Getty Imagesپاکستان کے دو بڑے شہروں میں ہڑتال ہوئی
پاکستان میں سنیچر کو صنعت کاروں اور تاجروں کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ ملک کے دو سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں کارخانے، تجارتی مراکز اور مارکیٹوں میں تقریباً نوے فیصد کاروبار بند رہا۔
تاہم ملک کے کچھ شہروں میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں جس کی وجہ ملک میں کاروباری افراد پر مشتمل تجارتی اور صنعتی تنظیموں کے درمیان اختلافات تھے۔
پاکستان میں صنعت کاروں اور تاجروں کی ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے حکومت سے مذاکرات کے بعد ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جبکہ کراچی اور لاہور میں چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا جس کے بعد سنیچر کو ان شہریوں میں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بند رہیں۔
مگر اس بندش کی وجہ کیا ہے؟
صعنت کاروں اور تاجروں نے یہ ہڑتال ملک کے نئے مالی سال کے بجٹ میں فنانس ایکٹ میں شامل کیے جانے والے اقدامات کے خلاف کی۔
حکومت نے تاجر تنظیموں سے ہڑتال کے خاتمے کے لیے مذاکرات بھی کیے اور اس سلسلے میں ان کے تحفظات کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی جس کے بعد ان تنظیموں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور ایک گروپ کی جانب سے ہڑتال جاری رکھنے اور دوسرے کی جانب سے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ فنانس ایکٹ میں ایسے کیا اقدامات لیے گئے جس کے بعد کاروباری براداری میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
Getty Imagesہفتے کو ہونے والی ہڑتال کے اثرات نظر آئےمبینہ ٹیکس فراڈ پر گرفتاری کا اختیار
ملک میں کاروباری افراد کی جانب سے فنانس ایکٹ میں لیے گئے اقدامات میں سے سب سے زیادہ جس چیز کی مخالفت کی گئی ہے وہ ٹیکس قانون میں شامل سیکشن 37 اے اور 37 بی ہیں۔
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ سیکشنز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ مبینہ ٹیکس فراڈ پر تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس کا ایک طریقۂ کار بنایا گیا ہے جس کے تحت کسی پر ٹیکس فراڈ کے شک کی صورت میں حکام اسے بلائیں گے کہ وہ بیان حلفی دے، کاغذات جمع کرائے اور اس کی انکوائری چھ مہینے میں مکمل کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد اگر کسی پر ٹیکس میں ہیر پھیر کا شک ہو تو انکم ٹیکس کمشنر اس کے لیے رسمی تحقیقات کی منظوری دے گا، ایسے فرد سے مزید دستاویزات طلب کرے گا اور اگر شواہد ناکافی یا کمزور ہوئے تو تحقیقات بند کر دے گا۔
تاہم انھوں نے واضح کیا کہ گرفتاری اس صورت میں ہو گی کہ اگر مبینہ ٹیکس فراڈ پانچ کروڑ روپے سے زیادہ کا ہو، ایف بی آر کی تین رکنی کمیٹی اس گرفتاری کی منظوری دے اور ملزم ایف بی آر کے تین نوٹسز کا جواب نہ دے۔ یا پھر اس کے فرار ہونے یا اس کی جانب سے شواہد ختم کرنے کا اندیشہ ہو۔
ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ تحقیقات کے دوران عدالتی وارنٹ کے ذریعے گرفتاری کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملزم کو تحریری طور پر بتایا جائے گا کہ اسے کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے اور وہ کریمینل کیسز کی طرح اس میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
تاجر طبقے کی جانب سے فنانس ایکٹ میں ایک اور اقدام پر بھی احتجاج کیا گیا ہے جس میں کسی سودے پر ادائیگی پر دو لاکھ تک کیش ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ لیکن دو لاکھ سے زائد پر جو کیش ادا کیا جائے گا، اسے ٹیکس والی آمدنی شمار کیا جائے گا۔
مثلاً اگر تین لاکھ کی کیش ادائیگی کی جائے گی تو دو لاکھ سے اوپر ایک لاکھ روپے میں سے آدھی رقم پر ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
Getty Imagesہڑتال کے دوران کاروباری مراکز بند رہےتاجر تنظیموں کی جانب سے فنانس ایکٹ کے اقدامات کی کیوں مخالفت کی جا رہی ہے ؟
فنانس ایکٹ میں اٹھائے گئے جن اقدامات کے خلاف ملک کے کاروباری افراد احتجاج کر رہے ہیں ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں ٹیکس تنازعات اور اس کی چوری پر بننے والے کیسز میں سے 98 فیصد کا فیصلہ ٹیکس دہندگان کے حق میں آتا ہے اور صرف دو فیصد میں ٹیکس چوری ثابت ہوتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ٹیکس چوری کے الزام پر گرفتاری ہو گی، بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے اور بعد میں اگر کچھ بھی نہ نکلا تو اس شخص کی عزت اور کاروباری ساکھ کا کیا ہو گا؟
جاوید بلوانی نے کہا یہ ایسے اقدامات ہیں جو تاجر برادری کے لیے بہت تشویش ناک ہیں جس کی وجہ سے کاروباری افراد ہڑتال پر مجبور ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ’دو لاکھ سے اوپر کی کیش ادائیگی پر معیشت کو دستاویزی بنانے کا جو اقدام اٹھایا گیا ہے، وہ بھی بڑا عجیب ہے۔۔۔ اکانومی کو ڈاکیومنٹ کرنے کے لیے ایف بی آر کے پاس انفورسمنٹ کا شعبہ ہے۔ لیکن اس کی جانب سے کوئی کام کرنے کی بجائے ایک نیا اقدام لیا گیا ہے کہ دو لاکھ سے اوپر والی کیش ادائيگی والی رقم پر ٹیکس لگا دیا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ جو لوگ آج ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں، وہ رضاکارانہ شامل ہوئے ہیں اور جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں انھیں ہی ایسے اقدامات سے پریشان کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں زرعی آمدن پر ٹیکس کیوں لگایا گیا ہے اور ’سُپر ٹیکس‘ کا اطلاق کتنی آمدن پر ہو گا؟167.51 روپے کا پٹرول آپ کی موٹرسائیکل اور کار کی ٹینکی تک پہنچتے پہنچتے 272.15 روپے فی لیٹر کیوں ہو جاتا ہے؟پاکستان میں کینو کے کاشتکاروں کو ’بدترین نقصان‘: ’کینو نہیں بکے گا تو ہم حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرسکتے بھلے وہ ہمیں جیلوں میں ڈال دیں‘پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟کیا کاروباری افراد کی تشویش جائز ہے؟
اس بارے میں ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل ملک میں ٹیکس فراڈ کی تعریف میں ترمیم کی گئی ہے۔
ذیشان مرچنٹ نے بتایا کہ ٹیکس فراڈ میں ہر اس چیز کو شامل کر دیا گیا ہے جس پر پہلے صرف معمولی سزا تھی، جیسے اب غلط انوائس، غلط بینک اکاؤنٹ دینا اور غلط بینک اکاؤنٹ کھولنا سب ٹیکس فراڈ قرار دیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ٹیکس فراڈ کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے اوراس میں بہت سارے لوگ آئیں گے۔‘
مرچنٹ نے اسے ’ڈریکونین قانون‘ قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔
ان کی رائے ہے کہ مشکلات ایسے لوگوں کے لیے پیدا ہوں گی جو پہلے سے ٹیکس سسٹم میں ہیں۔ ’جو ٹیکس فراڈ کرتے ہیں وہ ملی بھگت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو ٹیکس ادا کرنے والا پریشان ہے کہ وہ ٹیکس دے رہا ہے اور پھر بھی مسائل کا شکار ہے اور جو سسٹم کو دھوکہ دے کر ٹیکس نہیں ادا کر رہے، وہ آزاد ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سسٹم کو مشکل بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ اس سال ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں میں کمی ہو سکتی ہے۔‘
مسٹر مرچنٹ نے کہا کہ ’دو لاکھ سے زائد کیش والا اقدام معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ٹھیک ہو سکتا ہے تاہم ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایف بی آر ایک دن اٹھے اور کہے کہ فوراً سے یہ کام شروع کر دو۔ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو کچھ وقت دے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کو بھی لچک دکھانی ہو گی اور ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھی ٹیکس قانون پر زیادہ عمل درآمد کرنا پڑے گا۔‘
ٹیکسامور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بی بی سی کو بتایا کہ 'کسی ٹیکس فراڈ کے ثابت ہونے کے بعد گرفتاری کرنا مناسب ہے تاہم اس سے پہلے گرفتاری صحیح نہیں ہے جس کی وجہ سے تاجر احتجاج کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے دو لاکھ سے زائد کیش پر ٹیکس کے معاملے پر رائے دی کہ ’حکومت ریٹیلرز پر تو ٹیکس نہیں لگا سکی، اس لیے ڈیجیٹیل موڈ پر زور دے رہی ہے۔ تاہم یہ کام ایک دم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے پہلے ایسا انفراسٹرکچر بنانا پڑے گا اور سہولیات فراہم کرنا ہوں گی کہ لوگ نقد معیشت سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف مائل ہوں۔‘
فنانس ایکٹ کے اقدامات پر حکومت کا کیا موقف ہے؟
بی بی سی نے اس معاملے میں وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت راںا احسان افضل سے بات کی ہے جو حکومتی کمیٹی کا حصہ ہیں اور کاروباری افراد سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہیں۔
رانا احسان کا کہنا ہے کہ فنانس ایکٹ میں جن ٹیکس قوانین پر کاروباری افراد اعتراضات کر رہے ہیں ان میں ٹیکس فراڈ میں گرفتاری قابل ذکر ہے۔ ’اس سلسلے میں مختلف مراحل ہیں اور غلط انوائسنگ پر ٹیکس فراڈ میں ملوث کسی شخص کو تین نوٹس بھیجے جائیں گے اور اس کی گرفتاری میں عدالت بھی شامل ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب حکومتی کمیٹی نے تاجروں سے مذاکرات کیے تو ان کی تسلی کروا دی تھی۔ تاجروں کے دھڑوں میں ہڑتال پر اختلاف پر انھوں نے کہا یہ ان کی چیمبرز کی سیاست کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے دو لاکھ سے زائد کیش ادائیگی پر ٹیکس والے مسئلے پر کہا کہ ’تاجر اس کی حد پچاس لاکھ روپے چاہتے تھے تاہم مذاکرات میں اس سلسلے میں بھی پیشرفت ہوئی ہے اور کمیٹی اس کو دیکھ رہی ہے۔‘
تاجر تنظیموں کی جانب سے تحریری یقین دہانی کے سلسلے میں انھوں نے کہا کہ کمیٹی نے 30 دن میں اپنا کام مکمل کرنا ہے جس کی منظوری وزیر اعظم پاکستان دیں گے۔
انھوں نے کہا ’ہمیں اس میں آئی ایم ایف پروگراماور اس کی شرائط کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔‘
پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟پاکستان میں زرعی آمدن پر ٹیکس کیوں لگایا گیا ہے اور ’سُپر ٹیکس‘ کا اطلاق کتنی آمدن پر ہو گا؟167.51 روپے کا پٹرول آپ کی موٹرسائیکل اور کار کی ٹینکی تک پہنچتے پہنچتے 272.15 روپے فی لیٹر کیوں ہو جاتا ہے؟گندم کی بہترین فصل کے باوجود کسان پریشان: حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟ نئے حکومتی ٹیکس کے نفاذ کے بعد پیٹرول کی قیمت میں 8.36 روپے کا اضافہ: ’ایک طرف ریلیف ملتا ہے تو دوسری طرف کچھ نا کچھ مہنگا ہو جاتا ہے‘