مناہل ال عتیبی: محمد بن سلمان کی اصلاحات کی حامی سعودی خاتون جنھیں ’دہشت گردی قوانین‘ کے تحت 11 سال قید کی سزا سنائی گئی

بی بی سی اردو  |  May 02, 2024

AFPمحمد بن سلمان کی جانب سے اصلاحات کے اعلان کے دو سال بعد مناہل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ’اپنی مرضی کا لباس پہننے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں‘

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک سعودی سماجی کارکن اور فٹنس انسٹرکٹر کو دہشت گردی کی ایک عدالت سے 11 سال قید کی سزا سنائے جانے کی مذمت کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سعودی عرب میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ’القسط‘ کا کہنا ہے کہ 29 سالہ مناہل ال عتیبی کو ’لباس کے انتخاب سمیت اپنے خیالات کے آن لائن پرچار کی بنیاد پر سزا سنائی گئی ہے۔‘

ان تنظیموں کے مطابق مناہل نے ’سعودی عرب میں رائج مردانہ سرپرستی کے نظام کے خاتمے کی حمایت کی تھی جبکہ ان کی عبایہ پہنے بغیر شاپنگ کرنے کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں۔‘

دوسری جانب سعودی سفارتکاروں نے اقوام متحدہ کو بتایا ہے کہ ’مناہل کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔‘

جینیوا میں سعودی عرب کی حکومت کے سفارتی مشن کی جانب جاری کردہ ایک خط میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ مناہل ال عتیبی کے خلاف مقدمے میں جنوری کے ماہ میں سزا سنا دی گئی تھی تاہم مقدمے کے بارے میں اس خط میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران سعودی عرب میں درجنوں افراد، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، کو سوشل میڈیا پر مواد پوسٹ کرنے سے متعلق مقدمات میں قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور لندن سے کام کرنے والی ’القسط‘ تنظیم کا کہنا ہے کہ مناہل 2017 میں سعودی عرب کے ولی عہد بننے والے شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ معاشرتی اور معاشی اصلاحات کے ابتدائی حامیوں میں شامل تھیں۔

محمد بن سلمان کی جانب سے ان اصلاحات کے اعلان کے دو سال بعد مناہل نے جرمنی کے ایک نشریاتی ادارے ڈوشے ویلی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ’اپنی مرضی کا لباس پہننے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں۔‘

مناہل نے اسی انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کا رویہ ولی عہد کے بیان پر مبنی ہے کہ ’میرے پاس اپنی مرضی کا لباس پہننے کا اختیار ہے، لیکن اسے (لباس) قابل احترام ہونا چاہیے۔‘

نومبر 2022 میں مناہل کو ایک ایسے وقت میں ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا جب سعودی عرب میں آن لائن کی دنیا میں حکومتی بیانیے سے اختلاف رائے کے خلاف کارروائیوں میں شدت آئی تھی۔

القسط کے مطابق مناہل پر ابتدائی طور پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ’ملکی سائبر قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور خواتین سے جڑے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جیسا کہ مردانہ سرپرستی اور حجاب اوڑھنے کا قانون۔‘ القسط کے مطابق مناہل پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے ان قوانین کے خلاف ’سوشل میڈیا پر مہم میں حصہ لیا، نازیبا لباس میں تصاویر اور ویڈیوز لگائیں اور عبایہ اوڑھے بغیر دکانوں میں جانے کی تصاویر بنا کر سنیپ چیٹ پر شیئر کیں۔‘

واضح رہے کہ سعودی عرب کے مردانہ سرپرستی قانون کے تحت کسی خاتون کے والد، بھائی، شوہر یا بیٹے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اُن کی شادی، طلاق اور بچوں کے بارے میں اہم فیصلے کر سکیں۔

مناہل کی بہن فوزیہ کو بھی ملتے جلتے الزامات کا سامنا ہے لیکن القسط کے مطابق جب ان کو تفتیش کے لیے طلب کیا گیا تو وہ ملک سے فرار ہو گئی تھیں۔

مناہل کی گرفتاری کے تین ماہ بعد ان کا مقدمہ ایک فوجداری عدالت کو بھجوا دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردی کی عدالت کو ایسے پرامن ناقدین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جو حکومت کی مخالفت کرتے ہیں اور اس عدالت میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کو ناصرف پورا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔‘

https://twitter.com/AmnestyMENA/status/1785412577926766838

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اثر و رسوخ کی کہانیمحمد بن سلمان کا ’وژن 2030‘: سوشل میڈیا پر زیرِ بحث پانچ سعودی خواتین کون ہیں؟

رواں برس نو جنوری کے دن مناہل کو عدالت کی جانب سے 11 سال کی سزا سُنا دی گئی تاہم یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب جنیوا میں سعودی سفارت کاروں کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کو ایک خط بھجوایا گیا جس پر 25 جنوری کی تاریخ درج ہے۔

اس خط میں تحریر ہے کہ ’عدالت نے دہشت گردی کے الزامات میں انسداد دہشت گردی قانون کے آرٹیکل 43 اور 44 کے تحت مناہل کو مجرم قرار دیا‘ جن میں ’ایسے افراد کی سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے جو کسی ویب سائٹ یا کمپیوٹر پروگرام یا الیکٹرانک آلات کا استعمال کرتے ہوئے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان قوانین کے تحت ایسے افراد کو بھی سزائیں دی جا سکتی ہیں جو کسی بھی طریقے سے افواہیں پھیلانے، جھوٹے بیانات پھیلانے یا دہشت گردی کے جرائم میں ملوث ہوں۔‘

سعودی حکومت کے اس خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’عدالت نے مناہل کے خلاف تمام شواہد کا جائزہ لیا اور ان کی تصدیق کی اور اس عمل کے دوران سعودی عرب کی عالمی ذمہ داریوں کا مکمل خیال رکھا گیا۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ حقوق کا دفاع کرنا ملکی قوانین کے تحت کوئی جرم نہیں لیکن کسی دہشت گرد کے عمل کو یہ کہہ کر درست قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کر رہے تھے جو ناقابل قبول اور دہشت گردی کے جرائم کو قانونی قرار دینے کی کوشش ہے۔‘

القسط میں کام کرنے والی لینا کا کہنا ہے کہ ’مناہل کا یہ اعتماد کہ وہ آزادی سے کام کر سکتی ہیں محمد بن سلمان کی جانب سے ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اصلاحات کی ایک مثبت تشہیر ثابت ہو سکتا تھا لیکن اسے گرفتار کرنے اور سزا دینے سے سعودی حکام نے ایک بار پھر اپنی اصلاحات کی متضاد شکل دکھائی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ سعودی حکام ملک میں خواتین پر قابو رکھنے میں کتنے پرعزم ہیں۔‘

فٹبال کے بعد گالف میں سرمایہ کاری: محمد بن سلمان سعودی عرب کو سپورٹس کا نیا مرکز کیسے بنا رہے ہیں؟97 برس قبل جب شاہ عبدالعزیز بغیر کسی خون خرابے کے مملکتِ حجاز کے بادشاہ بنےسعودی عرب کا قدیم خانہ بدوش بدو گروہ سے ملک بننے تک کا سفرسعودی عرب کے شاہ فیصل کے اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کی وجہ کیا تھی؟
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More