گھر کی چھت پر سولر پینل کے ذریعے بجلی کا بل زیرو کرنے کا طریقہ کیا ہے

بی بی سی اردو  |  May 06, 2024

BBC

پاکستان میں سوج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والے سولر سسٹمز کی مانگ میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک سال میں مکانات کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب میں اتنا اضافہ ہوا ہے جتنے اس سے پہلے دس برس میں نہیں ہوا تھا۔

گذشہ برس مارچ تک پاکستان میں شمسی توانائی سے کل پیداوار ایک ہزار میگا واٹ تھی اور رواں برس مارچ تک یہ 1800 میگا واٹ سے زیادہ ہو چکی ہے۔

لاہور کی بات کریں تو ہال روڈ کے پہلو میں بنے بازار میں جہاں دو سال قبل تک سولر پینلز کی چند ہی دکانیں تھیں۔ مگر اب یہاں آپ کو لگے گا کہ شہر میں لوگ صرف سولر پینلز اور اس کا متعلقہ سامان ہی خرید رہے ہیں۔

BBCلیکن سولر کی مانگ میں اچانک اتنا اضافہ کیوں ہوا ہے؟

لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن کے رہائشی معاذ نعمان اس کی وجہ جانتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے گھر پر سولر لگانے کا فیصلہ کیا۔

ان کے والد تھوڑا ہچکچا رہے تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ سولر لگوانے پر خرچہ اچھا خاصہ زیادہ تھا اور اگر فائدہ نہ ہوا تو پیسے ضائع نہ ہو جائیں۔

لگ بھگ دو برس بعد اب گذشتہ کئی مہینوں سے معاذ نعمان کے گھر کا بجلی کا بل ’صفر‘ آ رہا ہے۔ ان کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔

وہ کہتے ہیں ’ہمارا سال میں صرف جون اور جولائی کے دو مہینوں میں بل آتا ہے وہ بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ سارا سال ہمیں بل نہیں آتا۔‘

معاذ نعمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے گھر کی چھت پر لگے سولر سے وہ اتنی زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہیں کہ اپنی ضرورت پوری کر کے وہ اضافی بجلی واپڈا کو بیچ دیتے ہیں۔

’اس وقت بھی واپڈا کی طرف ہمارے کافی یونٹس پڑے ہیں۔ ہمارا بل منفی میں ہے۔‘

لیکن سوال یہ ہے کہ معاذ نعمان جیسے بجلی کے صارفین بجلی خریدنے والوں سے بجلی بیچنے والے کیسے بن گئے۔ کیا چھت پر سولر نصب کر کے اتنی بجلی بنائی جا سکتی ہے اور یہ واپڈا کو بیچی کیسے جاتی ہے؟

پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو کیا پاکستان میں صرف چھتوں سے اتنی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے کہ عام آدمی کو بجلی کے بھاری بھرکم بلوں اور لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے۔

BBCسولر سے بجلی کا بل زیرو کیسے کیا جا سکتا ہے؟

1۔ سٹیپ ون: آپ کے گھر کا لوڈ کتنا ہے؟

لاہور کے شہری معاذ نعمان کہتے ہیں کہ اس کے لیے سولر کے نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں ذاتی طور پر اس کا شوق ہے، اس لیے وہ اس پر تحقیق کرتے رہتے ہیں۔

معاذ نعمان کے مطابق آپ کو صرف یہ تخمینہ لگانا ہے کہ آپ کے گھر کا بجلی کا لوڈ یا کھپت کتنی ہے اور پھر آپ نے اس کو مینیج کرنا ہے، یعنی اس کے حساب سے سسٹم لگانا ہے۔

’اس کے بعد جو اضافی یونٹس پیدا ہوں گے وہ آپ واپڈا کو بیچ دیں گے۔ یہی یونٹس رات کے وقت آپ استعمال کریں گے۔‘

اس طرح آپ دونوں کا حساب برابر رہے گا۔ لیکن اگر آپ اتنے زیادہ ہونٹس بنا رہے ہیں جو رات میں استعمال کرنے کے بعد بھی فالتو بچ رہے ہیں تو وہ آپ کے کھاتے میں جمع ہوتے جائیں گے اور آپ کا بل منفی میں آیا کرے گا۔

2۔ سٹیپ ٹو: نیٹ میٹرنگ

گھر کے لوڈ کا تعین کرنے کے بعد باری آتی ہے اس چیز کی کہ آپ واپڈا کو اضافی یونٹ کیسے دیں گے۔ لاہور کے ہال روڈ پر سولر کا کاروبار کرنے والے محمد انس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے آپ کو ’نیٹ میٹرنگ‘ کی ضرورت ہو گی۔

’ایک دس کلو واٹ کا نیٹ میٹرنگ والا سولر سسٹم اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ ایک مہینے میں آپ کے لیے آٹھ سو یونٹس بجلی پیدا کرے۔

’ایک عام گھر کی اوسط بجلی کی کھپت بھی لگ بھگ اتنی ہی ہوتی ہے تو اس طرح اس گھر کا بجلی کا بل صفر ہو گا۔‘

نیٹ میٹرنگ کیا ہے؟BBC

یہ وہ طریقہ ہے جس سے آپ چھت پر لگے سولر سے بننے والی بجلی واپڈا کو بھیج سکتے ہیں۔ اس میں آپ کا سولر سسٹم ایک گرین میٹر کے ذریعے واپڈا کے بجلی کے گرڈ کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے۔

لاہور میں سولر فروخت کرنے والی کمپنی کے سیلز ایگزیکیٹو عدیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس انتظام کے تحت جو بجلی آپ سولر کے ذریعے پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہ واپڈا کو جا رہی ہوتی ہے۔

’جتنے یونٹس آپ بنا رہے ہوں گے وہ واپڈا ایک خاص قیمت پر آپ سے خرید رہا ہوتا ہے۔ جتنے پیسوں کے یونٹس وہ آپ سے خریدے گا اس کے عوض وہ اپنی بجلی کے یونٹس آپ کو بیچے گا جو آپ اپنے گھر میں استعمال کریں گے۔ یوں آپ اپنا بجلی کا بل کافی حد تک کم کر لیں گے۔‘

تاہم اس انتظام میں دقت یہ ہے کہ جب واپڈا کی لوڈ شیڈنگ ہو گی تو آپ کے پاس بھی بجلی نہیں ہو گی۔

تو سولر لوڈ شیڈنگ سے کیسے نجات دلا سکتا ہے؟BBC

3۔ سٹیپ تھری: لوڈ شیڈنگ سے بچانے کے لیے ہائبرڈ سولر سسٹم

سولر کا کاروبار کرنے والے محمد انس کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے ’ہائبرڈ سولر سسٹم‘ استعمال کرنا پڑے گا جس میں بیٹریاں نصب ہوئی ہوتی ہیں۔

’ہائبرڈ کا مطلب یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ والے سسٹم کے ساتھ بیٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ تو سولر پلیٹس جو بجلی پیدا کر رہی ہوتی ہیں وہ واپڈا کے جانے کے ساتھ ساتھ ان بیٹریوں کو چارج کرتی رہتی ہے جس سے آپ کا بیک اپ تیار ہو جاتا ہے۔‘

لوڈ شیڈنگ یا واپڈا کی بجلی میسر نہ ہونے کی صورت میں یہ بیٹریاں آپ کو بجلی فراہم کرتی رہتی ہیں۔

محمد انس کہتے ہیں ’اس سسٹم کا فائدہ یہ ہے کہ بیک اپ بنانے کے ساتھ ساتھ اس سسٹم سے آپ واپڈا کو بجلی فروخت کرتے رہتے ہیں۔‘

یوں آپ کا بل بھی کم آتا ہے اور آپ لوڈ شیڈنگ سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ان دونوں سسٹمز میں واپڈا کے بجلی گرڈ کے ساتھ منسلک ہونا ضروری ہوتا ہے۔

سولر کا کاروبار کرنے والی کمپنی کے سیلز ایگزیکیوٹو عدیل احمد کہتے ہیں کہ ’مکمل طور پر آف گرڈ جانا بھی ممکن ہے لیکن اس میں بیٹریوں پر سارا بوجھ پڑتا ہے۔‘ اس طرح جب رات کے وقت یا ابر آلود موسم کے دوران بیٹری میں محفوظ بجلی چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتی ہے تو وہ بند ہو جائیں گی۔

تاہم اگر آپ کی بجلی کی ضرورت صرف دن کے وقت یا رات میں محض چند گھنٹے ہو تو یہ آف گرڈ سسٹم بہتر رہتا ہے۔

BBCیہ بھی پڑھیےگھریلو صارفین کے سولر پینل لگانے سے عام عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ کیسے پڑ رہا ہے؟پاکستان میں شمسی ذرائع سے بجلی کی پیداوار ’نہ ہونے کے برابر‘ کیوں؟مودی کا ایک کروڑ گھروں کے لیے سولر سسٹم لگانے کا اعلان: انڈیا میں سولر پاکستان سے تقریباً 33 فیصد سستا کیسے ہے؟ایک عام گھر کے لیے کتنے بڑے سولر سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے؟

سولر فروخت کرنے والی کمپنی کے سیلز ایگزیکیٹو عدیل احمد کہتے ہیں کہ سولر سسٹم نصب کرنے کے لیے ڈیزائن گھر کے ایریا کے حساب سے نہیں بنایا جاتا بلکہ اس گھر کی بجلی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔

'عام طور پر ایک گھر کی بجلی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے تین کلو واٹ کا سولر سسٹم موزوں رہتا ہے۔ اس سے چھوٹے سسٹم کا فائدہ نہیں ہو پائے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس سسٹم میں چھ سولر پلیٹس، ایک انورٹر اور دو بیٹریاں شامل ہوتی ہیں۔

عدیل احمد کے مطابق ایک اچھا تین کلو واٹ کا سسٹم پانچ سے آٹھ لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔ قیمت میں اونچ نیچ کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ آپ کون سی قسم کا انورٹر استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انورٹرز مہنگے ہوتے ہیں ورنہ سولر پینلز بہت سستے ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی درآمد پر ڈیوٹی یعنی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

خیال رہے کہ حکومت نے سولر کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کے لیے ٹیکس میں یہ چھوٹ دے رکھی ہے۔

سولر کا کاروبار کرنے والوں نے بی بی سی کو بتایا کہ قیمتوں میں کمی اور واپڈا کی بجلی مہنگے ہونے کی وجہ سے گذشتہ چند ماہ میں سولر کی مانگ میں بہ پناہ اضافہ ہوا ہے۔

’کچھ مہینوں میں ہر دوسری چھت پر سولر نظر آ رہا ہے‘BBC

لاہور کے رہائشی معاذ نعمان نے اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر چاروں طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ چند مہینوں کے اندر ہی ہر دوسری چھت پر سولر نظر آ رہا ہے۔ دیر سے آئی ہے لیکن اب لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے سولر کی۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں بجلی کے لوڈ کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والے برقی آلات جیسے ایئر کنڈیشنر وغیرہ وہ واپڈا یا گرڈ کی بجلی پر چلاتے ہیں جبکہ کم بجلی خرچ کرنے والے آلات وہ سولر پر چلاتے ہیں۔

’ہمارے گھر کی ضرورت لگ بھگ چھ کلو واٹ تھی اور ہمارا ہائبرڈ سسٹم بھی اتنا ہی تھا۔ لیکن لائن لاسز کی وجہ سے سسٹم کی صلاحیت ساڑھے چار کلو واٹ کے قریب بچتی تھی۔ پھر میں اس میں اضافہ کر کے سات کلو واٹ تک لے گیا۔ اب ہم اپنی ضرورت سے اضافی بجلی بنا رہے ہیں۔‘

سولر کا کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ یہی ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے سولر کا رخ کیا ہے۔

سولر فروخت کرنے والے عدیل احمد کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں جس رفتار سے سولر کی قیمت کم ہو رہی ہے اور لوگ خرید رہے ہیں ہمیں تو لگتا ہے عنقریب سولر پینل ریڑھیوں پر بکیں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت سولر پینل کی قیمت پاکستان میں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ اس کی وجہ سے سولر سسٹم لگانے کا خرچ گذشتہ چند ماہ میں مسلسل کم ہوا ہے۔ ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں اس کے اوپر جانے کے بھی کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

BBCلیکن اگر حکومت ٹیکس لگا دے؟

حال ہی میں مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ حکومت کو سولر استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر ایک فکسڈ ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس تجویز میں 12 کلو واٹ یا اس سے زیادہ کے سسٹم لگانے والوں پر ٹیکس لگانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ چھتوں سے بننے والی جو بجلی حکومت کو خریدنی پڑ رہی ہے وہ اس بجلی کے علاوہ ہے جس کے لیے وہ بجلی بنانے والی کمپنیوں سے معاہدے کر چکی ہے۔

اس طرح اسے اس بجلی کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے چاہے وہ اس کو استعمال کرے یا وہ اضافی ہو۔ تاحال حکومتی سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی کہ ایسا کوئی ٹیکس لگایا جائے گا تاہم صارفین کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ حکومت کی طرف سے زیادتی ہو گی۔

لاہور کے شہری معاذ نعمان کہتے ہیں کہ ’باقی دنیا میں ہر جگہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جاتی ہے اور ہمارے لیے یہ مشکل بنا دیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’سولر لگانے میں تمام تر خرچہ بھی صارف کا ہوتا ہے اور محنت بھی وہی کرتا ہے تو الٹا حکومت اس میں سے پیسے لے تو یہ زیادتی ہو گی۔‘

سولر کا کاروبار کرنے والے افراد کا خیال ہے کہ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حکومت چھوٹے گھریلو صارفین کے لیے ایسا کوئی قدم اٹھائے گی۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس سے کاروبار یا صنعتیں زیادہ متاثر ہوں گی جنھوں نے کئی سو کلو واٹ کے سسٹم لگا رکھے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے سورج امید کی کرن، مگر اس پر کتنا خرچہ آتا ہے؟گھریلو صارفین کے سولر پینل لگانے سے عام عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ کیسے پڑ رہا ہے؟مودی کا ایک کروڑ گھروں کے لیے سولر سسٹم لگانے کا اعلان: انڈیا میں سولر پاکستان سے تقریباً 33 فیصد سستا کیسے ہے؟گھروں میں سستی بجلی فراہم کرنے والے سولر پینلز کو ری سائیکل کرنا کیوں ضروری ہے؟انڈیا کی چمکتی دمکتی اور بل کھاتی شمسی نہریں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More