Getty Images
انڈیا کی جانب سے پاکستان میں آ کر چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار اور اس کے ردعمل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اختیار کیے گئے ’سخت مؤقف‘ کے بعد جہاں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ منعقد ہو بھی پائے گا یا نہیں؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ سنہ 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں انڈیا سے سیمی فائنل میں شکست کے بعد سے دونوں ٹیموں کے درمیان لگاتار 10 آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کم از کم ایک میچ تو ضرور ہوا ہے اور ایسا ہونا محض اتفاق نہیں تھا۔
سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے انڈیا سے گروپ مرحلے میں شکست کھائی تھی لیکن فائنل میں انڈیا کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ تاہم اس ایونٹ سے پہلے تو پاکستان کی اس میں شرکت پر بھی سوالیہ نشان تھے کیونکہ اس وقت پاکستان آئی سی سی رینکنگز میں پہلی آٹھ ٹیموں میں شامل نہیں تھا۔
اُس وقت کے آئی سی سی چیئرمین ڈیو رچرڈسن نے ایونٹ سے پہلے برطانوی جریدے ’ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ آئی سی سی اِس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی گروپ میں رکھا جائے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ (میچ) آئی سی سی کے نقطۂ نظر سے انتہائی اہم ہے۔ یہ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور مداح ابھی سے اس کا انتظار بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ کے لیے بھی بہترین ہے کیونکہ یہ اس کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے اہم ہے۔‘
اس معاملے میں کرکٹ براڈکاسٹرز، یعنی میری اور آپ کی ٹی وی اور فون سکرینز پر میچ دکھانے والوں کا ووٹ بھی انتہائی اہم رہا ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے متعدد میچز تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھنے جانے والے میچوں میں سے ایک رہے ہیں۔
یہ اعداد و شمار عموماً انڈیا کی مارکیٹ سے لیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اس میچ کی ویورشپ بہت زیادہ رہتی ہے اور اس کا کمرشل ایئرٹائم ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں انتہائی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کیا آئی سی سی کے لیے واقعی اتنے اہم ہیں جتنے پاکستان میں کچھ تجزیہ کاروں کی جانب سے بتائے جا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پاکستان اور انڈیا اس کرکٹ براڈکاسٹرز، ایڈورٹائزرز اور اس سے متعلقہ معاملات پر رپورٹ کرنے والوں سے بات کی ہے۔ لیکن اس سب سے پہلے تاریخ کے اُس موڑ پر جاتے ہیں جب کرکٹ چلانے والوں کو آئی سی سی ٹورنامنٹس کی کامیابی کے لیے ایک ارب کی آبادی والے ملک انڈیا کی اہمیت کا صحیح معنوں میں ادراک ہوا تھا۔
2007 کا ورلڈ کپ اور انڈیا کی پہلے ہی راؤنڈ میں گھر واپسیGetty Images
’ہم ڈوب چکے ہیں۔‘
مارچ 2007 کے اواخر میں جب ون ڈے ورلڈ کپ میں انڈین کرکٹ ٹیم کو سری لنکا اور بنگلہ دیش سے پہلے ہی راؤنڈ میں اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنے کے باعث گھر لوٹنا پڑا تو یہ الفاظ دہلی کے ایک مارکیٹنگ ایگزیکٹیو راج موہن سنگھ نے کہے تھے۔
انڈیا کا پہلے ہی راؤنڈ میں ورلڈ کپ سے نکل جانا نہ صرف انڈین فینز اور ایڈورٹائزرز کے لیے بلکہ خود آئی سی سی اور اس کے اُس وقت کے براڈ کاسٹر ’سونی‘ کے لیے بھی ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ اور یہ اتنا بڑا دھچکا تھا کہ ’سونی‘ اس کے بعد آئی سی سی کے براڈکاسٹنگ رائٹس حاصل کرنے کی دوڑ سے ہی دستبردار ہو گیا تھا۔
انڈیا کے میچوں کے لیے براڈکاسٹر ’سونی‘ نے انڈیا میں اشتہار کے لیے 10 سیکنڈ کا سلاٹ ’ڈیڑھ لاکھ انڈین روپے‘ جبکہ 16 اپریل کو ممکنہ پاکستان انڈیا میچ کے لیے 10 سیکنڈ کا سلاٹ ساڑھے چار لاکھ انڈین روپے میں بیچ رکھا تھا۔
کولا برانڈ ’پیپسی‘ نے انڈین کرکٹ ٹیم کے لیے 350 کروڑ کی ’بلیو بلین‘ نامی تشہیری مہم بنائی تھی، جو اسے مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے انڈیا کی شکست کے حوالے سے ایک نیا اشتہار بنانا پڑا۔
اُدھر پاکستانی ٹیم آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز سے شکست کھا کر ورلڈ کپ سے باہر ہو چکی تھی۔
اس وقت کے پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن کے سربراہ مسعود ہاشمی نے خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا تھا کہ ’ملک میں ایڈورٹائزرز کو دو سے تین ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
یہ دنیائے کرکٹ میں ایک ایسا لمحہ تھا جب آئی سی سی ٹورنامنٹس کی مالی کامیابی میں انڈیا کی اہمیت کا صحیح معنوں میں ادراک ہوا تھا۔
پاکستان میں کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ شاید اس کے بعد سے آئی سی سی نے پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی گروپ میں رکھنے کی ریت کا آغاز کیا تھا۔
تاہم یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سنہ 2009 اور سنہ 2010 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس میں سرے سے میچ ہی نہیں ہوا تھا جبکہ سنہ 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی دونوں ٹیمیں صرف اس لیے آمنے سامنے آئی تھیں کیونکہ دونوں ٹیموں نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
سنہ 2011 میں موہالی میں ہونے والے اس میچ کے حوالے سے جس قدر دلچپسی پائی جاتی تھی، ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد سے براڈکاسٹرز کی جانب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچوں کا ٹورنامنٹس کا لازمی جزو بنانے کی درخواست کی گئی۔
پاکستان انڈیا میچ کے کمرشل ایئر ٹائم کی کیا قیمت ہے؟Getty Images
ہر مارکیٹ میں براڈکاسٹرز مختلف طریقوں سے کماتے ہیں جیسے انڈیا میں سبسکرپشن اور ایڈورٹائزنگ وہ دو طریقے ہیں جن کے ذریعے براڈکاسٹر پیسے بناتے ہیں۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کی مارکیٹس میں سبسکرپشن کی اہمیت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں ایڈورٹائزرز اور کمرشل ایئر ٹائم اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
ایک انڈسٹری ماہر نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈیا میں براڈکاسٹرز کے لیے 60 سے 65 فیصد رقمایڈورٹائزرز سے آ رہی ہے لیکن سبسکرپشن کی رقم کا بھی 30 سے 35 فیصد حصہ ہوتا ہے۔
تاہم پاکستان میں ایڈورٹائزرز سے ملنے والی رقم ہی سب کچھ ہوتی ہے اس لیے یہاں آپ کو میچ کے دوران اشتہاروں کو کسی نہ کسی طرح فٹ کرنے کی جدوجہد دکھائی دیتی ہے۔
بی بی سی نے پاکستان اور انڈیا میں ایڈورٹائرزنگ کے لیے دیے گئے سلاٹس کی قیمت جاننے کے لیے دونوں ممالک میں میڈیا بائنگ کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے۔
کسی بھی ون ڈے میچ میں کمرشل ایئر ٹائم 100 منٹ کے قریب ہوتا ہے جبکہ ٹی ٹوئنٹی میچ میں یہ دورانیہ 50 منٹ تک کا ہوتا ہے۔
انڈیا کے شہر بینگلورو کی ایک ٹرانزیکشن ایڈوائزری کمپنی ’ڈی اینڈ پی ایڈوائزری برانڈز‘ کو کمرشل ایئر ٹائم کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سنتوش این نے بی بی سی کو بتایا کہ حالانکہ گذشتہ ایک دہائی میں انڈیا، پاکستان کے مابین میچ اکثر ون سائیڈڈ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کی انڈیا میں کمرشل ایئر ٹائم کے اعتبار سے لاگت دیگر میچوں کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے۔
سنتوش کہتے ہیں کہ ’اس کی وجہ ظاہر ہے دونوں ممالک کے درمیان ایک تاریخی پسِ منظر ہے۔ دونوں ہی ممالک کی آبادی اچھی خاصی ہے اور جو لوگ عموماً کرکٹ نہیں بھی دیکھتے وہ انڈیا پاکستان میچ ضرور دیکھتے ہیں۔‘
’اس لیے دونوں اطراف برانڈز یہی چاہتے ہیں کہ اُن کا اشتہار زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، اس لیے انڈیا پاکستان میچ کے کمرشل ایئر ٹائم کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
اُن کے مطابق ’نیویارک میں کھیلے گئے انڈیا پاکستان میچ میں 10 سیکنڈ سلاٹ کی قیمت 50 لاکھ تک چلی گئی تھی۔ 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں ایک 10 سیکنڈ کے سلاٹ کی قیمت 60 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔‘ یعنی ایک منٹ کا کمرشل ایئرٹائم لگ بھگ تین کروڑ 60 لاکھ کے قریب۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ براڈکاسٹرز کی جانب سے عموماً میچوں کے 80 فیصد کے قریب منٹس ٹورنامنٹس سے پہلے ہی فروخت کر دیے جاتے ہیں اور بعد میں 20 فیصد کی قیمت میچ کی اہمیت کے اعتبار سے بڑھائی یا کم کی جاتی ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ انڈین پریمیئر لیگ میں سلاٹس کا جائزہ لیا جائے تو عموماً ممبئی اور چنئی کے درمیان میچ کے 10 سیکنڈ سلاٹ کی قیمت 30 سے 40 لاکھ کے درمیان چلی جاتی ہے۔
پاکستان میں ہم نے جب میڈیا بائنگ کمپنی مارشمیلو ایڈورٹائزنگ سے رابطہ کیا تو اس سے منسلک یوسف رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں انڈیا پاکستان میچ کے لیے ایک منٹ کے سلاٹ کی قیمت حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچ کے لیے 40 لاکھ تک تھی جبکہ 2019 کے ورلڈ کپ میچ میں یہ قیمت 60 لاکھ تک چلی گئی تھی۔‘
یہاں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈکپ 2023 میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے میچوں کے ’پیک‘ ویورشپ میں پاکستان انڈیا میچ پانچویں نمبر پر تھا جبکہ انڈیا آسٹریلیا فائنل، انڈیا جنوبی افریقہ میچ اور انڈیا نیوزی لینڈ کے گروپ میچ اور سیمی فائنل کی ویورشپ بہتر تھی۔
کیا پاکستان، انڈیا میچ انڈیا کے لیے بھی اہم ہے؟Getty Images
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ اس صدی میں دنیا کی دیگر سپورٹس کی طرح کرکٹ میں بھی براڈکاسٹنگ رائٹس سے حاصل ہونے والے ریوینیو (آمدن) کی اہمیت میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ایک ممبرز بورڈ ہے، نہ کہ فٹبال کی فیفا کی طرح ایک گورننگ باڈی۔ آئی سی سی کی جانب سے اپنا کل ریوینیو کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں شیئر کیا جاتا ہے اور اس کا تناسب پہلے سے طے ہوتا ہے۔
کرکٹ کے فنانسز پر گہری نظر رکھنے والے ’پرافٹ‘ میگزین سے منسلک صحافی عبداللہ نیازی کے مطابق ’سنہ 2023 میں پی سی بی کو آئی سی سی کی جانب سے 17 ملین ڈالر کی رقم دی گئی تھی جو تقریباً ساڑھے چار ارب کے آس پاس بنتا ہے۔ یہ رقم آئی سی سی نے براڈکاسٹنگ ڈیلز اور آئی سی سی ٹورنامنٹس سے کمائی ہوتی ہے اور اسے تمام ممالک میں ایک ماڈل کے تحت تقسیم کیا جاتا ہے۔‘
ظاہر ہے کہ آئی سی سی ٹورنامنٹ کو براڈکاسٹرز کے لیے منافع بخش بنانے کے لیے آئی سی سی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ یقینی بنانا ہوتا ہے۔
تاہم براڈکاسٹنگ ڈیلز اور کرکٹ انتظامیہ سے منسلک ایک ماہر نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس سے انڈیا کو براہ راست کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انڈیا اور پاکستان آپس میں کھیلتے ہیں یا نہیں۔‘
انڈیا آئی پی ایل کے باعث امیر ترین بورڈ ہے۔ انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی ابھی انڈیا کے میچوں کے لیے براڈکاسٹ ڈیل 720 ملین ڈالر کی ہوئی ہے، جس میں 88 میچ شامل ہیں یعنی ہر میچ 8.1 ملین ڈالر کا ہے۔ اس معاہدے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیریز شامل نہیں ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی اگلے ڈھائی سال کے لیے کی گئی اپنے 60 میچوں کی براڈکاسٹ ڈیل کی کل لاگت لگ بھگ ساڑھے چھ ملین ڈالر ہے جو انٹرنیشل رائٹس کی رقم ملا کر نو ملین ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ یعنی 60 میچوں کی نو ملین ڈالر کی لاگت اور انڈیا کا ایک میچ 8.1 ملین ڈالر کا۔
براڈکاسٹنگ ریوینیو کے ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آجبراڈکاٹسنگ ویلیو کے اعتبار سے آئی پی ایل کے ایک میچ کی لاگت 13.1 ملین ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان سپر لیگ اپنے پورے سیزن کے 34 میچوں سے اس سے کام کماتی ہے۔
’آئی پی ایل کا مقابلہ اب این ایف ایل، این بی اے وغیرہ سے ہے، کرکٹ میں کسی سے ہے ہی نہیں۔ اس لیے انڈیا کے لیے پاکستان انڈیا میچ کا ہونا یا نہ ہونا زیادہ معنی نہیں رکھتا ہے۔‘
’براڈکاسٹر کے ناخوش ہونے کی وجہ سے پاکستان انڈیا میچ کی اہمیت بڑھ گئی ہے‘Getty Images
اب بات کرتے چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان اور انڈیا کے میچ پر موجود سوالیہ نشان کی۔ اس حوالے سے ہم آئی سی سی اور اس کے براڈکاسٹرز کو سوال بھیجے ہیں تاہم تاحال جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
تاہم بی بی سی کو انڈسٹری ماہرین نے بتایا کہ آئی سی سی اور براڈکاسٹر کے درمیان موجود تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کو زیادہ اہمیت مل سکتی ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ چند ہی روز میں بی سی سی آئی چیف جے شاہ آئی سی سی چیئرمین بن جائیں گے۔
تاہم براڈکاسٹر کے ساتھ آئی سی سی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب رائٹس خریدنے کی بات ہوئی تھی تو سٹار انڈیا نے 3.1 ارب ڈالر کے اگلے چار سال کے آئی سی سی ٹورنامنٹس کے رائٹس خریدے۔ تاہم اگلی بولی 1.7 ارب ڈالر کی تھی، جو مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے تھی۔
تاہم سٹار کی جانب سے زیادہ بولی لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا زی انڈیا کے ساتھ مبینہ خفیہ معاہدہ تھا اور سٹار نے ٹی وی رائٹس زی کو بیچنے تھے، اور ڈیجیٹل ہاٹ سٹار کے پاس رہے گا۔ تاہم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل زی نے معاہدے کے مطابق سٹار کو رقم نہیں دی، اور سٹار نے یہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے زی کو ہرجانے کا نوٹس فائل کر دیا اور یہ کیس لندن میں چل رہا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اس طرح نہیں ہو سکا جس طرح امید کی جا رہی تھی۔ اس میں سٹار کو نقصان اٹھانا پڑا، کیونکہ متعدد میچ بارش کے باعث منسوخ ہوئے، اور اکثر میچ انڈیا کے ٹائم زون کے اعتبار سے صحیح وقت پر نہیں ہو سکے۔ یہ سب ایک ایسے ٹورنامنٹ میں ہوا جہاں پر انڈیا چیمپیئن بنا۔
ایسے میں ماہرین کے مطابق براڈکاسٹر انڈیا پاکستان میچ بھی نہ ہونے کے سبب آئی سی سی سے اس 3.1 ارب ڈالر کے معاہدے میں مزید رعایت مانگے گا اور میچ نہ ہونے پر مزید شور مچائے گا کیونکہ گذشتہ ایک دہائی سے ہر آئی سی سی ٹورنامنٹ میں یہ میچ لازمی کھیلا جاتا ہے۔
یوں یہ صرف انڈیا پاکستان میچ کی بات نہیں ہے، یہاں لڑائی قدرے وسیع ہے، لیکن اس دوران آئی سی سی ایک انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور یہ بات اب خاصی واضح ہے کہ براڈکاسٹر کو رعایت دینے سے بی سی سی آئی کو تو فرق نہیں پڑے گا، لیکن آئی سی سی کی جانب سے جو رقم دیگر بورڈز میں تقسیم ہوتی ہے اس میں ضرور کمی آئے گی اور اس کا نقصان پاکستان سمیت ایسے بورڈز پر پڑے گا جو آئی سی سی کی جانب سے دی گئی اس سالانہ رقم پر انحصار کرتے ہیں۔
انڈین کرکٹر اجے جدیجہ کس راجہ کے جانشین بنے کہ راتوں رات مالا مال ہو گئے؟احمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیےمیچ فکسنگ کے الزامات سے انڈین کرکٹ کو بام عروج پر پہنچانے والے ’گاڈ آف دی آف سائیڈ‘ سورو گنگولی پاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار یا عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں چاہیے؟ایڈیڈاس اور پوما: دو بھائیوں کی دشمنی سے پیدا ہونے والی کمپنیاں جنھوں نے کھیلوں کی دنیا کی کایا ہی پلٹ دیدنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایا