیم مصنفہ فوزیہ سعید نے بھی اپنی کتاب میں ہیرامنڈی کے بارے میں لکھا ہے۔

انھوں نے اپنی کتاب ’ٹیبو: دی ہیڈن کلچر آف اے ریڈ لائٹ ایریا‘ لکھنے کے لیے 8 سال تک ہیرامنڈی پر تحقیق کی۔

وہ یہاں رہنے والی خواتین اور کمیونٹی کے دیگر لوگوں کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو سامنے لائیں۔

جب انگریزوں کے خلاف بغاوت میں طوائفوں کے کوٹھے باغیوں کی پناہ گاہ بنےاپنے جیسوں کا مستقبل بچانے والی سابقہ سیکس ورکرز’منی ہیرا منڈی‘ میں شناخت کے متلاشی بچے: اپنی پوتی کو پیشے میں نہیں آنے دوں گی‘والیِ خیرپور جن کے لیے ہیرا منڈی کی گائیکہ کا عشق جوگ سے روگ بن گیا’مجھے ہر رات 10 مردوں کے ساتھ سونا پڑتا تھا‘: بہتر روزگار کا جھانسہ دے کر فروخت کی گئی لڑکی کی داستانریکھا بائی: ’میری ماں ایک طوائف تھیں اور انھیں اس پر کوئی شرمندگی نہ تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More