کیا آپریشن عزم استحکام کے فیصلے پر پی ٹی آئی کی قیادت تقسیم ہے؟

اردو نیوز  |  Jun 24, 2024

وزیراعظم کی زیرصدارت 22 جون کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں عزم استحکام آپریشن کا فیصلہ ہوا جس کے بعد پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں میں اختلافِ رائے سامنے آ رہا ہے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت سنیچر 22 جون کو نیشنل ایکشن پلان پر ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور سمیت تمام وزرائے اعلٰی اور آئی جیز شریک تھے۔

اجلاس میں وزیراعظم نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورے کے بعد دہشت گردی کے خلاف عزم استحکام آپریشن کی منظوری دی تھی۔ 

آپریشن کے فیصلے کے بعد سب سے پہلے پی ٹی آئی کی جانب سے مخالفت کی گئی۔ اتوار کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایوان میں احتجاج کیا۔

قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ آپریشن کے فیصلے سے پہلے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔ دوسری جانب اسد قیصر نے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کسی بھی آپریشن کی مخالفت کرے گی۔ انکا کہنا تھا کہ ’ہمارے صوبے کے لوگوں نے بہت نقصان اٹھایا اب مزید برداشت نہیں کریں گے۔‘

کیا آپریشن عزم استحکام سے متعلق وزیراعلٰی خیبرپختونخوا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا؟ 

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ صوبے کے ایگزیگٹو ہونے کی حیثیت سے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور اجلاس میں شریک ہوئے لیکن ابھی تک آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت کا کوئی کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ آپریشن کہاں ہونا ہے اور کیا طریقہ کار ہوگا، اس سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ وزیراعلٰی سے متعلق غلط بیانات منسوب کیے جا رہے ہیں جوکہ حقیقت کے برعکس ہیں۔‘

عزم استحکام آپریشن کے معاملے پر پی ٹی آئی تقیسم ہے؟

مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق ’پی ٹی آئی کے اندر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ ہمارا بھی وہی موقف ہے جو کل قومی اسمبلی کے باہر دیگر رہنماوں نے اپنایا۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ آپریشن سے پہلے یہ معاملہ ایوان میں زیر بحث ہو تاکہ عوامی نمائندوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلٰی علی امین عمران خان سے ملاقات کے بعد آگے کے لائحہ عمل سے اگاہ کریں گے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’ایپکس کمیٹی میں امن و امان سے متعلق بات ہوئی اور پالیسی پر بات کی گئی۔‘ (فوٹو: اے پی پی)سینیئر صحافی شمیم شاہد کے مطابق ‘پی ٹی آئی میں اندرونی سطح پر اختلافات موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیراعلٰی ایپکس کمیٹی میں شریک تھے اور انہیں ایجنڈے کاعلم نہیں، مجھے لگ رہا ہے کہ وزیراعلٰی نے اجلاس میں الگ موقف اپنایا اور باہر کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے خود کنفوژن پیدا کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی پالیسی بھی واضح نہیں ہے بیرسٹر سیف وفاق سے پوچھ رہے ہیں کہ آپریشن کی تفصیل فراہم کی جائے، وہ یہ سوال وزیراعلٰی سے پوچھیں جو اجلاس میں فیصلے کے دوران بیٹھے ہوئے تھے، انہیں ایجنڈے کا علم تھا۔ علی امین بہتر جواب دے سکتے ہیں۔‘

صحافی شمیم شاہد کے مطابق ’قومی اسمبلی کے علاوہ پی ٹی آئی کے کور کمیٹی ممبران میں بھی شدید اختلافات موجود ہیں جس کی حالیہ مثال شہریار آفریدی کی تقریر اور شیر افضل مروت کا بیان ہے۔‘

آپریشن کا دائرہ کار کیا ہو گا؟ 

سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک کلئیر نہیں کہ آپریشن کہاں اور کس گروپ کے خلاف کرنے جارہے ہیں کیونکہ پاکستان میں بہت سارے شدت پسندوں کی تنظیمیں فعال ہیں۔ اس سے پہلے درجن سے زائد آپریشن ہوئے جس میں ضرب عضب پر سب سے زیادہ خرچہ آیا۔ دہشت گردی کے خلاف دوبارہ آپریشن کے فیصلے سے بہت سے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔‘

’اب تک جو آپریشن ہوئے اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔ دوسری اہم بات خیبرپختونخوا کے عوام جنگ اور لڑائی سے تنگ آچکے ہیں، اس سے پہلے بہت نقصان اٹھانا پڑا مگر نتائج زیرو تھے۔‘

مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اور ضم قبائلی اضلاع میں پہلے سے سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں، روزانہ کی بنیاد پر انٹلیجنس بیسڈ آپریشن بھی کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی میں اختلافات نہیں ہیں، وہ یہ معاملہ ایوان میں لانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں پتا چلے کہ آپریشن کہاں اور کس کے خلاف ہورہا ہے، مزید کہا کہ حکومت خود بھی تذبذب کا شکار نظر آرہی ہے ابھی تک واضح نہیں کہ ان کی پالیسی کیا ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور نے 24 جون کو اڈیالہ کے باہر میڈیا کو بتایا کہ ’ایپکس کمیٹی میں امن و امان سے متعلق بات ہوئی اور پالیسی پر بات کی گئی مگر آپریشن سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ تاحال آپریشن سے متعلق کوئی کلیریٹی نہیں ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More