100 بوری نمک جمع کرنے پر 600 روپے دیہاڑی: ’شروع میں درد ہوتا تھا، اب نمک سے دوستی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jan 20, 2025

BBCنثار علی

زخموں پر نمک چھڑکنے کا محاوہ تو آپ نے سُنا ہو گا لیکن زخموں کے نمک میں ڈوبے رہنے کا درد نثار علی اور اُن جیسے وہ مزدور ہی جانتے ہیں جو سمندر سے نمک نکالنے کی روایتی اور تکلیف دہ مشقت کے ذریعے دن بھر میں ’چار پیسے‘ ہی کما پاتے ہیں۔

کراچی کے علاقے ’ہاکس بے‘ میں قائم سمندری نمک سُکھانے کے تالابوں پر کام کرنے والے ضلع ٹھٹہ کے نثار علی صبح سویرے کام شروع کرتے ہیں، تالابوں کے کناروں پر مُنڈیریں بنانے سے لے کر اس میں سمندری پانی داخل کرنے، پانی سوکھنے پر نمک جمع کرنے اور پھر ٹرکوں پر نمک کی بوریاں لادنے تک ہر وہ کام اُن کی ڈیوٹی میں شامل ہے جسے یہاں موجود ٹھیکیدار ’مزدوری‘ قرار دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ آپ نثار علی کی صحت پر اِس شدید مشقت کے دوران پڑنے والے اثرات کے بارے میں جانیں، یہ جان لیجیے کہ اسے مزدوری کے عوض انھیں ملتا کیا ہے؟

’ایک کلو نمک کا معاوضہ محض آٹھ پیسے‘BBC

نثار بتاتے ہیں کہ ’600 روپے سینکڑہ چل رہا ہے آج کل، کھانا پینا کوئی نہیں، بس ٹھیکیدار 600 روپے دیتا ہے۔ ٹرک والے بوری گن کے اس کو بتاتے ہیں تو شام میں لوڈنگ کے بعد پیسہ ملتا ہے۔ کبھی کبھی دو دن کی دیہاڑی ایک ساتھ بھی مل جاتی ہے۔ شکر ہے اللہ سائیں کا۔‘

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ’600 روپے سینکڑہ‘ سے مراد یہ ہے کہ 100 بوریاں نمک اکھٹا کرنے پر 600 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔

نثار کے مطابق آج وہ صبح سے شام تک بلاتعطل کام کرتے رہیں تو وہ پورے دن میں نمک کی 100 بوریاں اکھٹی کر پاتے ہیں۔ ایک بوری میں 60 سے 75 کلوگرام تک نمک ہوتا ہے۔ تو اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو نثار کو فی کلو نمک اکھٹا کرنے کا معاوضہ لگ بھگ آٹھ پیسے ملتا ہے۔

کراچی کے اس مقام پر نثار جیسے 90 کے قریب مزدور مختلف شفٹوں لیکن ایک جیسے حالات میں کام کرتے ہیں۔ سمندری نمک کی تیاری کا عمل بظاہر سادہ لیکن انتہائی محنت طلب ہے۔ یہ نمک سمندر کے پانی کو مخصوص حوضوں میں خشک کرنے سے حاصل کیا جاتا ہے جن کا سائز 500 سے 1500 گز تک ہوتا ہے۔

یہ سارا عمل قدرتی دھوپ اور ہوا کے ذریعے پانی کے بخارات بننے پر منحصر ہے، جس کے بعد صرف نمک کے کرسٹلز باقی رہ جاتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ عمل عموماً 15 دن جبکہ سردیوں میں ایک سے ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔

یہاں کام کرنے والوں کے مطابق پیداوار میں اضافے کے باعث گرمیوں میں مزدوروں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے اور یہ ایک ایسی روایتی مشق ہے جو نسلوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آئی ہے۔

’اب درد محسوس نہیں ہوتا‘BBCنثار علی اپنے زخمی ہاتھ دکھاتے ہوئے

نثار کے بقول اُن کا جسم اب ’لکڑی‘ ہو چکا ہے اور کام کے دوران ہاتھوں اور پیروں پر جگہ جگہ کٹ لگنے کے باوجود انھیں اب درد محسوس نہیں ہوتا۔

’یہ دیکھو ہاتھ، سب زخمی ہے۔ کدال چلاتا ہوں سارا دن۔ شروع میں درد ہوتا تھا لیکن اب نہیں۔ ابھی نمک سے دوستی ہے۔ شام میں گھر جا کر جرابیں اُتارتا ہوں، زخموں کو صاف پانی سے دھوتا ہوں تو جلن ہوتی ہے۔ مجھے اب ٹھیک سے نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر کو دکھایا تھا، بولتا ہے یہ کام چھوڑ دو، کیسے چھوڑ دوں؟ ہمارا باپ بھی یہی کام کرتا تھا۔‘

نثار کی چار بیٹیاں ہیں اور ان کے مطابق دو بڑی بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ دو چھوٹی والی ابھی پڑھ رہی ہیں۔ نثار بتاتے ہیں کہ اس کام کے ان کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو دیکھ کر اُن کی سب سے بڑی بیٹی حاجرہ روز اُن کے ساتھ لڑائی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ 'ٹھیکیدار کو بولیں کہ آپ کو سامان دے۔'

نثار کے مطابق وہ بیٹی کو بتاتے ہیں کہ ’ہزار بار بول چکا ہوں لیکن کوئی فائدہ نہیں۔ (ٹھیکیدار) نہ ہمیں جوتے دیتا ہے، نہ دستانے، نہ چشمہ۔ ڈاکٹر کی فیس بھی نہیں۔ میں اسے (ٹھیکیدار) بولتا ہوں اگر میں اندھا ہو گیا تو تم کام کس سے لو گے؟‘

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں شعبہ طب اور ڈرمیٹولوجی سیکشن میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ مسعود سمندر سے دیسی طریقے سے نمک نکالنے کے عمل کو انسانی صحت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں یہ کام دہائیوں پہلے آٹو میٹک مشینوں پر منتقل ہو چکا ہے۔

’اِن مزدوروں کی جلد روزانہ شدید 'یو وی' شعاعوں کا شکار ہوتی ہے۔ یہ شعاعیں جلد کی بیرونی تہہ (ایپیڈرمس) میں موجود خلیوں کو متاثر کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں سن برن ہو سکتا ہے اور مستقل ایسی صورتحال میں رہنے کی وجہ کے جلد کے کینسر کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ نمک جلد میں موجود پانی جذب کرتا ہے اور اس کے چِپکے رہنے سے انسانی کھال سُکڑ جاتی ہے، سمندری نمک میں معدنیاتی ارتکاز جلد کو زیادہ جلن بھی پہنچاتا ہے جس سے ایلرجیز، خارش، جلد پر سُرخی یا دانے بڑھ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں زخموں کے مندمل ہونے میں بھی معمول سے زیادہ وقت لگتا ہے اورانفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔‘

BBCنثار علی کسی حفاظتی بندوبست کے بغیر یہ سب کام کرتے ہیں

اسی طرح آنکھوں کی بیماریوں کے معالج ڈاکٹر سرور بھٹی کے نزدیک کھلے آسمان تلے نمک فارمز میں کام کرنے والے مزدوروں کی بینائی متاثر ہونا فطری بات ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’نمکین پانی اور آلودگی کی موجودگی سے کنجکٹیوائٹس یعنی آنکھوں کی جھلی کا سُوجنا اچھنبے کی بات نہیں۔ جب سورج کی تیز روشنی نمک کے کرسٹلز پر پڑتی ہے تو یہ روشنی آنکھوں میں داخل ہوتی ہے اور آنکھوں کی حساس سطحوں، جیسے قرنیہ اور ریٹینا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس عمل کو ’سنیلگیا‘ کہا جاتا ہے۔ طویل مدت تک سورج کی روشنی کا براہ راست اثر آنکھوں پر نابینا پن کا سبب بھی بن سکتا ہے۔‘

’مزدور عموماً بغیر چھٹی کے کئی کئی ہفتے مزدوری کرتے رہتے ہیں‘

عالمی یونین ’فیڈریشن پبلک سروس انٹرنیشنل‘ یعنی پی ایس آئی کے پاکستان میں پروگرام کوآرڈینیٹر اور متحدہ لیبر فیڈریشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میر ذوالفقار علی کے بقول سی سالٹ مائینر خواہ سندھ میں ہوں یا بلوچستان میں، اُن کی حالت سالوں نہیں بلکہ دہائیوں سے بہت خراب ہے۔

انھوں نے کہا کہ نسبتاً چھوٹی اور کم ہلچل والے اس انفارمل سیکٹر پر دیگر صنعتوں کے مقابلے میں بظاہر کسی کی نظر ہی نہیں جاتی اور مزدوروں کو ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، نہ تو ان کی نوکری پکی ہوتی ہے اور نا ہی کام کے اوقات، یعنی یہ بغیر کسی چھٹی کے کئی کئی ہفتے مزدوری کرتے رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حالانکہ حکومت سندھ صوبے میں کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر کر چکی ہے لیکن یہ مزدور شاید ہی اتنے کما پاتےہوں۔ ’رجسٹریشن نا ہونے کی وجہ سے کانٹریکٹ پر کام کرنے والے یہ سی سالٹ مائینر سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔‘

’اس معاملے میں لیبر انسپکشن ایک بہت اہم جزو ہے لیکن ہمارے ہاں لیبر انسپکٹر بہت کم اور انڈسٹریز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ انسپکٹرز فارمل سیکٹر کو اچھے سے نہیں دیکھ پاتے تو انفارمل، اور پھر اوپر سے نان رجسٹرڈ محنت کشوں پر کیا نظر ڈالیں گے!‘

نمک کے تالاب گلابی کیوں ہو جاتے ہیں؟BBC

سمندری نمک کے حصول کے لیے بنائے جانے والے ان مصنوعی تالابوں میں پائے جانے والے ایک خلیاتی جاندار، جسے ’ہیلو بیکٹیریا‘ یا ’نمک کے عاشق‘ کہا جاتا ہے، اس رنگت کا ذمہ دار ہے۔ یہ جاندار زیادہ نمکین ماحول میں خوب پھلتے پھولتے ہیں اور ایک مخصوص رنگ دار پروٹین 'بیکٹیریوروڈوپسین' پیدا کرتے ہیں جو انھیں گلابی رنگ دیتا ہے۔

یوں نمک کے تالاب نہ صرف نمک کی پیداوار کا ذریعہ ہیں بلکہ فطرت کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک خوبصورت نمونہ بھی پیش کرتے ہیں۔

تجارتی پہلو

سمندری نمک قدرتی وسائل میں سے ایک ہے جو مختلف صنعتی اور گھریلو شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کھانے کے شعبے میں سمندری نمک کا سب سے بڑا حصہ (تقریباً 75 سے 80 فیصد) فوڈ گریڈ نمک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

پروسیسسنگ کے بعد یہ صاف نمک کھانے پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس کی طلب ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سمندری نمک کا استعمال کاسمیٹکس، جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات اور اِسپاز میں بھی کیا جاتا ہے، جہاں اسے ڈیٹاکسیفکیشن اور جلد کو دلکش بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس صنعت سے جڑے افراد کے مطابق صنعتی سطح پر سمندری نمک کو کیمیکل مینوفیکچرنگ، چمڑا اور کپڑا رنگنے، صابن اور ڈیٹرجنٹ کی تیاری اور برف خانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سمندری نمک کے ذریعے مچھلی کے گوشت کو محفوظ رکھنے کا قدیم طریقہBBC

نمک کے ذریعے مچھلی کو محفوظ کرنے کی روایت قدیم زمانے سے جاری ہے اور یہ طریقہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بہت مقبول رہا ہے۔ ہڑپہ کے دور سے لے کر برطانوی راج تک مچھلی کو نمک لگا کر محفوظ کرنے کے لیے خاص ’کیورنگ یارڈز‘ قائم کیے جاتے رہےہیں جہاں مچھلی کو نمک کے محلول میں ڈبو کر یا نمک لگا کر خشک کیا جاتا تھا۔

یہ عمل مچھلی کو زیادہ دیر تک خراب ہونے سے بچانے کا مؤثر اور سستا ترین طریقہ تھا اور بین الاقوامی برآمدات کے لیے موزوں تھا۔ برٹش دور میں کراچی سے ممبئی اور دیگر بین الاقوامی مارکیٹوں تک نمک لگی مچھلی برآمد کی جاتی تھی جس سے نمک ایک اہم تجارتی کموڈیٹی بن گیا تھا۔

نمک کی خصوصیات جیسا کہ پانی جذب کرنا اور بیکٹیریا کی سرگرمی کو روکنا، مچھلی کو محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ نمک نہ صرف مچھلی کو خراب ہونے سے بچاتا ہے بلکہ غذائی معیار کو بھی برقرار رکھتا ہے۔

حالانکہ مچھلی کو فریز کرنے کے جدید طریقے دریافت ہونے کے بعد اس کام میں خاصی کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی پاکستان کے ساحلی علاقوں سے نمک لگی مچھلی سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ممالک کو بھیجی جاتی رہی ہے، جو نہ صرف غذائی ضروریات کو پورا کرتی بلکہ معیشت میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ اس تجارت کی تاریخی اہمیت برٹش دور کے ان ٹیکسز اور ضوابط سے بھی جھلکتی ہے جو نمک اور فشریز کی تجارت پر عائد کیے گئے تھے۔

’سمندری نمک نکالنے کی دیسی صنعت سُکڑ رہی ہے‘BBC

نمک کے اہم پیداواری مراکز میں کراچی کی پورٹ قاسم، ہاکس بے، دھابیجی، لانڈھی، ابراہیم حیدری، اور ماری پور کے علاقے شامل ہیں، جو تاریخی طور پر بڑے پیمانے پر نمک کی پیداوار کے لیے مشہور رہے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ مچھلی کو محفوظ کرنے کے جدید طریقے متعارف ہونے کے بعد نمک کی مانگ میں کمی واقع ہوئی اور ان علاقوں میں نمک کی پیداوار محدود یا ختم ہو گئی۔

بلوچستان میں گوادر اور پسنی جیسے علاقوں میں بھی نمک کی پیداوار، جو کبھی تجارتی لحاظ سے اہم تھی، کم ہوئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں راک سالٹ یا معدنی نمک کی کھپت صرف پانچ فیصد ہے کیونکہ اس کے مسائل اس کے استعمال کو محدود کرتے ہیں۔ معدنی نمک میں مٹی اور دیگر آلودگیاں ہوتی ہیں جو صفائی کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں کی جا سکتیں۔ اس کے برعکس سمندری نمک اپنی صاف اور خالص خصوصیات کی وجہ سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔

مزدوروں کو درپیش چیلنجز اور مشکلاتBBC

سندھ اور بلوچستان میں سمندری نمک نکالنے والے مجموعی طور پر ایک ہزار کے قریب محنت کشوں کو جو بڑی مشکلات درپیش ہیں وہ ان کی کم اجرت اور غیر محفوظ کام کے حالات ہیں۔ ان مزدروں کے پاس کسی قسم کی سوشل سکیورٹی، قانونی تحفظ یا پروٹیکٹیو گئیر کے نام پر مناسب سہولتیں نہیں ہیں۔

کارخانوں اور نمک فارمز کے مالکان کی جانب سے مبینہ زیادتی اور لیبر قوانین کی خلاف ورزی اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ اس کے باوجود یہ محنت کش اپنے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس مشکل کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اگرچہ اس صنعت کی اہمیت کو زیادہ نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ ان ہزاروں خاندانوں کے لیے روزگار فراہم کرتی ہے جو اس کام سے وابستہ ہیں، اور ان کی محنت سے حاصل ہونے والا کروڑوں روپے کا نمک پاکستان سمیت دنیا بھر میں استعمال ہو رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی نمک کی صنعت عالمی منڈیوں میں اہم مقام رکھتی ہے، جس کی برآمدات پچاس ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ یورپی منڈیوں میں پاکستانی نمک کی زبردست مانگ اس کے اعلیٰ معیار کے باعث ہے۔ اگر اس صنعت کو جدید ٹیکنالوجی اور بہتر پروسیسنگ کے ساتھ ترقی دی جائے تو اس کی برآمدی قدر کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔

’ایک ایکڑ سے لاکھوں میں آمدن‘: وہ پڑھے لکھے نوجوان جو نوکری چھوڑ کر کارپوریٹ فارمنگ کا رُخ کر رہے ہیںدو پاکستانی بھائیوں کی کمپنی ایمازون کی ٹاپ سیلرز لسٹ میں کیسے شامل ہوئی؟سنیل فارمنگ: پودوں پر رینگنے والے گھونگھے آپ کو کروڑوں روپے کیسے کما کر دے سکتے ہیں؟مزدور کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے: ’کبھی کبھی بغیر ناشتہ کیے میں کام پر اور بیٹی سکول جاتی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More