’میں رات کو کھلے میدان میں واقع کمرے کی چھت پر سو رہا تھا کہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آنکھ کھل گئی۔ اس کے ساتھ ہی دھماکوں کی آوازیں بھی آنا شروع ہو گئیں ۔ میں خوفزدہ ہو گیا اور نیچے جا کر کمرے میں چھپنے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی دو چار قدم ہی اٹھائے تھے کہ کوئی چیز قریب آ کر زوردار دھماکے سے پھٹ گئی اور میں زخمی ہو کر وہیں سیڑھیوں کے قریب گر گیا۔ ‘یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلہ کان میں کام کرنے والےعطاء اللہ عرف پہلوان کا جو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب نامعلوم عسکریت پسندوں کے حملے میں زخمی ہوئے۔ اس حملے میں ان کے ساتھیوں سمیت 20 بد قسمت مزدور جان کی بازی ہار گئے۔ عطاء اللہ سمیت سات لوگ زخمی بھی ہوئے۔عطاء اللہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے سے ان کے سر اور دائیں بازو پر چھوٹ لگی اور خون بہنا شروع ہوگیا۔ مدد کے لیے اپنے ساتھیوں کو پکارا مگر حملہ آوروں نے مدد کے لیے آنے والے ساتھیوں پر بھی فائرنگ شروع کر دی جس سے ایک اور ساتھی زخمی ہو گیا۔ان کے مطابق فائرنگ اور دھماکوں کا یہ سلسلہ مزید تیز ہوتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ساتھی میری مدد کرنے سے قاصر تھے۔ جب تک فائرنگ جاری رہی، میں اسی حالت میں درد سے کراہتے ہوئے پڑا رہا۔ اس دوران اتنی دیر ہو گئی تھی کہ میرے جسم سے بہنے والا خون زمین پر جم چکا تھا۔‘بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی شہر معروف سے تعلق رکھنے والے عطاء اللہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 34 میں سے 20 سال کوئلے کی کان کنی میں کام کرتے ہوئے گزارے ہیں مگر کبھی اتنا خوف محسوس نہیں کیا لیکن میں خوش قسمت تھا کہ زندہ بچ گیا۔دکی میں مزدوروں کی تنظیم نیشنل لیبر یونین کے ضلعی صدر عنبر خان سواتی کا کہنا ہے کہ دکی میں سینکڑوں چھوٹی بڑی کانیں ہیں جہاں 10 ہزار سے زائد کان کن کام کرتے ہیں ۔ جہاں حملہ کیا گیا وہاں ضلع کے ڈسٹرکٹ چیئرمین سمیت کئی اہم شخصیات کی کوئلہ کانیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کوئلہ کانوں میں بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع، خیبر پختونخوا کے علاوہ افغانستان کے مزدور بھی بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ مزدور مہینوں مہینوں گھر نہیں جاتے، اس لیے کوئلہ کانوں کے قریب کھلے میدان میں واقع کچے رہائشی کمروں میں رہتے ہیں جنہیں مقامی زبان میں ڈیرہ کہا جاتا ہے۔حملے میں زخمی ہونے والے ماجد گل بارکزئی نے بتایا کہ عموماً رات کی شفٹ میں بھی مزدور کوئلہ کانوں میں کام کرتے ہیں لیکن اس دن جمعرات تھی اور جمعرات کی شام سے جمعہ کی شام تک کوئلہ کان کن چھٹی کرتے ہیں۔ گپ شپ کی محفلیں سجتی ہیں، سب مزدوروں کو اس دن کا انتظار ہوتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں اور لڈو وغیرہ کھیلتے ہیں۔ان کوئلہ کانوں میں بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع، خیبر پختونخوا کے علاوہ افغانستان کے مزدور بھی بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ حملے کے وقت جمعرات کی وجہ سے زیادہ تر کان کن کوئلہ کانوں سے باہر اپنے ڈیروں میں موجود تھے۔ شاید حملہ آوروں نے بھی اسی لیے اس موقع اور وقت کا انتخاب کیا۔ماجد گل نے بتایا کہ وہ بھی اسی طرح کی ایک محفل سے لوٹ کر واپس آئے تھے اور کمرے میں اپنے موبائل فون پر فلم دیکھ رہے تھے کہ فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ کچھ دیر بعد باہر سے چیخنے کی آواز آئی تو پتہ چلا کہ ہمارا ایک ساتھی زخمی ہوا ہے۔ میں اسے بچانے کے لیے باہر نکلا تو مجھے بھی پاؤں میں گولی لگ گئی۔ماجد گل کے مطابق زخمی ہونے کے بعد وہ وہیں لیٹ گئے۔ بعدازاں ایک دوسرے رشتہ دار زمین پر رینگتے ہوئے ان کے پاس آئے اور انہیں کھینچ کر آگے تک پہنچایا جہاں وہ دو گھنٹے سے زائد تک محصور رہے۔عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ اور دھماکوں کا یہ سلسلہ رات ساڑھے 11 بجے شروع ہوا اور تقریباً دو بجے تک چلتا رہا۔حملہ آوروں کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ بلکہ دستی بم اور راکٹ لانچر بھی تھے جن کا وہ بے دریغ استعمال کر رہے تھے۔زندہ بچ جانے والے ایک اور کان کن حفیظ اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ حملہ آوروں نے آتے ہی فائرنگ شروع کر دی تھی اور کمروں اور کوئلہ کان کی مشینری کو آگ لگادی تھی۔ وہ ٹارچ کی روشنی ڈال کر لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مار رہے تھے۔علاقے کے ایس ایچ او نے بتایا کہ عینی شاہدین نے ڈرون کا ذکر کیا لیکن اس سلسلے میں ٹھوس معلومات نہیں فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ حملہ آور مزدوروں کو کمروں سے باہر نکال کر جمع کر رہے تھے، اس دوران ایک لڑکے کو کم عمر ہونے کی وجہ سے چھوڑا اور واپس کمرے میں جانے کو کہا باقیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ میرے دو دوست بھی باہر تھے وہ بھاگ کر کمرے میں آ گئے تو حملہ آور ان کے پیچھے آ گئے۔ حفیظ اللہ کے مطابق ہمارے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لیے کمرے کو اندر سے کنڈی لگا دی، حملہ آوروں نے دروازہ کٹھکھٹایا لیکن ہم نے دروازہ نہیں کھولا۔ حملہ آوروں نے باہر موجود لوگوں سے پوچھا کہ آپ نے کوئلہ کانیں بند کیوں نہیں کیں۔ مزدوروں نے کہا کہ ہم بند کر دیں گے اور یہ کام چھوڑ دیں گے۔ ہم باہر سے یہ سن رہے تھے۔ اس کے بعد شدید فائرنگ کی آواز آئی اور حملہ آوروں نے سب کو مار دیا۔انہوں نے بتایا کہ جب ملزمان فائرنگ کر کے چلے گئے تو ہم کمرے سے باہر نکلے۔ میرے ساتھ دو اور لڑکے تھے جنہیں غسل خانے میں چھپایا۔ میں کیکر کے درختوں کی طرف جا کر چھپ گیا۔حفیظ اللہ انکشاف کیا کہ حملہ آوروں کے پاس ڈرون بھی تھا جس کی مدد سے نہ صرف وہ نگرانی کررہے تھے بلکہ مزدوروں کو بھی تلاش کر کے مار رہے تھے۔بلوچستان میں اس سے قبل بھی مزدوروں کے اغوا، ٹارگٹ کلنگ اور سکیورٹی فورسز پر اس طرز کے حملے ہو چکے ہیں مگر ڈرون کے استعمال کی خبر پہلی سامنے آئی ہے۔ ماجد گل زخمی ساتھی کو بچاتے ہوئے خود فائرنگ کا نشانہ بنے، انہیں پاؤں میں گولی لگی (فوٹو: اردو نیوز)ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ حملہ آوروں کی جانب سے فلیئر گن کا بھی استعمال کیا گیا جس سے اندھیرے میں فضا میں کچھ دیر کے لیے کافی روشنی ہو جاتی تھی اور ہر چیز واضح نظر آجاتی تھی۔علاقے کے ایس ایچ او ہمایاں ناصر نے بتایا کہ کئی عینی شاہدین نے ڈرون کا ذکر کیا ہے لیکن ہمیں اس سلسلے میں ٹھوس معلومات نہیں ملیں تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے فضاء میں فلیئر گن کی مدد سے روشنی ہونے کا مشاہدہ خود کیا اور ایسا متعدد بار کیا گیا۔ڈسٹرکٹ کونسل دکی کے چیئرمین حاجی خیراللہ ناصر جو کوئلہ کان کے مالک بھی ہیں۔انہوں نے اردو نیوز کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ رات ساڑھے 11 بجے حملہ شروع ہوا تو انہیں مزدوروں نے اطلاع دی جس کے فوری بعد انہوں نے موجود اعلیٰ سکیورٹی افسران اور آئی جی پولیس تک سے رابطہ کیا مگر علاقہ چند کلومیٹر دور ہونے کے باوجود صبح روشنی ہونے تک پولیس اور سکیورٹی فورسز جائے وقوعہ تک نہیں پہنچیں۔خیراللہ ناصر کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس نہ صرف جدید ہتھیار، راکٹ لانچر بلکہ ڈرون بھی تھے جن کی مدد سے وہ جھاڑیوں اور درختوں کی آڑ میں چھپنے والے مزدوروں کو بھی تلاش کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ شہر رات بھر فائرنگ اور دھماکوں سے گونجتا رہا مگر کوئی مزدوروں کی مدد کو نہیں آیا۔ بلوچستان میں اس سے قبل بھی مزدوروں کے اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہو چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود اپنے محافظوں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ جا کر کافی دیر بعد زخمیوں اور لاشوں کو اٹھایا اور ہسپتال پہنچایا۔ شدید زخمیوں کو دکی سے لورالائی اور پھر کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔سول سپتال کوئٹہ میں زیرعلاج زخمیوں کے رشتہ داروں نے شکوہ کیا کہ ٹھیکیداروں نے اپنے فون بند کر رکھے ہیں ہماری کوئی مدد نہیں کر رہا۔ ہسپتال والے بھی ادویات اور سرجیکل آلات باہر سے منگوا رہے ہیں۔ کچھ زخمیوں نے بتایا کہ ان کے رشتہ دار افغانستان میں ہیں، ہمیں مجبوراً ان سے رقم منگوانا پڑ رہی ہے۔حملے میں زخمی ہونےوالے ماجد گل نے بتایا کہ اس حملے میں ان کے دو رشتہ دار عبدالولی اور حمداللہ کی موت ہو گئی۔ دونوں شادی شدہ اور بچوں کے باپ تھے۔انہوں نے بتایا کہ ہم افغانستان میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کوئلہ کانوں میں کام کرنے آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے کوئلہ کانوں کے اندر حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ٹرالی کی رسی ٹوٹنے، کرنٹ لگنے یا گیس جمع ہونے کی وجہ سے ہونےوالے حادثات کے نتیجے میں موت کا خوف رہتا تھا اور کان سے باہر نکلنے پر کچھ دیر کے لیے سکون مل جاتا تھا لیکن اب تو ہم کوئلہ کانوں کے اندر اور نہ ہی باہر محفوظ ہیں۔’اب ہمیں روزگار یا پھر زندگی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘