سنہ 1992 میں انڈین ایئر لائنز کے ملازمین سے ایک حیرت انگیز سروے کیا گیا۔
ایئرلائن کے عملے سے سوال کیا گیا کہ دہلی سے ممبئی کی فلائٹس کے دوران آپ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا مسافر کون ہیں؟ اس سروے کے جواب میں رتن ٹاٹا کو سب سے زیادہ ووٹ ملے، یعنی عملے کے بیشتر اراکین نے کہا کہ رتن ٹاٹا نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔
اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ واحد ’وی آئی پی‘ مسافر تھے جو اکیلے سفر کرتے تھے، اُن کا بیگ اور فائلیں اٹھانے کے لیے اُن کے ساتھ کوئی ملازم نہیں ہوتا تھا۔
جیسے ہی جہاز رن وے چھوڑ کر ٹیک آف کرتا تو وہ خاموشی سے اپنا کام شروع کر دیتے۔ وہ فضائی میزبانوں سے بہت کم چینی والی بلیک کافی طلب کرنے کے عادی تھے۔
تاہم اپنی پسند کی کافی نہ ملنے پر انھوں نے کبھی کسی فلائٹ اٹینڈنٹ (فضائی میزبان) کو کبھی نہیں ڈانٹا۔
انڈیا کے یہ بزنس ٹائیکون رتن ٹاٹا آج 86 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔
انھوں دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ’نمک بنانے سے سافٹ ویئر بنانے‘ والے ٹاٹا گروپ کی قیادت کی ہے جس میں آج تقریباً چھ لاکھ سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس گروپ کا سالانہ ریوینو 100 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
رتن ٹاٹا کی سادگی کے اور بھی کئی قصے ہیں۔
گریش کبیر ’ٹاٹا گروپ‘ پر اپنی مشہور کتاب ’دی ٹاٹا: ہاؤ اے فیملی بِلٹ اے بزنس اینڈ اے نیشن‘ میں لکھتے ہیں ’جب رتن ’ٹاٹا سنز‘ نامی کمپنی کے سربراہ بنے تو کمپنی کے مالک کے لیے بنائے گئے کمرے میں نہیں بیٹھے تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹھنے کے لیے ایک سادہ سا کمرہ بنوایا۔‘
جب وہ کسی جونیئر افسر سے بات کر رہے ہوتے اور اس دوران کوئی سینیئر افسر آ جاتا تو وہ اسے انتظار کرنے کو کہتے۔
ان کے پاس دو جرمن شیفرڈ کتے ’ٹیٹو‘ اور ’ٹینگو‘ تھے جن سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے۔
کتوں سے ان کی محبت اس حد تک تھی کہ جب بھی وہ بمبئی ہاؤس میں اپنے دفتر پہنچتے تو گلی کے کتے انھیں گھیر لیتے اور لفٹ تک لے جاتے۔ یہ کتے اکثر بامبے ہاؤس کی لابی میں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھے جاتے تھے، جب کہ انسانوں کو وہاں صرف اس صورت میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی جب وہ عملے کے ممبر ہوتے یا انھیں ملنے کی پیشگی اجازت ہوتی۔
کتے کے بیمار ہونے کے باعث ایوارڈ لینے نہیں گئے
جب رتن کے سابق اسسٹنٹ آر وینکٹرامنن سے اُن کے باس کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا ’بہت کم لوگ مسٹر ٹاٹا کو قریب سے جانتے ہیں۔ جو اُن کے بہت قریب ہیں وہ ٹیٹو اور ٹینگو (پالتو کتے) ہیں۔ اُن کے جرمن شیفرڈ کتوں کے علاوہ کوئی ان کے قریب نہیں آ سکتا۔‘
مشہور بزنس مین اور مصنف سہیل سیٹھ بھی ایک قصہ بیان کرتے ہیں۔ ’6 فروری 2018 کو برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے بکنگھم پیلس میں رتن ٹاٹا کو راک فیلر فاؤنڈیشن لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینا تھا۔ لیکن تقریب سے چند گھنٹے قبل رتن ٹاٹا نے منتظمین کو آگاہ کیا کہ وہ نہیں آ سکتے کیونکہ ان کا کتا ٹیٹو اچانک بیمار ہو گیا ہے۔‘
جب چارلس کو یہ کہانی سُنائی گئی تو انھوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقی آدمی کی پہچان ہے۔
رتن ٹاٹا دکھاوے سے بہت دور رہتے تھے
رتن ٹاٹا بھی وقت کی پابندی کے لیے جانے جاتے تھے۔ وہ کام ختم کر کے شام ٹھیک ساڑھے چھ بجے اپنے دفتر سے گھر کے لیے نکلتے تھے۔
دفتر سے متعلق کام کے لیے گھر پر کوئی رابطہ کرتا تو وہ اکثر ناراض ہو جاتے۔ البتہ وہ اپنے گھر میں فائلیں اور دوسرے کاغذات پڑھتے تھے۔
اگر وہ ممبئی میں ہوتے تو اپنا ویک اینڈ علی باغ میں اپنے فارم ہاؤس پر گزارتے۔ اس دوران ان کے ساتھ ان کے کتوں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا تھا۔ انھیں نہ سفر کا شوق تھا اور نہ ہی تقریر کرنے کا۔ وہ نمود و نمائش سے دور تھے۔
بچپن میں جب فیملی کی رولز رائس کار انھیں سکول چھوڑنے جاتی تو وہ بے چینی محسوس کرتے تھے۔ جو لوگ رتن ٹاٹا کو قریب سے جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی ضدی طبیعت دراصل اُن کی خاندانی خصوصیت تھی جو انھیں اپنے والد نیول ٹاٹا سے وراثت میں ملی تھی۔
سہیل سیٹھ کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ ان کے سر پر بندوق رکھ دیں تو بھی وہ یہی کہے گا، مجھے گولی مار دو، لیکن میں راستے سے نہیں ہٹوں گا۔‘
اپنے پرانے دوست کے بارے میں بات کرتے ہوئے بامبے ڈائنگ کے سربراہ نصلی واڈیا نے کہا ’رتن ایک بہت ہی پیچیدہ کردار تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی نے اسے کبھی پوری طرح سے جانا ہے۔ وہ بہت گہرا آدمی ہے۔ ہماری قربت کے باوجود میرا رتن سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے۔۔۔ وہ مکمل طور پر تنہا ہے۔‘
کومی کپور اپنی کتاب ’این انٹیمیٹ ہسٹری آف پارسیز‘ میں لکھتی ہیں کہ ’رتن نے خود میرے سامنے اعتراف کیا کہ وہ اپنی پرائیویسی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ شاید میں زیادہ ملنسار نہیں ہوں لیکن مجھے لوگوں سے نفرت بھی نہیں ہے۔‘
رتن کی پرورش ان کی دادی نواز بائی ٹاٹا نے کی
ٹاٹا کی جوانی کا ایک دوست یاد کرتا ہے کہ ٹاٹا گروپ میں اپنے ابتدائی دنوں میں رتن اپنی کنیت ’ٹاٹا‘ کو بوجھ سمجھتے تھے۔
امریکہ میں تعلیم کے دوران وہ یقیناً بے فکر رہے کیونکہ ان کے ہم جماعت اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔
رتن ٹاٹا نے کومی کپور کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ’ان دنوں ریزرو بینک نے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والوں کو بہت کم غیر ملکی کرنسی بھیجنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ میرے والد قانون توڑنے کے موڈ میں نہیں تھے اس لیے انھوں نے میرے لیے بلیک میں ڈالر خریدنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے مجھے اپنے دوستوں سے پیسے ادھار لینے پڑتے اور کچھ اضافی پیسے کمانے کے لیے برتن بھی دھونے پڑتے تھے۔‘
رتن کی عمر صرف 10 سال تھی جب اُن کے والدین کی طلاق ہو گئی۔ رتن جب 18 سال کے ہوئے تو ان کے والد نے ایک سوئس خاتون سیمون ڈونیئر سے شادی کی۔
دوسری طرف ان کی والدہ نے طلاق کے بعد سر جمسیت جی جی جیبھائے سے شادی کی۔ رتن کی پرورش ان کی دادی لیڈی نواز بائی ٹاٹا نے کی۔
رتن سات سال تک امریکہ میں رہے۔ وہاں انھوں نے کارنیل یونیورسٹی سے آرکیٹیکچر اور انجینئرنگ میں ڈگری لی۔ لاس اینجلس میں ان کی اچھی نوکری اور ایک شاندار گھر تھا۔ لیکن اپنی دادی اور جے آر ڈی کے اصرار پر انھیں انڈیا واپس آنا پڑا۔
ان کی امریکی گرل فرینڈ بھی ان کے ساتھ انڈیا آئی تھی لیکن وہ یہاں کی زندگی سے ہم آہنگ نہ ہو سکی اور واپس امریکہ چلی گئی۔ رتن ٹاٹا ساری زندگی غیر شادی شدہ رہے۔
ایک عام مزدور کی طرح نیلے رنگ کا لباس پہن کر ملازمت کا آغاز کیا
سنہ 1962 میں رتن ٹاٹا نے جمشید پور میں ٹاٹا سٹیل میں کام کرنا شروع کیا۔
گریش کبیر لکھتے ہیں کہ ’رتن جمشید پور میں چھ سال تک مقیم رہے جہاں انھوں نے شروع میں اپنی انٹرن شپ ایک دکان میں فلور ورکر کے طور پر نیلے رنگ کا لباس پہن کر کی۔ اس کے بعد انھیں پروجیکٹ مینیجر بنا دیا گیا۔ بعد میں وہ منیجنگ ڈائریکٹر ایس کے ناناوتی کے سپیشل اسسٹنٹ بن گئے۔‘
ان کی لگن سے کام کرنے کی خبریں بمبئی پہنچیں اور جے آر ڈی ٹاٹا نے انھیں بمبئی بلا لیا۔
اس کے بعد انھوں نے ایک سال تک آسٹریلیا میں کام کیا۔ جے آر ڈی نے انھیں خسارے میں چل رہی کمپنیوں سینٹرل انڈیا ملز اور نیلکو کو بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی۔
رتن کی قیادت میں تین سال کے اندر بیلکو (نیشنل ریڈیو اور الیکٹرانکس) نے منافع کمانا شروع کر دیا۔ سنہ 1981 میں جے آر ڈی نے رتن کو ٹاٹا انڈسٹریز کا سربراہ بنایا۔
حالانکہ اس کمپنی کا ٹرن اوور صرف 60 لاکھ تھا لیکن یہ ذمہ داری اہم تھی کیونکہ اس سے پہلے ٹاٹا خود اس کمپنی کے کام کاج کو براہ راست دیکھتے تھے۔
غرور، تکبر سے انتہائی دور
اس وقت کے کاروباری صحافی اور رتن کے دوست انھیں ایک دوستانہ، مہذب اور دلچسپ شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں جس میں کسی قسم کا کوئی غرور نہیں تھا۔ کوئی بھی ان سے مل سکتا تھا اور وہ خود اپنے فون کا جواب دیتے تھے۔
کومی کپور لکھتے ہیں ’زیادہ تر انڈین ارب پتیوں کے مقابلے میں رتن کا طرز زندگی بہت سادہ تھا۔ ان کے ایک کاروباری مشیر نے مجھے بتایا کہ وہ حیران ہیں کہ ان کے پاس سیکرٹریوں کی بھیڑ نہیں ہے۔‘
انڈیا کی ایک لاکھ کی کار نینو: کیا رتن ٹاٹا کا ادھورا خواب نئے انداز میں پورا ہوسکے گا؟’قومی سلامتی یا اردوغان سے تعلق‘: ترک نژاد شہری نے ایئر انڈیا کے سی ای او کا عہدہ کیوں ٹھکرایا؟نمک بنانے سے طیارے اڑانے تک: کیا ٹاٹا گروپ ’دوبارہ‘ ایئر انڈیا کی کایا پلٹ پائے گا؟انڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟
’ایک بار جب میں نے ان کے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجائی تو ایک چھوٹے لڑکے نے دروازہ کھولا۔ وہاں کوئی وردی پوش نوکر یا شوفر نہیں تھے۔ کمبلا پہاڑیوں پر مکیش امبانی کے 27 منزلہ انٹیلیا کی چمک سے دور کولابہ میں سمندر کے سامنے والا رتن کا گھر ان کے مزاج اور سادگی کو ظاہر کرتا ہے۔‘
ٹاٹا کمپنی کا پہلے لگژری ہوٹل، ٹیکسٹائل کمپنی سے صنعتی شہر اور ائیر لائن و کمپیوٹر کی دنیا میں قدم تک
ٹاٹا کمپنی کو موجودہ حالت تک لانے میں ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگا لیکن یہ کئی شعبہ ہائے زندگی میں ہندوستان کی پہلی کمپنی رہی ہے۔
8 فروری 1911 میں لوناوالا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اُس وقت کے ٹاٹا گروپ کے سربراہ سر دوراب جی ٹاٹا نے اپنے والد جمشید جی ٹاٹا کے نظریات کے بارے میں بات کی تھی جنھوں نے سنہ 1868 میں ٹاٹا کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ اب دس ورٹیکلز کے ساتھ 30 کمپنیوں کا گروپ ہے اور چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک میں اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔
دوراب جی ٹاٹا نے کہا تھا کہ ’میرے والد کے لیے دولت کا حصول صرف ایک ثانوی چیز تھی۔ وہ اس ملک کے لوگوں کی صنعتی اور فکری حالت کو بہتر بنانے کو اولیت دیتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں وقتاً فوقتاً جن مختلف اداروں کو شروع کیا، ان کا بنیادی مقصد ہندوستان کی ان اہم پہلوؤں میں ترقی تھا۔‘
کمپنی کی ویب سائٹ پر ان کے مشن کے طور پر یہ درج ہے کہ ان کمپنیوں کا قیام دنیا بھر میں ’مختلف برادریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں ٹاٹا کے بانی جمشید جی ٹاٹا کو ممبئی کے ایک مہنگے ہوٹل میں ان کی رنگت کی وجہ سے داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
جمشید جی پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہوٹل سے بہتر ہوٹل بنائیں گے جس میں ہندوستانی شہریوں کو بھی آنے کی اجازت ہو گی۔
یوں سنہ 1903 میں ممبئی کے ساحل پر تاج ہوٹل کا قیام عمل میں آیا۔ یہ شہر کی پہلی عمارت تھی جس میں بجلی، امریکن پنکھے اور جرمن لفٹوں جیسی سہولیات فراہم کی گئی تھیں اور اس میں انگریز خانسامے کام کرتے تھے۔ اب اس کی شاخیں انڈیا، امریکہ اور برطانیہ سمیت نو ممالک میں ہیں۔
سنہ 1877 میں جمشید جی نے ’مہارانی ملز‘ کے نام سے ملک کی پہلی ٹیکسٹائل مل کھولی۔ مہارانی مل کا افتتاح اسی روز ہوا جس دن ملکہ وکٹوریا کی ہندوستان میں ملکہ کے طور پر تاج پوشی ہوئی تھی۔
جمشید جی کے ہندوستان کی ترقی کے لیے نظریے کو ہندی لفظ ’سودیشی‘ سے سمجھا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ’اپنے ملک میں بنا ہوا‘ ہے اور یہی خیال انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا حصہ تھا۔
ان کا سب سے بڑا خواب سٹیل کا کارخانہ بنانا تھا لیکن وہ اس خواب کی تعبیر سے پہلے ہی وفات پا گئے لیکن پھر ان کے بیٹے داروب جی نے ان کی وفات کے بعد اپنے والد کا خواب پورا کیا اور سنہ 1907 میں ’ٹاٹا سٹیل‘ نے پیداوار شروع کر دی۔ اور اس طرح ہندوستان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا جہاں سٹیل کا کارخانہ تھا۔
اس کارخانے کے گرد ایک شہر آباد ہوا جسے جمشید پور کا نام دیا گیا اور یہ آج انڈیا کی سٹیل سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جمشید جی نے اپنے بیٹے دوراب کو خط کے ذریعے ایک صنعتی شہر آباد کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اس شہر کی سٹرکیں کشادہ ہونی چاہییں، اس میں درخت، کھیلوں کے میدان، پارک اور مذہبی عبادت گاہوں کے لیے بھی جگہ مخصوص ہونی چاہیے۔'
ٹاٹا نے کسی قانونی پابندی کے بغیر خود ہی اپنے ملازمین کی بہبود کے لیے پالیسیاں متعارف کرائیں جن میں 1877 میں پینشن، 1912 میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات اور 1921 میں ماں بنے والی خواتین کے لیے مراعات شامل ہیں۔
ٹاٹا خاندان کے ایک اور فرد جہانگیر ٹاٹا سنہ 1938 میں 34 سال کی عمر میں کمپنی کے چیئرمین بنے اور تقریباً نصف صدی تک اس عہدے پر فائز رہے۔
انھیں صنعت کار بننے سے زیادہ پائلٹ بننے کا شوق تھا جو انھیں ’لوئیس بلو رائٹ‘ سے ملنے کے بعد پیدا ہوا تھا جو رودبارِ انگلستان کے اس پار پرواز کرنے والے پہلے پائلٹ تھے۔
جے آر ڈی ممبئی فلائنگ کلب سے ہندوستان میں پائلٹ کی تربیت مکمل کرنے والے پہلے شخص تھے۔ ان کے ہوائی لائسنس کا نمبر 1 تھا جس پر ان کو بہت فخر تھا۔
انھوں نے ہندوستان کی پہلی ہوائی ڈاک سروس شروع کی اور اکثر ڈاک کے ساتھ مسافر کو بھی لے جاتے تھے۔
بعد میں یہ ہی ڈاک سروس انڈیا کی پہلی ایئر لائن ’ٹاٹا ایئرلائن‘ بن گئی جس کا کچھ عرصے بعد نام بدل کر ’ایئر انڈیا‘ کر دیا گیا۔
حکومت ہند نے اس سے قبل ٹاٹا گروپ کے سربراہ جے آر ڈی ٹاٹا کو ایئر انڈیا کا چیئرمین بنا دیا اور وہ 1978 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد سے اس پر حکومت ہند کے عہدیداران فائز رہنے لگے۔
1968 میں انھوں نے اپنے خاندان کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے کاروبار کا آغاز کیا جو ترقی یافتہ ممالک سے منسوب کیا جاتا تھا یعنی کمپیوٹر سے متعلقہ کاروبار۔
’ٹاٹا کینسلٹنسی سروسز‘ یا ’ٹی سی ایس‘ نامی یہ کمپنی دنیا بھر میں سافٹ ویئر سپلائی کرتی ہے، اور یہ اس وقت بھی ٹاٹا گروپ میں سب سے زیادہ منافح بخش کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
جب جے آر ڈی نے اپنے جانشین کا انتخاب کیا
جب جے آر ڈی 75 برس کے ہوئے تو اس بارے میں کافی قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ ان کا جانشین کون ہو گا۔
ٹاٹا کے سوانح نگار کے ایم لالہ لکھتے ہیں کہ ’جے آر ڈی۔۔۔ نانی پالکھی والا، روسی مودی، شاہ رخ سب والا اور ایچ این سیٹھنا میں سے کسی کو اپنا جانشین بنانے کا سوچ رہے تھے۔ خود رتن ٹاٹا کا خیال تھا کہ اس عہدے کے دو اہم دعویدار پالکھی والا اور روسی مودی ہوں گے۔‘
سنہ 1991 میں جے آر ڈی نے 86 سال کی عمر میں صدر کا عہدہ چھوڑ دیا۔ اس وقت وہ رتن کی طرف متوجہ ہوئے۔
جے آر ڈی کا خیال تھا کہ رتن کے حق میں سب سے اہم چیز ان کی ’ٹاٹا‘ کنیت تھی۔ ٹاٹا کے دوست نصلی واڈیا اور ان کے معاون شاہ رخ سب والا نے بھی رتن کے نام کی وکالت کی۔
جب رتن ٹاٹا 25 مارچ 1991 کو اس گروپ کے چیئرمین بنے تو ان کے سامنے پہلا چیلنج یہ تھا کہ گروپ کے تین شہنشاہ درباری سیٹھ، روسی مودی اور اجیت کیرکر کو کیسے کمزور کیا جائے۔
اب تک یہ لوگ ٹاٹا کمپنیوں میں ہیڈ آفس کی مداخلت کے بغیر کام کر رہے تھے۔
ٹیٹلی، کورس اور جیگوار کا حصول
شروع میں لوگوں نے رتن ٹاٹا کی کاروباری ذہانت پر کئی سوالات اٹھائے۔
لیکن 2000 میں انھوں نے اپنے سائز سے دوگنا برطانوی ٹیٹلی گروپ کو خرید کر لوگوں کو حیران کر دیا۔
آج ٹاٹا کی گلوبل بیوریجز دنیا کی دوسری سب سے بڑی چائے کمپنی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے یورپ کی دوسری سب سے بڑی سٹیل مینوفیکچرنگ کمپنی ’کورس‘ کو خرید لیا۔
ناقدین نے اس معاہدے کی حکمت عملی پر کئی سوالات اٹھائے لیکن ایک طرح سے ٹاٹا گروپ نے اس کمپنی کے ساتھ اپنی صلاحیت ثابت کی۔
سنہ 2009 کے دہلی آٹو ایکسپو میں انھوں نے عام لوگوں کی کار ’نانو‘ کی نمائش کی جو ایک لاکھ روپے کی قیمت میں دستیاب تھی۔
نینو سے پہلے 1998 میں، ٹاٹا موٹرز نے ’انڈیکا‘ کار کو مارکیٹ میں پیش کی تھی جو انڈیا میں ڈیزائن کی گئی پہلی کار تھی۔
یہ کار ابتدا میں ناکام رہی اور رتن نے اسے فورڈ موٹر کمپنی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ رتن جب ڈیٹرائٹ گئے تو بل فورڈ نے ان سے پوچھا کہ وہ اس کاروبار کے بارے میں مناسب معلومات کے بغیر اس شعبے میں کیوں داخل ہوئے؟
انھوں نے ٹاٹا پر طنز کیا کہ اگر انھوں نے ’انڈیکا‘ خریدی تو وہ انڈین کمپنی پر بڑا احسان کر رہے ہوں گے۔ رتن ٹاٹا کی ٹیم اس رویے سے ناراض ہو گئی اور بات مکمل کیے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی۔
ایک دہائی کے بعد صورتحال بدل گئی اور 2008 میں فورڈ کمپنی گہرے مالی بحران کا شکار ہو گئی اور اس نے برطانوی لگژری برانڈز جیگوار اور لینڈ روور کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
کومی کپور لکھتے ہیں ’پھر بل فورڈ نے قبول کیا کہ انڈین کمپنی فورڈ کی لگژری کار کمپنی خرید کر ان پر بڑا احسان کرے گی۔ رتن ٹاٹا نے ان دونوں مشہور برانڈز کو 2.3 ارب امریکی ڈالر میں خریدا۔‘
جیگوار خریدنے کے بعد ٹاٹا پر تنقید
لیکن کچھ کاروباری تجزیہ کاروں نے رتن ٹاٹا کی اِن بڑی خریداریوں پر سوالات اٹھائے۔
اس کی دلیل یہ تھی کہکئی بڑی غیر ملکی کمپنیاں خریدنا رتن کے لیے مہنگے سودے ثابت ہوئے تھے۔ ’ٹاٹا سٹیل یورپ‘ سفید ہاتھی ثابت ہوا اور اس نے گروپ کو بھاری قرضوں میں دھنسا دیا۔
ٹی این نینن نے لکھا کہ ’یہ خریداریاں رتن کا تکبر اور برے وقت میں کیے گئے فیصلے ہیں۔‘
ایک مالیاتی تجزیہ کار نے کہا ’پچھلی دو دہائیوں میں انڈین کاروبار میں سب سے بڑے مواقع ٹیلی کام میں تھے لیکن رتن نے کم از کم ابتدائی طور پر اس موقع کو کھو دیا۔‘
مشہور صحافی سوچیتا دلال نے کہا کہ رتن نے ایک کے بعد ایک غلطی کی۔ ان کا گروپ جیگوار خرید کر مالی بوجھ تلے دب گیا تھا۔ لیکن ’ٹاٹا کنسلٹنسی سروس‘ یعنی ٹی سی ایس نے ہمیشہ ٹاٹا گروپ کی برتری کو برقرار رکھا۔
سال 2015 میں ٹاٹا گروپ کے منافع میں اس کمپنی کا 60 فیصد حصہ تھا۔ 2016 میں کسی بھی انڈین فرم کے مقابلے میں اس کمپنی کی کیپٹلائزیشنسب سے زیادہ تھی۔ حتیٰ کہامبانی کی ’ریلائنس‘ سے بھی آگے۔
نیرا راڈیا، تنشک اور سائرس مستری سے متعلق تنازعات
سنہ 2010 میں رتن ٹاٹا ایک بڑے تنازع میں پھنس گئے جب لابیسٹ نیرا راڈیا کے ساتھ ان کی ٹیلی فون پر بات چیت لیک ہو گئی۔
اکتوبر 2020 میں رتن ٹاٹا کو ٹاٹا گروپ کے جیولری برانڈ ’تنشق‘ کا ایک اشتہار عجلت میں واپس لینے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس اشتہار میں ایک متحد انڈیا کی تصویر دکھائی گئی تھی جو تمام مذاہب کو برابر سمجھتا ہے۔
بالآخر ’تنشک‘ کو دباؤ کی وجہ سے وہ اشتہار واپس لینا پڑا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر جے آر ڈی زندہ ہوتے تو وہ اتنے دباؤ میں نہ آتے۔
رتن کا نام اس وقت بھی شہ سرخیوں میں رہا جب انھوں نے 24 اکتوبر 2016 کو ٹاٹا گروپ کے چیئرمین سائرس مستری کو ایک گھنٹے سے بھی کم وقت کے نوٹس کے ساتھ برطرف کر دیا۔
ٹاٹا کو ایک قابل اعتماد برانڈ بنایا
لیکن اس سب کے باوجود رتن ٹاٹا کا شمار ہمیشہ انڈیا کے سب سے معتبر صنعت کاروں میں ہوتا تھا۔
جب انڈیا میں کووڈ کی وبا پھیلی تو رتن ٹاٹا نے فوری طور پر ٹاٹا ٹرسٹ سے 500 کروڑ روپے اور ٹاٹا کمپنیوں کے ذریعے 1000 کروڑ روپے دیے تاکہ اس وبائی امراض اور لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج سے نمٹا جا سکے۔
رتن ٹاٹا پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنے لگژری ہوٹلوں کو ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز کی رہائش کے لیے استعمال کرنے کی پیشکش کی جو خود کو شدید خطرے میں ڈال رہے تھے۔
آج بھی انڈیا کے ٹرک ڈرائیور اپنی گاڑیوں کے عقبی حصے پر ’اوکے ٹاٹا‘ لکھتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ٹرک ٹاٹا کا ہے اور اس لیے قابل اعتماد ہے۔
ٹاٹا نے عالمی دنیا پر اپنا نقش چھوڑا ہے۔ یہ کمپنی جیگوار اور لینڈروور کاریں تیار کرتی ہے اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز دنیا کی مشہور سافٹ ویئر کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
یہ سب بنانے میں رتن ٹاٹا کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انڈیا کی ایک لاکھ کی کار نینو: کیا رتن ٹاٹا کا ادھورا خواب نئے انداز میں پورا ہوسکے گا؟انڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟’قومی سلامتی یا اردوغان سے تعلق‘: ترک نژاد شہری نے ایئر انڈیا کے سی ای او کا عہدہ کیوں ٹھکرایا؟ٹاٹا: انڈیا کی سرکاری ایئر لائن ایک نئے روپ میں پرانے حریفوں کو مات دے سکے گی؟دورابجی ٹاٹا: اپنے خرچ پر ہندوستانی کھلاڑیوں کو اولمپکس میں بھیجنے والا تاجرکراچی سے شروع ہونے والی ایئرلائن جو دنیا میں انڈیا کی پہچان بنی