طالبان کا پاکستان پر تجارتی انحصار کم کرنے کا اعلان: ’تعلقات خرابی کی اس نہج تک پہنچ گئے جہاں مفاہمت مشکل ہے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 12, 2025

Getty Imagesپاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ہر قسم کی تجارت کے لیے 32 روز سے بند ہے

گذشتہ مہینے سرحدی جھڑپوں اور مذاکرات کے تین ادوار کی ناکامی کے بعد افغانستان نے اپنے صنعت کاروں اور تاجروں کو پاکستان کے بجائے دیگر ممالک کے ذریعے تجارت کے راستے تلاش کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

بدھ کو افغان صنعت کاروں اور تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے طابان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ وہ پاکستان کے بجائے دیگر ممالک سے تجارت کے راستے تلاش کریں اور اگر کوئی تاجر اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو پھر افغان حکومت ان کی کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی۔

طالبان کے نائب وزیرِ اعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبدونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے ترکی اور قطر جیسے ممالک کی کوششیں جاری ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ہر قسم کی تجارت کے لیے 32 روز سے بند ہے اور اس وقت سرحد پر بڑی تعداد میں تجارتی سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں کھڑی ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے اس اقدام پر تاجر رہنما اور سوشل میڈیا پر صارفین اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم اس سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ ملا عبدالغنی برادر نے اپنے خطاب میں اور کیا کہا ہے۔

’پاکستان سے تجارتی لین دین بند‘

اپنی تقریر میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم عبدالغنی برادر نے تاجر برادری کو تجارت کے متبادل راستے تلاش کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ 'تجارتی لین دین بند' کرے گا۔

ملا عبدالغنی برادر کے مطابق اس وقت پاکستان کے ساتھ تجارت کا بڑا حصہ ادویات کی درآمد پر مشتمل ہے اور ان کی جانب سے پاکستانی ادویات درآمد کرنے والے تاجروں کو ’مالی معاملات مکمل‘کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔

Getty Imagesملا عبدالغنی برادر کے مطابق اس وقت پاکستان کے ساتھ تجارت کا بڑا حصہ ادویات کی درآمد پر مشتمل ہے

طالبان کے نائب وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ کوئی بھی ملک انفرادی طور پر اپنی تمام ضروریات پوری نہیں کر سکتا اس لیے ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

تاہم ’بد قسمتی سے بعض ممالک سے تجارت میں رکاوٹیں اور اقتصادی بندش اور سیاسی طور پر دباؤ کی وجہ سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔‘

بی بی سی نے طالبان کے نائب وزیرِ اعظم کے اعلان پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پر گہری نظر رکھنے والی شخصیات سے بات کی ہے اور اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔

’پاکستان سے تجارت میں آسانیاں ہیں، خرچہ کم ہے اور مال وقت پر پہنچ جاتا ہے‘

ماہرین اور چیمبر آف کامرس کے موجودہ اور سابق عہدیداران کا کہنا ہے کہ طالبان کے اس فیصلے سے افغانستان کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاک-افغان مشترکہ چیمبر کے رہنما خان جان الکوزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اس اجلاس میں شریک تھے اور اس میں ملا عبدالغنی برادر نے کہا تھا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کا مؤقف یہ ہے کہ پاک افغان سرحد اکثر بند کر دی جاتی ہے، جس سے تاجروں کا نقصان ہو رہا ہے۔

خان جان الکوزئی کہتے ہیں کہ ’اس نقصان سے بچانے کے لیے ملا عبدالغنی برادر نے تجویز دی ہے کہ تجارت کے متبادل راستے تلاش کریں، جو مشکل ضرور ہو گا لیکن ناممکن کچھ نہیں ہے۔‘

پاکستان اور افغانستان کا ایک دوسرے پر مذاکرات کی ناکامی کا الزام: ’کیا ہم پاکستان کی سکیورٹی کے ذمے دار ہیں‘ امیر خان متقیبلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام: پولیسنگ کا 140 سال پرانا قبائلی نظام کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور میں افغان طالبان کے وفد میں شامل شخصیات کون ہیں؟

ایک سوال کے جواب میں پاک-افغان مشترکہ چیمبر کے رہنما نے کہا کہ ’پاکستان سے تجارت میں آسانیاں ہیں، کم خرچ ہے اور مال وقت پر پہنچ جاتا ہے جیسے اگر لاہور سے ٹرک صبح کے وقت روانہ ہو تو شام تک جلال آباد میں ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کے ساتھ اگر تجارت ہوگی تو اس میں مشکل یہ ہے کہ ایک تو اس پر خرچہ زیادہ آئے گا اور دوسرا اس میں وقت زیادہ لگ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کے چین کا سامان قازقستان کے راستے پہنچ رہا ہے لیکن اس میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے۔

دیگر تاجر رہنماؤں کا مؤقف بھی یہی ہے کہ تجارت کی بندش سے دونوں ممالک کو نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان میں چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور پاک افغان چیمر کے رکن فیض محمد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جب سے افغانستان میں نئی حکومت آئی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم کافی حد تک کم ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تجارت کی بندش سے دونوں ممالک کے تاجروں کو نقصان ہوگا کیونکہ پاکستان سے سیمنٹ، چاول، ادویات موسمی سبزیاں اور پھلوں کے علاوہ چکن وغیرہ بھی افغانستان جاتا ہے، اسی طرح افغانستان سے پھل اور سبزیاں پاکستان آتی ہیں اور اس سے تجارت سے وابستہ ہر طبقے کا فائدہ ہوتا ہے۔

Getty Imagesپاک-افغان مشترکہ چیمبر کے رہنما نے کہا کہ پاکستان سے تجارت میں آسانیاں ہیں، کم خرچ ہے اور مال وقت پر پہنچ جاتا ہے

تاہم خان جان الکوزئی کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں تاجروں کا مشکل وقت تو گزر گیا ہے کیونکہ انار، انگور اور سیب کا موسم لگ بھگ ختم ہو گیا ہے۔ اب پاکستان کے پھلوں کی باری ہے جیسے کیلا، امرود، مالٹا، کینو اور دیگر پھل آئیں گے اور سرحد کی بندش سے پاکستان کے کسانوں اور تاجروں کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘

لیکن طورخم سرحد پر موجود کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ ایسوسی ایشن کے رہنما مجیب شنواری سمجھتے ہیں اس بندش سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہوگا کیونکہ باقی کوئی ایسے متبادل راستے نہیں ہیں جہاں سے افغانستان تجارت کر سکے۔

’مثال کے طور پر ایران پر پہلے سے عالمی سطح پر پابندیاں ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیائی مالک افغانستان سے دور ہیں اور وہاں سے تجارت پر زیادہ اخراجات آ سکتے ہیں، جس سے مقامی سطح پر مہنگائی ہوگی یا قلت ہو سکتی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر بحث

ملا عبدالغنی برادر کے بیان پر پاکستان اور افغانستان میں سوشل میڈیا صارفین بھی تجزیے و تبصرے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

محقق عبدالسید نے ملا عبدالغنی برادر کے اعلان پر ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’اس پیش رفت سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات خرابی کی اس نہج تک پہنچ گئے ہیں جہاں مفاہمت مشکل نظر آتی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’طالبان سفارتی دباؤ میں آنے کے بجائے بظاہر پاکستان کے معاملے پر جارحانہ اور ٹکراؤ پر مبنی مؤقف اپنا رہے ہیں۔‘

پاکستان اور افغانستان پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ایاز گُل سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر تجارت کا انحصار کم کرنے سے متعلق ملا عبدالغنی برادر کے بیان کو توجہ تو حاصل ہوئی ہے لیکن ’افغانستان کی جنگ سے تباہ اور لڑکھڑاتی معیشت‘ اس اقدام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایاز گل نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ’ 'کوئی بھی دوسرا پڑوسی ملک افغانستان کو ڈومیسٹک اور بین الاقوامی مارکیٹس تک ایسی رسائی نہیں فراہم کر سکتا۔‘

دوسری جانب کچھ لوگ طالبان حکومت کے اس اقدام کو درست سمجھتے ہیں۔

علی غورزنگ نامی ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’ملا عبدالغنی برادری کی آج کی پریس کانفرنس امارتِ اسلامیہ کی جرات اور اصولی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے۔‘

’پاکستان کے بار بار تجارتی راہداریوں کو بند کرنے کے فیصلے سے افغان تاجروں اور کسانوں کو مالی نقصان ہوتا ہے اور اسے سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس کے اب نتائج سامنے آئیں گے۔‘

پاکستان میں کچھ شخصیات طالبان کے نائب وزیرِ اعظم کے بیان کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔

پاکستان میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ: ’ملا برادر نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان پاکستانی برآمدات پر پابندی عائد کر رہا ہے، تاہم پاکستانی حکومت نے ہفتوں پہلے ہی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی تھی۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ’ملا برادر اور افغانستان کی عبوری حکومت اپنے مؤقف پر قائم رہیں گے اور پاکستان سے اور اس کے ذریعے ہونے والی تجارت کو بند رکھیں گے۔‘

الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگنڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟سکندر اعظم سے امریکی حملے تک: افغانستان ’سلطنتوں کا قبرستان‘ یا ’فتح کی شاہراہ‘؟سرحد کی بندش کے باعث 20 دن تک طورخم پر پھنسے رہنے والے افغان پناہ گزین: ’ہم ٹرکوں پر رہنے پر مجبور تھے، اس دوران میری بیوی نے مُردہ بچے کو جنم دیا‘’گریٹر افغانستان‘ کا متنازع نقشہ: ’اس قسم کی اشتعال انگیز ویڈیوز کشیدگی مزید بڑھائیں گی‘
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More