یہ ایک ایسے موسیقار کی زیست کا بیاں ہے جس کی انگلیاں جب سازوں کو چھوتیں تو وہ آواز پیدا ہوتی جو سامعین کو سحرزدہ کر دیتی اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتے، ’چُرا لیا ہے تم نے جو دل کو۔۔۔‘یہ راہل دیو برمن کی کتھا ہے جو روتے بھی سُروں میں تھے۔ حیران مت ہوئیے، دھیرج رکھیے کیوں کہ یہ کوئی رسمی جملہ نہیں ہے۔راہل دیو برمن، جنہیں دنیا آر ڈی برمن یا پنجم دا کے نام سے جانتی ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی ہوگی کہ بے مثل موسیقار ایس ڈی برمن کے اس اکلوتے صاحب زادے کو یہ نام کیوں ملا؟انڈین اخبار اکنامک ٹائمز اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ’آر ڈی برمن کی ایک عرفیت پنچم بھی تھی اور انڈسٹری کے لوگ اُن کو اسی نام سے پکارتے تھے۔ یہ نام اُن کو اداکار اشوک کمار نے دیا تھا جب انہوں نے نومولود کو لفظ ’پا‘ بار بار ادا کرتے سنا تھا۔‘اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’ایک اور کہانی کے مطابق آر ڈی برمن پانچ مختلف سُروں میں روتے تھے تو اس لیے اُن کو پنچم کا نام ملا کیوں کہ بنگالی لفظ پنچم کے معنی پانچ کے ہیں۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ پنچم یعنی پانچ کا یہ عدد آر ڈی برمن کے لیے خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوا کیوں کہ سال 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تیسری منزل‘ سے اُن کو وہ بریک ملی جس کے وہ منتظر تھے اور یہ اُن کی پانچویں فلم تھی جس کے گیت ’آ جا آ جا میں ہوں پیار تیرا‘، ’او حسینہ زلفوں والی جانِ جہاں‘ اور ’او میرے سونا رے سونا رے‘ ایورگرین قرار پائے جس کے بعد آر ڈی برمن نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔آر ڈی برمن 27 جون 1939 کو کولکتہ (کلکتہ) میں پیدا ہوئے۔ والد ایس ڈی برمن ہندی فلمی موسیقی کی روایت کا ایک معتبر حوالہ ہیں جو بنگال کی ریاست تری پورہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آر ڈی برمن 27 جون 1939 کو کولکتہ (کلکتہ) میں پیدا ہوئے (فائل فوٹو: بنگلہ راک میگزین)کم سِنی میں باپ کو ریاضت کرتے دیکھتے یا سازوں کے ساتھ الجھتا پاتے تو بے اختیار موسیقی کے ساز بجانے لگتے۔ نو برس کے تھے جب پہلی دھن ’اے میری ٹوپی پلٹ کے آ‘ تخلیق کی جس کا استعمال ایس ڈی برمن نے سال 1956 میں ریلیز ہوئی فلم ’فنٹوش‘ میں کیا تھا۔اخبار ’اکنامک ٹائمز‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’اُن کے والد مشہور موسیقار ایس ڈی برمن کے نام سے منسوب کچھ دھنیں درحقیقت آر ڈی برمن نے کمپوز کی تھیں۔ ایسے ہی کچھ سپرہٹ گیتوں میں ’سر جو تیرا چکرائے‘ (پیاسا)، ’میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو‘ (ارادھنا) اور ’کوڑا کاغذ تھا یہ من میرا‘ (ارادھنا) شامل ہیں۔‘بطور موسیقار آر ڈی برمن کی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ تھی جس میں وہ کوئی خاص جادو نہیں جگا سکے تھے (فائل فوٹو: سینیماضی)یہ نہیں ہے کہ آر ڈی برمن باپ سے متاثر ہو کر موسیقار بن گئے بلکہ ایس ڈی برمن نے اُن کی باقاعدہ تربیت کی تھی۔ سب سے پہلے تو سُر اور تال سے متعارف کروایا، پھر استاد اکبر خان اور بعدازاں آشش خان سے سرود بجانے کی تربیت حاصل کی۔ اوائل عمری میں ہی مائوتھ آرگن پر بھی عبور حاصل کر لیا۔کہا جاتا ہے کہ 50 کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے صاحب زادے کو موسیقی کی دھنیں ترتیب دینے کے لیے مختلف سازوں کی تربیت حاصل کرنے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’موسیقی کمپوز کرنے سے قبل تمہیں اُن تمام سازوں کی وسعت کے بارے میں علم ہونا چاہیے جن پر تم عبور رکھتے ہو تاکہ تم اِن سے بہترین نتائج حاصل کر سکو۔‘آر ڈی برمن نے اپنے والد کے ساتھ ’چلتی کا نام گاڑی‘، ’کاغذ کے پھول‘، ’بندنی‘ اور ’گائیڈ‘ جیسی فلموں میں بطور معاون کام کیا مگر بطور موسیقار اُن کی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ تھی جس میں وہ کوئی خاص جادو نہیں جگا سکے تھے۔ اس فلم کے پروڈیوسر بالی وُڈ کے لیجنڈ کامیڈین محمود تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے لیے وہ پہلے ایس ڈی برمن کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔اداکار پر مصنف حنیف زاویری کی کتاب ’محمود، اے مین آف مینی موڈز‘ کے مطابق اداکار نے راہل کو طبلہ بچاتے سنا تو اپنی فلم ’چھوٹے نواب‘ کے میوزک ڈائریکٹر کے طور پر کاسٹ کر لیا جس کے بعد ان دونوں میں قریبی تعلق قائم ہو گیا اور آر ڈی برمن محمود کی فلم ’بھوت بنگلہ‘ میں ایک مختصر کردار میں بھی نظر آئے۔قصہ مختصر، ’تیسری منزل‘ میں آر ڈی برمن کی تجرباتی موسیقی رجحان ساز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد تو وہ ہدایت کار ناصر حسین کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے جن میں’بہاروں کے سپنے‘، ’پیار کا موسم‘ اور ’یادوں کی بارات‘ بھی شامل ہیں۔اس عہد میں بالی وُڈ کے موسیقار زیادہ تر روایتی فوک اور کلاسیکی موسیقی پر انحصار کر رہے تھے۔ آر ڈی برمن مگر ان سے مختلف تھے، انہوں نے نئی آوازوں اور نئے سازوں کے ساتھ تجربات تو کیے ہی بلکہ دنیا کی بہترین موسیقی سے بھی استفادہ کیا۔اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’وہ کلکتہ میں پرورش پانے کے باعث لاطینی موسیقی کے مداح تھے۔ انہوں نے سال 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’پتی پتنی‘ کے گیت ’مار ڈالے گا دردِ جگر‘میں اس طرز کی موسیقی کا استعمال کیا۔‘ایک زمانے میں آر ڈی برمن کی موسیقی اور کشور کمار کی آواز لازم و ملزوم ہو گئی تھی (فائل فوٹو: آئی ڈبلیو ایم بَز)گلوکارہ آشا بھوسلے نے اُن دنوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ سنایا تھا کہ انہوں (آر ڈی برمن) نے اُن کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کرنا تھا جس کے لیے اُن کو ایک خاص طرح کی آواز کی ضرورت تھی تو وہ بازار گئے اور شیشے کے گلاس لے آئے جس سے انہوں نے اپنی من چاہی آواز تخلیق کی۔یہ وہ زمانہ تھا جب راجیش کھنہ ایک کے بعد ایک کامیاب فلم دے رہے تھے اور کشور کمار کا دوبارہ جنم ہو چکا تھا۔ان دنوں ہی سال 1970 میں فلم ’کٹی پتنگ‘ ریلیز ہوئی جس کے گیتوں نے وہ جادو جگایا کہ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود سامعین ان کے سحر سے نہیں نکل سکے جیسا کہ ’پیار دیوانہ ہوتا ہے، مستانہ ہوتا ہے‘، ’یہ شام مستانی‘، ’یہ جو محبت ہے‘ اور ’جس گلی میں تیرا گھر نہ ہو بالما‘ ایور گرین قرار پائے اور اس کے بعد آر ڈی برمن کی موسیقی اور کشور کمار کی آواز لازم و ملزوم ہو گئی۔سال 1971 میں فلم ’ہرے رام ہرے کرشنا‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ہدایت کار لیجنڈ اداکار دیو آنند تھے جس کا گیت ’دم مارو دم‘ اس زمانے کی ہندی فلمی موسیقی میں ایک منفرد تجربہ تھا جو صرف آر ڈی برمن ہی کر سکتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیو آنند نے آشا بھوسلے کا گایا یہ گیت فلم میں پورا شامل نہیں کیا کیوں کہ وہ خوف زدہ تھے کہ اس گیت کی وجہ سے پوری فلم پس پردہ چلی جائے گی۔ ہوا بھی ایسے ہی، اور یہ گیت آر ڈی برمن ہی نہیں بلکہ آشا بھوسلے کی بھی پہچان بن گیا۔آر ڈی برمن کی منفرد اور جدید طرز کی موسیقی کے لیے آشا بھوسلے سے بہتر کوئی انتخاب نہ تھا۔ وہ دونوں اس دوران حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔دونوں کی ہی پہلی شادی ناکام ہوئی تھی۔ آر ڈی برمن نے سال 1966 میں اپنی مداح ریتا پٹیل سے شادی کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی جس کے بعد سال 1980 میں آر ڈی برمن اور آشا جی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے انکشاف کیا تھا کہ ’یہ میرے پیچھے پڑے تھے، آشا تمہارا سُر بہت اچھا ہے، میں تمہاری آواز پر فدا ہوں تو میں کیا کرتی؟ ہاں، کر دیا۔‘آشا بھوسلے آر ڈی برمن کی صلاحیتوں کی مداح تھیں۔ انہوں نے اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاگل تھا وہ۔ وہ ایسا ہی انسان تھا جو ہیروں کو پتھر کہہ سکتا تھا مگر گیتوں کو بیش قیمت کہتا تھا۔ انہوں نے ایسی موسیقی تخلیق کی جو اپنے زمانے سے نصف صدی آگے تھی۔‘آر ڈی برمن کی منفرد اور جدید طرز کی موسیقی کے لیے آشا بھوسلے سے بہتر کوئی انتخاب نہ تھا (فائل فوٹو: انڈین فلِکر)یہ نہیں ہے کہ آر ڈی برمن نے صرف کشور کمار یا آشا بھوسلے کے کے لیے ہی موسیقی ترتیب دی بلکہ انہوں نے لتا منگیشگر اور محمد رفیع کے کئی گیت بھی کمپوز کیے جس کی ایک مثال فلم ’امر پریم‘ کا لتا جی کی آواز میں گایا گیت ’رینا بیتی جائے‘ ہے جس کا کلاسیکی آہنگ پنچم دا کی فنی عظمت کا مظہر ہے۔سال 1971 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بڈھا مل گیا‘ کا گیت ’رات کلی اِک خواب میں آئی‘ اور فلم ’کارواں‘ کا گیت ’پیا تو اب تو آ جا‘ ایور گرین قرار پائے۔ ’کارواں‘ کے لیے تو موسیقار کو اُن کے پہلے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔سال 1972 میں آر ڈی برمن نے کئی فلموں کی موسیقی دی جن میں ’سیتا اور گیتا‘، ’رام پور کا لکشمن‘، ’میرے جیون ساتھی‘،’بمبئے ٹو گوا‘، ’اپنا دیش‘ اور ’پریچے‘ شامل ہیں۔ آنے والے برسوں میں انہوں نے ’یادوں کی بارات‘، ’آپ کی قسم‘ اور ’شعلے‘ کی موسیقی دی۔فلم ’شعلے‘ کا سپرہٹ گیت ’محبوبہ محبوبہ‘ تو گایا بھی پنچم دا نے ہی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کا یہ واحد گیت تھا جسے سب سے زیادہ سراہا گیا اور یوں پنچم دا کو گلوکار کے طور پر ایک نئی پہچان ملی۔اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ لکھتا ہے کہ ’شعلے کی موسیقی پر میڈیا کا ردِعمل کوئی خاص نہیں تھا اور اس میں ’محبوبہ محبوبہ‘ کے سوا اچھے گانے نہ ہونے پر تنقید بھی ہوئی تھی۔‘سال 1972 میں ریلیز ہونے والی فلم ’پریچے‘ گلزار کی بطور ہدایت کار دوسری فلم تھی جس کی موسیقی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی اور یوں اُن دونوں میں ایسی دوستی کا آغاز ہوا جو موسیقار کی موت تک برقرار رہی۔فلم فیئر میگزین اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’فلم کا پہلا گیت ’مسافر ہوں یارو‘ تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ رات کے ایک بجے پنچم دا گلزار کے گھر آ دھمکے تاکہ انہیں گیت کی دھن سنا سکیں۔ دونوں پوری رات کار میں بیٹھ کر دھنیں سنتے رہے اور یوں اس طویل دوستی کا آغاز ہوا۔‘نیوز ویب سائٹ ’فرسٹ پوسٹ‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’راہل دیو برمن کی گلزار کے لیے وہی حیثیت تھی جو مدن موہن کی چیتن آنند کے لیے تھی۔ ’ہیر رانجھا‘ سے مدن موہن کے گیتوں کو نکال دیں تو باقی کیا بچتا ہے؟ ’آندھی‘ سے ’تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں‘ (یہ وہ گیت ہے جسے گلزار صاحب آر ڈی برمن سے اپنی دوستی کی بنیاد قرار دیتے ہیں)، فلم ’کنارا‘سے گیت ’نام گم جائے گا‘ اور ’اجازت‘ سے ’میرا کچھ ساماں تمہارے پاس پڑا ہے‘ نکال دیجیے تو گلزار کے سنیما کا اثر اور طاقت بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔‘راہل دیو برمن کی گلزار کے لیے وہی حیثیت تھی جو مدن موہن کی چیتن آنند کے لیے تھی (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)گلزار اور آر ڈی برمن کی دوستی اپنی جگہ مگر اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کشور کمار، راجیش کھنہ اور آر ڈی برمن کی تکون نے ایک ساتھ 32 فلموں میں کام کیا اور یہ فلمیں اور گیت آج بھی مقبول ہیں۔ یہ تینوں قریبی دوست تھے جب کہ راجیش کھنہ کی 40 فلموں کے لیے پنچم دا نے موسیقی ترتیب دی تھی۔سال 1982 میں ریلیز ہوئی فلم ’صنم تیری قسم‘ پر پنچم دا کو بہترین موسیقار کا پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس فلم کے ہدایت کار نریندر بیدی اُردو کے بے مثل افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کے صاحب زادے تھے۔اسّی کی دہائی میں ایک وہ وقت بھی آیا جب بپی لہری اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقار ہٹ ہونے لگے تو فلم میکرز نے پنچم دا کی طرف سے منہ موڑ لیا جس کی ایک مثال ہدایت کار ناصر حسین کی ہے جن کے صاحب زادے منصور خان نے جب فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ بنائی تو ناصر حسین اگرچہ اس کے پروڈیوسر تھے مگر انہوں نے اس کے باوجود اس فلم کے لیے پنچم دا کی خدمات حاصل نہیں کیں اور یوں یہ طویل تخلیقی رشتہ ٹوٹ گیا۔ اسی طرح فلم میکر سبھاش گھئی نے اپنی فلم ’رام لکھن‘ کے لیے آر ڈی برمن کی بجائے موسیقاروں کی جوڑی لکشمی کانت پیارے لال کو سائن کر لیا۔آر ڈی برمن مگر فلموں ’معصوم‘، ’اجازت‘، ’لباس‘، ’پرندہ‘، اور ’1942 ایک لو سٹوری‘ کے ذریعے اپنی موسیقی سے سامعین کو حیران کرتے رہے۔ ’معصوم‘ اور ’1942 ایک لو سٹوری‘ کے لیے موسیقار کو بہترین میوزک ڈائریکٹر کے ایوارڈ بھی ملے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 1995 سے فلم فیئر نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے آر ڈی برمن ایوارڈ دے رہا ہے جسے پانے والوں میں اے آر رحمان اور وشال بھردواج جیسے موسیقار بھی شامل ہیں۔آر ڈی برمن چار جنوری 1994 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے (فائل فوٹو: فرسٹ پوسٹ)لتا منگیشکر نے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پنچم کی طرح کے باصلاحیت کمپوزر کے لیے کام کا تقریباً نہ ہونا زندگی میں موت کی طرح تھا۔ پنچم بہت ناخوش تھے۔ وہ اکثر مجھ سے اپنا دُکھ بیاں کرتے۔ میں اُن کے لیے اب بھی دُکھ محسوس کرتی ہوں جب میں یہ یاد کرتی ہے کہ پنچم کے ساتھ فلم انڈسٹری نے کیا ظالمانہ سلوک کیا، صرف اس وجہ سے کہ اُن کے کچھ گیت باکس آفس پر کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔‘یہ عظیم موسیقار آج ہی کے روز چار جنوری 1994 کو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسا۔ وہ اپنی موت سے چھ برس پہلے سے عارضۂ قلب کا شکار تھے اور اس سے قبل سال 1988 میں ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے اُن کی سرجری بھی ہوچکی تھی۔ یوں کہہ لیجیے کہ وہ اپنوں کی ہی بے اعتنائی کا شکار ہو گئے تھے۔بالی وُڈ میں پنچم دا صرف ایک ہی تھے جنہوں نے موسیقی میں بنا کسی خوف اور ڈر کے روایت سے انحراف کرتے ہوئے ایسی موسیقی تخلیق کی جو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی سامعین کے کانوں میں رَس گھولتی ہے، جو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں، ’چُرا لیا ہے تم نے جو دل کو…‘