رابندرناتھ ٹیگور: دو ممالک کا قومی ترانہ لکھنے والے شاعر و ادیب کی داستان محبت

اردو نیوز  |  May 07, 2024

آج انڈیا کے ایک ایسے شخص کا ذکر مذکور ہے جنھیں کئی اعتبار سے دنیا میں شہرت حاصل ہے اور وہ اس لیے کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنا 163 واں جنم دن منا رہے ہوتے۔

انھیں ایک موسیقار، ایک شاعر، ایک ناول نگار، ایک فلسفی، ایک مصلح، ایک مصنف، ایک ڈرامہ نگار اور ایک پینٹر کے طور پر عالمی شہرت ملی۔ انھیں ان کی شعری تخلیق ’گیتانجلی‘ کے لیے سنہ 1913 میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا جو کہ کسی بھی انڈین کو کسی بھی شعبے میں ملنے والا پہلا نوبل انعام تھا۔

اس کی وجہ ان کی آفاقی سوچ تھی اور اس کا اظہار ان کی تصانیف کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و خیالات میں بھی ملتا ہے۔ وہ دنیا کے واحد ایسے شاعر ہیں جن کے گیت کم از کم دو ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش کے قومی گیت ہیں۔

انڈیا کے قومی ترانے ’جن ‏گن من۔۔۔‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے جارج پنجم کی مدح میں نظم لکھنے کو کہا گیا تو انھوں نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور مادر وطن کی نذر ایک نظم لکھی جو سنہ 1911 اور 1912 میں کانگریس کے اجلاس میں پڑھی گئی۔

بہر حال ان کے گیت ’امار سونار بنگلا‘ کو ان کی موت کے تقریباً 30 سال بعد بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد قومی گیت کے روپ میں اختیار کیا گیا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سری لنکا کا قومی ترانہ اگرچہ ان کا لکھا ہوا نہیں ہے لیکن وہ ان کے افکار و خیالات سے متاثر ہے کیونکہ اس گیت کے مصنف اس گیت کی تحریر کے وقت ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے شانتی نکیتن میں تھے اور وہ ان سے بہت زیادہ متاثر تھے۔

رابندرناتھ ٹیگور کی پیدائش 7 مئی سنہ 1861 کو کلکتہ کے جوراسینکو محل میں ہوئی تھی اور وہ اپنے والدین کی 13ویں اولاد تھے۔ انھوں نے دس سال سے کم عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی جبکہ ان کی پہلی کہانی 17 سال کی عمر میں شائع ہو گئی تھی۔

انھیں عرف عام میں ’گرودیو‘ یعنی استاد محترم بھی کہا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انھیں پہلے پہل مہاتما گاندھی نے اس لقب سے یاد کیا تھا جبکہ ٹیگور نے گاندھی کو ’مہاتما‘ کے لقب سے یاد کیا تھا۔

ٹیگور نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی تھی لیکن ان کے بڑے بھائی نے انھیں وکالت کی ڈگری کے لیے انگلستان روانہ کیا تھا جہاں سے وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلے آئے تھے۔

22-23  سال کی عمر میں ان کی شادی 10 سال کی ایک دیہاتی لڑکی مرنالنی سے کر دی گئی۔ لیکن ان کی شادی کے کوئی چھ ماہ کے اندر ان کی بھابھی کادمبری نے خودکشی کر لی۔

ٹیگور کو اپنی بیوی مرنالنی سے بعد میں انسیت ہونے لگی تھی اور اس کا اظہار ان کے خطوط میں بھی ملتا ہے (فوٹو اے ایف پی)ان کی خودکشی کی کئی توجیہات پیش کی گئیں۔ نتیہ پریہ گھوش ٹیگور کے متعلق ایک تصنیف ’رابندرناتھ ٹیگور: اے پکٹوریل بایوگرافی‘ میں لکھتے ہیں کہ ٹیگور کی موت کے بعد بھی کادمبری کی موت کے بارے میں قیاس آرائياں جاری ہیں۔ کوئی انھیں خبطی یا پاگل قرار دیتا ہے، جبکہ کسی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے تغافل نے ان کی جان لی جبکہ ایک اداکارہ سے ان کے حسد کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے جن سے ان کے شوہر بہت قریب تھے۔ کوئی اس بات کا قائل ہے کہ وہ رابندرناتھ ٹیگور سے محبت کرتی تھیں اور ان کی شادی کی وجہ سے انھیں بہت دکھ پہنچا تھا اس لیے انھوں نے خودکشی کر لی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے خودکشی سے قبل ایک خط تحریر کیا تھا جسے دیویندرناتھ کے حکم پر ضائع کر دیا گیا تھا۔

بہر حال مصنف سنیل کھلنانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تقریباً ’80 سال کی عمر میں ٹیگور نے اس واقعے کا ذکر کیا تھا کہ وہ اور کادمبری ساتھ بیٹھ کر گرمی کی دوپہر میں کلکتے سے آنے والی ادبی تحریروں کو پڑھا کرتے تھے اور کادمبری انھیں آہستہ آہستہ پنکھا جھلا کرتی تھی۔‘

بہر حال ٹیگور کو اپنی بیوی مرنالنی سے بعد میں انسیت ہونے لگی تھی اور اس کا اظہار ان کے خطوط میں بھی ملتا ہے۔ لیکن ان کی یہ محبت بھی ادھوری ہی رہی کیونکہ مرنالنی کی موت 29 سال کی عمر میں ہو گئی۔ ٹیگور نے ان کی یاد میں 27 نظموں کا ایک انتخاب سنسمرن کے نام سے شائع کیا۔

انگلستان کے سفر سے قبل ٹیگور کو سپوکن انگلش سیکھنے کے لیے بمبئی (آج ممبئی) بھیجا گیا جہاں لندن سے لوٹ کر آنے والی اننا نے انھیں دو ماہ تک انگریزی زبان میں گفتگو کا طور طریقہ سکھایا۔ ان دونوں میں بھی انسیت بڑھی اور اچاریہ کرپلانی کی ٹیگور کی زندگی پر تصنیف میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اننا ہی ٹیگور کی ’نلنی‘ ہیں جن کا ذکر ان کے ناولوں میں کئی جگہ ملتا ہے۔ نلنی کی شادی ہوگئی اور وہ انگلینڈ میں رہنے لگیں لیکن 34 سال کی عمر میں ان کی موت ہوگئی۔ بہر حال موت تک ایک دوسرے سے خط و کتابت جاری رہی جس میں وہ ٹیگور کی نلنی ہی رہیں۔

اخیر عمر میں ان کی ملاقات بیونس آئرس میں وکٹوریا اوکیمپو سے ہوئی تھی جن سے انھیں گہرا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس کا بہت ذکر نہیں ملتا لیکن حال ہی میں وکٹر بینرجی کی ایک فلم میں ان دونوں کے عشق کے قصے کو بیان کیا گیا ہے۔

اگرچہ دونوں میں احترام کے تعلقات تھے لیکن دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے متاثر نہیں تھے (فوٹو ٹیلیگراف انڈیا)مہاتما گاندھی کے ساتھ تعلقات

ٹیگور کی ملاقات 1914 میں مہاتما گاندھی سے ہوئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ یہ ملاقات ایک انگریز ادیب سی ایف اینڈریوز نے کرائی تھی۔ اس وقت تک ٹیگور اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے اور انھیں نوبل انعام بھی مل چکا تھا لیکن مہاتما گاندھی کے سیاسی سفر کی یہ محض ابتدا تھی۔

اگرچہ دونوں میں احترام کے تعلقات تھے لیکن دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے متاثر نہیں تھے اور ایک دوسرے کو اپنے دلائل سے ہم نوا بنانا چاہتے تھے۔ ٹیگور کی موت کے بعد جب مہاتما گاندھی نے شانتی نکیتن کا دورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اپنے اختلافات پر بہت غور کیا تو اخیر میں پایا کہ ہم میں تو کوئی اختلاف تھا ہی نہیں۔‘

ٹیگور کو تاج برطانیہ کی جانب سے ’نائٹ ہڈ‘ کا خطاب بھی ملا تھا جو انھوں نے 1919 کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے بعد احتجاجاً واپس کر دیا تھا۔ 1921 میں انھوں نے ’شانتی نکیتن‘ کی بنیاد رکھی جو آج سینٹرل یونیورسٹی ’وشوا بھارتی‘ کے نام سے معروف ہے۔

ایک عرصہ تک بیمار رہنے کے بعد 7 اگست 1941 کو اس عظیم شاعر، مفکر اور موسیقار نے آخری سانس لی۔ انھیں جدید انڈیا کا سب سے بڑا نام کہا جا سکتا ہے جو ادب و ثقافت کا اپنے آپ میں ایک مجسم نمونہ تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More