آج کی دنیا میں موبائل فون زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔ نت نئے ماڈلز اور فیچرز کے حامل مہنگے فونز خریدنا بھی ایک مشغلہ ہے جبکہ بعض اوقات یہ ضرورت بھی بن جاتا ہے۔اکثر اوقات موبائل فون کی چوری یا چوری شدہ موبائل خریدنا صارف کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔چوری شدہ موبائل کی خریداری سے بچنے اور موبائل اصل مالک کے حوالے کرنے کے لیے انویسٹی گیشن پولیس پنجاب نے 2019 میں ’ای گیجٹ مانیٹرنگ‘ ایپ متعارف کرائی تھی جس کے ذریعے اب تک 68 ہزار 570 چوری شدہ موبائل فونز اصل مالکان کے حوالے کیے گیے ہیں۔موبائل فون کی خریداری کے وقت صارفین یہ جانچ پڑتال گوارا نہیں کرتے کہ فون چوری کا ہے یا نہیں؟اس حوالے سے مختلف طریقے بروئے کار لائے جاتے ہیں لیکن پنجاب پولیس کے ’ای گیجٹ ایپ‘ کے ذریعے یہ مشکل آسان ہوگئی ہے۔ہر موبائل پر اس کا ’انٹرنیشنل موبائل اکوپمنٹ آئیڈنٹٹی(آئی ایم ای آئی) درج ہوتی ہے جس کے ذریعے یہ معلومات باآسانی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ انویسٹی گیشن پولیس کی جانب سے تیار کی جانے والی ای گیجٹ ایپلیکیشن کا افتتاح 2019 میں ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انعام وحید نے کیا تھا۔ای گیجٹ مانیٹرنگ‘ ایپ پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ رواں برس ایس ایس پی انویسٹی لاہور محمد نوید کی ہدایات پر ای جی ایپ کے ذریعے شہریوں سے چھینے اور چوری کیے گئے کروڑوں مالیت کے تقریباً 3 ہزار موبائل فونز برآمد کر کے اصل مالکان کے سپرد کیے گئے۔ترجمان ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس ایپ سے متعلق پہلا نوٹیفیکشن 6 اپریل 2019 کو ہوا تھا۔ان کے بقول ’ای گیجٹ سوفٹ وئیر ڈیش بورڈ کے مطابق اب تک 68570 موبائل فونز ان کے مالکان کے حوالے ہوئے ہیں۔ انہیں متعلقہ تھانے بلا کر موبائل فونز سپرد کیے گئے جبکہ رواں سال تقریباً 3 ہزار کے قریب موبائل فونز مالکان کے حوالے کیے گئے۔‘ای گیجٹ ایپلیکیشن کا افتتاح 2019 میں ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انعام وحید نے کیا تھا (فائل فوٹو: ٹیک جوس)آج کل اکثر صارفین فون شاپس سے پرانے فونز خریدتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ فونز چوری کے نکل آتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چوری شدہ فونز سے متعلق معلومات کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں اور ای گیجٹ ایپ شہریوں کے لیے کس طرح فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے؟اس حوالے سے ترجمان ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ موبائل فون کی خریداری کے وقت اس کا ای ایم ای آئی نمبر مذکورہ ایپ پر درج کر کے تصدیق کی جا سکتی ہے۔پنجاب پولیس کے مطابق اس ایپ میں موبائل فون کی خرید و فروخت کرنے والے ہر دکاندار کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے کیونکہ یہ ایپ نہ صرف چوری کے موبائل فونز کی خرید و فروخت کی روک تھام کرنے میں کارگر ثابت ہو رہی ہے بلکہ صارفین قانونی کارروائی سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ترجمان ایس ایس پی انویسٹی گیشن آصف نے ایپ کے استعمال سے متعلق مزید بتایا کہ دکاندار براہ راست اس ایپ میں اپنی تفصیلات کا اندراج کرتے ہیں۔ان کے بقول ’دکان دار پلے سٹور سے اس نام کی ایپ ڈاؤنلوڈ کرنے کے بعد اس میں اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ اس ایپ میں اکاؤنٹ بنانے کے لیے دکان کا نام، دکان دار کا نام، دکان دار کا شناختی کارڈ نمبر، دکان دار کا فون نمبر، دکان دار کا ای میل اکاؤنٹ، دکان کا ایڈریس، مارکیٹ کا نام اور دکان دار کی تصویر درکار ہوتی ہے۔‘حکام کے مطابق اس ایپلیکیشن کی مدد سے چوری اور ڈکیتی کے موبائل فونز کی خرید و فروخت روکی جا سکتی ہے۔’جب بھی کوئی خریدار موبائل خریدنے کسی بھی دکان پر جائے گا تو آئی ایم ای آئی اس ایپ میں درج کرنے سے موبائل کی تمام تر تفصیلات سامنے آجائیں گی۔‘پنجاب پولیس نے 68 ہزار 570 موبائل فونز ریکور کر کے اصل مالکان کو حوالے کیے(فائل فوٹو: پکسابے)ترجمان نے مزید بتایا ’بغیر ای گیجٹ ایپ استعمال کیے کوئی بھی موبائل خریدنا قانوناً جرم ہے۔ ای گیجٹ ایپ استعمال کرنے سے آپ کو پتا چلتا ہے کہ موبائل چوری کا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور طریقہ سے پتہ نہیں چل سکتا ہے۔‘اگر ای گیجٹ ایپ استعمال کیے بغیر آپ موبائل فون خریدتے ہیں تو آپ قانونی چارہ جوئی کا سامنا کر سکتے ہیں۔اگر کوئی صارف چوری شدہ موبائل خرید لے اور ایف آئی آر کا اندراج بعد میں کیا جائے تو متعلقہ تھانے کا آفیسر موبائل فون واپس لے سکتا ہے۔ترجمان کے بقول ’اگر کوئی موبائل فون خرید لے اور بعد میں مقدمہ کے اندراج پر اس کا ای ایم ای آئی ایف آئی آر میں آجائے تو متعلقہ تھانہ کا آفیسر موبائل فروخت کنندہ کو ٹریس کر کے خریدار سے موبائل واپس لے گا اور موبائل اصل مالک کے حوالہ کر دیا جائے گا۔‘اب تک اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے 68 ہزار 570 موبائل فونز ریکور کر کے اصل مالکان کو حوالے کیے۔