پاکستانی ڈرامہ ’کبھی میں، کبھی تم‘ اس وقت ہر پاکستان سمیت سرحد کے پار بھی سوشل میڈیا پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے جس کی آخری قسط منگل کی رات کو نشر ہو رہی ہے۔
اس ڈرامے کو دیکھنے والے افراد تجسس کا شکار ہیں کہ آخر اے آر وائی ڈیجیٹل کے پیش کردہ ڈرامے کی آخری قسط میں اختتام کس منظر پر ہوگا؟
یاد رہے کہ پاکستانی اداکار فہد مصطفیٰ اور ہانیہ عامر اس ڈرامے میں مصطفیٰ اور شرجینہ کا کردار نبھا رہے ہیں۔
اس ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ڈی بی پر 9۔6 ریٹنگ لینے والے اس ڈرامے کے یوٹیوب پر اب تک ایک ارب سے زیادہ ویوز ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ ’کبھی میں، کبھی تم‘ سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش اور انڈیا میں بھی ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا ہے۔ آخر اس ڈرامے کو اتنی پذیرائی ملی کیوں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے آرٹ اینڈ کلچر پر گہری نظر رکھنے والی آمنہ حیدر عیسانی سے بات کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس ڈرامے میں وہ سارے اجزا موجود ہیں جس سے اس بات کا اندازہ پہلے ہی لگایا جا سکتا تھا کہ ’کبھی میں، کبھی تم‘ ایک کامیاب ڈرامہ ہوگا۔‘ البتہ وہ یہ ضرور کہتی ہیں کہ انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس ڈرامے کو اس قدر کامیابی ملے گی۔
بقول آمنہ کے ڈرامے کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہفہد اور ہانیہ کی مقبولیت اور ان کی اداکاری کی صلاحیتیں ہیں۔
’کبھی میں کبھی تم‘ کے سین میں موجود فن پارے ’آرٹسٹ کی اجازت کے بغیر استعمال کیے گئے‘رومانس سے بھرپور کامیڈی ڈراموں کا رواج پاکستان میں کہاں سے آیا؟شازیل شوکت: پہلا ڈرامہ سائن کر کے گھر آئی تو ابو نے کہا کہ اپنی حدوں کا خیال رکھنا’پنچایت‘: گاؤں کی زندگی پر بننے والا ڈرامہ انڈیا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ کیوں بنا رہا ہے؟
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس ڈارمے کے سبب ایک لمبے عرصے کے بعد فہد مصطفیٰ کی ٹی وی سکرین پر واپسی ہوئی۔ اوپر سے فہد اور ہانیہ عامر کو عوام میں کافی مقبولیت بھی حاصل ہے اور وہ اداکار بھی کافی اچھے ہیں۔‘
دیکھنے والوں نے فہد اور ہانیہ کی آن سکرین جوڑی کو کافی پسند کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس ڈرامے سے کئی اور بڑے نام بھی جُڑے ہیں۔
فرحت اشتیاق جیسی ایک تجربہ کار مصنفہ نے سکرپٹ لکھا جب کہ یہ ڈرامہ فہد مصطفیٰ کے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے بنایا گیا ہے۔
آمنہ کے مطابق اس ڈرامے کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر توجہ دی گئی ہے۔
مثال کے طور پر ’جب مصطفیٰ اور شرجینہ اپنے الگ گھر میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ اپارٹمنٹ بھی اس ڈرامے کا ایک اہم حصہ بن جاتا ہے۔ وہ گھر میں چھوٹی چھوٹی چیزیں لاتے ہیں، جیسے کہ پودے لگائے جا رہے ہیں، فرنیچر آ رہا ہے، تصویریں لگ رہی ہیں اور لیمپ آ رہے ہیں۔‘
’ان کے گھر کا تبدیل ہوتا ہوا نقشہ بھی ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔‘
سوشل میڈیا کے تقریباً تمام ہی پلیٹ فارمز بھی اس ڈرامے سے متعلق پوسٹ سے بھرے پڑے ہیں اور ایسی دلچسپی عام طور پر ہر ڈرامے کے لیے دیکھنے میں نہیں آتی۔
آمنہ کے مطابق اس ڈرامے کو سوشل میڈیا پر موضوعِ گفتگو بنانے میں ہانیہ عامر اور فہد مصطفیٰ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ’جب بھی اس ڈرامے کی کوئی نئی قسط آتی تو ہانیہ یا فہد سوشل میڈیا پر کوئی پھلجڑی چھوڑ دیتے اور تمام ہی صارفین کو بات کرنے کے لیے کوئی ایک نئی وجہ دے دیتے۔‘
اب جب یہ ڈرامہ اپنے اختتام کی طرف جا رہا ہے تو ناظرین تھوڑے دُکھی بھی نظر آ رہے ہیں۔ ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ شرجینہ اور مصطفیٰ کے سفر کا آخری باب ہے لیکن ان کی پریم کہانی ایک طویل عرصے تک ہمیں متاثر کرتی رہے گی۔‘
یہ ڈرامہ نہ صرف ناظرین اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھ سکیں گے بلکہ اس کی آخری قسط پاکستان بھر میں مختلف سنیما گھروں میں بھی نشر کی جائے گی۔
انڈیا سے ایک سوشل میڈیا صارف کہتے ہیں کہ ’وہ تمام پاکستانی جو ’کبھی میں، کبھی تم‘ تھیٹر میں دیکھنے جا رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ سرحد پار سے ہماری محبت اور نیک تمنائیں فہد، ہانیہ اور ڈرامے کی پوری ٹیم تک پہنچا دیں۔‘
ڈرامے کی بات کرتے ہوئے اگر اس میں استعمال ہونے والی موسیقی کی بات نہ کی جائے تو شاید یہ ناانصافی ہوگی۔
بی بی سی اردو کے ساتھ گفتگو کے دوران آمنہ نے بتایا کہ ’جو کبھی میں، کبھی تم کا ساؤنڈ ٹریک ہے اس نے بھی ڈرامے کی مقبولیت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔‘
عموماً پاکستانی ڈراموں کے لیے ایک ہی گانا بنایا جاتا ہے لیکن اس ڈرامے کا ایک پورا البم ریلیز کیا گیا تھا جس میں چار سے پانچ گانے ہیں۔
ڈرامے کا ساؤنڈ ٹریک ’چل دیے ہم کہاں‘ پاکستانی میوزک بینڈ ’اور‘ جبکہ حال ہی میں ریلیز ہونے والا گانا ’سجنا دا دل توڑیا‘ لاہور کے مشہور گلوکار ذیشان علی نے گایا ہے۔
آمنہ کہتی ہیں کہ ’ایک سیدھی سادھی محبت کی کہانی ہے جس میں کوئی بڑا ٹوئسٹ نہیں ہے۔ ڈائیلاگ سادہ سی زبان میں ہیں۔ ان تمام اجزا کے امتزاج نے اس ڈرامے کو ایک بہترین کہانی میں تبدیل کر دیا۔‘
’عشق مرشد‘ میں وائرل ڈائیلاگ والے علی ملاح : ’بیٹے نے مشورہ دیا کہ اگر کاسٹ میں بلال عباس ہیں تو ڈرامہ ضرور کریں‘سٹینڈ اپ گرل: ’گانے، ڈانس اور گنڈاسہ نہیں لیکن پنجابی جُگت ضرور ہے جسے ناظرین سراہ رہے ہیں‘احمد علی اکبر: ’پری زاد کے بعد اشتہارات میں کام ملنا کم ہو گیا‘’کے ڈرامہ‘ کیوں دیکھا۔۔۔؟ دو لڑکوں کو 12 سال قید بامشقت کی سزاکورین ڈراموں کی بے بس اور نازک خواتین جو اب مضبوط اور پر تشدد ہو گئیں