کرفیو میں پاکستانی ٹیم کی ٹریننگ، تامل ٹائیگرز کا خوف اور رانا ٹنگا کے آنسو: نوے کی دہائی کی یادیں اور ’وہ قرض جو سری لنکا آج چُکا رہا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2025

کرکٹ کی تاریخ میں جہاں ایک طرف پاکستان، انڈیا اور انگلینڈ، آسٹریلیا جیسے حریفوں کی مثال دی جاتی ہے، وہیں پاکستان اور سری لنکا کی دوستی کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی رہی ہیں، چاہے وہ سنہ 1994 ہو یا سنہ 2025۔

گذشتہ دنوں جب اسلام آباد میں خودکُش دھماکے کے بعد چند سری لنکن کرکٹرز نے اپنے دورہ پاکستان کو مختصر کرتے ہوئے وطن واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو پاکستانی حکام نے انھیں رکنے پر آمادہ کر لیا، اور شاید اس فیصلے کے پیچھے ماضی کے اُن فیصلوں کا ہاتھ ہے جس کی وجہ سے سری لنکن کرکٹ اپنے ملک میں نوے کی دہائی میں درپیش مشکل ترین حالاتکا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔

جیسے ہی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان جاری رہنے کی خبر وائرل ہوئی، ویسے ہی سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف نے ٹویٹ کر کے سنہ 1994 اور سنہ 1996 میں ہونے والے اُن دو دوروں کا تذکرہ کیا جس میں سکیورٹی خدشات کے باوجود پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا گئی اور وہاں کھیلی۔

بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وکٹ کیپر راشد لطیف کا کہنا تھا کہ تین دہائیوں قبل سری لنکا میں سکیورٹی کے حالات زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن پاکستانی کھلاڑیوں نے خدشات کے باوجود وہاں جا کر کرکٹ کھیلی، اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے سری لنکن کرکٹرز اور عوام شاید آج تک نہیں بھلا پائے ہیں۔

راشد لطیف کے مطابق تامل ٹائیگرز اور سری لنکن حکومت کے درمیان انتہائی پرتشدد جھڑپوں کی وجہ سے اُس وقت سری لنکا کے حالات کرکٹ کے لیے سازگار نہیں تھے، نہ ہوٹل سے ٹیم کو باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی اور نہ سکیورٹی کے بغیر شہر میں گھومنے پھرنے کی۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’ایوان صدر کے قریب ہونے کی وجہ سے پاکستانی ٹیم ہوٹل میں تو محفوظ تھی لیکن کھلاڑی جہاں بھی جاتے سکیورٹی کے ساتھ ہی جاتے تھے۔ دوسرے ٹیسٹ کے وقت ہی سری لنکا میں عام انتخابات ہو رہے تھے جس کی وجہ سے کولمبو میں کرفیو لگا ہوا تھا اور اسی وجہ سے ٹیسٹ میچ کو منسوخ کر کے شیڈول میں دو اضافی ون ڈے انٹرنیشنل شامل کر دیے گئے تھے۔‘

’ٹیم میٹنگ میں جب سکیورٹی حالات کا ذکر ہوا تو مینجمینٹ کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں نے بھی کولمبو میں رہنے کا فیصلہ کیا، اس کے بعد پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں نے تیسرا ٹیسٹ بھی کھیلا، اضافی ون ڈے انٹرنیشنل میچز بھی اور بعد میں چار ملکی سیریز بھی کھیلی۔‘

راشد لطیف نے یہاں یہ بھی واضح کیا کہ پاکستانی ٹیم کے دورہ سری لنکا سے قبل وہاں موجود نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ہوٹل کے باہر بم دھماکہ ہوا تھا جس کی وجہ سے کئی کھلاڑی وطن واپس چلے گئے تھے، پاکستان کے ایسا نہ کرنے سے سری لنکن عوام کے دل میں گرین شرٹس کے لیے محبت بڑھی جو آج بھی قائم ہے۔

Getty Imagesنوے کی دہائی میں تامل ٹائیگرز کے ساتھ جھڑپوں میں سری لنکا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہوئے تھےتامل ٹائیگرز کا چیلنج اور پاکستانی ٹیم کا دورہ سری لنکا

نوے کی دہائی کا سری لنکا آج کے سری لنکا سے بہت مختلف تھا۔ اُس وقت تامل ٹائیگرز اور سری لنکن حکومت کے درمیان جھڑپیں روز کا معمول تھا گور حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ’باغیوں‘ کو ٹارگٹ کرتی تھی۔

ایسے میں سنہ 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی سری لنکن حکومت کے لیے کسیچیلنج سے کم نہیں تھی۔ سال کے آغاز میں ہی سری لنکا سے خونریزی کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے وہاں میچز کھیلنے سے انکار کر دیا۔

چونکہ اس ورلڈ کپ میں تینوں میزبان ممالک اپنے راؤنڈ میچز اپنی سرزمین پر کھیل رہے تھے، اس لیے منتظمین نے بھی سری لنکا کو واک اوور دینے کا فیصلہ کیا، اس سے انھیں چار قیمتی پوائنٹس تو مل گئے لیکن ان کے عوام مایوس اور کھلاڑی پریکٹس سے محروم ہو گئے۔

ایسے میں پاکستان اور انڈیا کے سٹار کھلاڑیوں پر مشتمل کمبائنڈ الیون نے نہ صرف سری لنکا جا کر ایک نمائشی میچ کھیلا بلکہ عوام کے دل بھی جیت لیے، اس میچ میں کمبائنڈ الیون کی قیادت محمد اظہرالدین نے کی جبکہ سری لنکن الیون ارجنا راناٹنگا کی قیادت میں اتری۔

پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے میزبان ٹیم نے 40 اوورز میں نو وکٹوں کے نقصان پر 168 رنز بنائے، جس میں اسانکا گوروسنہا کے 34 اور کپتان راناٹنگا کے 32 رنز شامل تھے۔

جواب میں کمبائنڈ الیون نے سچن ٹنڈولکر کے 36 اور کپتان اظہراالدین کے 32 رنز کی بدولت 35ویں اوور میں ہی میچ چار وکٹوں سے اپنے نام کر لیا۔

پاکستان کے نامور ڈبلیوز وسیم اکرم اور وقار یونس کی موجودگی کے باوجود لیگ سپنر انیل کمبلے چار وکٹیں لینے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ مین آف دی میچ بھی قرار پائے۔

سری لنکن ٹیم کے حق میںقرارداد اور فیلڈ مارشل کا تذکرہ: مہمان ٹیم کو دی جانے والی ’صدارتی سکیورٹی‘ کیا ہے؟ابرار احمد اور ہسرنگا کی ’سپورٹس مین سپرٹ‘ کا چرچا: ’یہ وہ چیز ہے جو انڈین کرکٹ ٹیم کبھی نہیں سیکھ سکتی‘آٹھ گیندوں پر آٹھ چھکے اور صرف نو منٹ میں نصف سنچری بنانے والے انڈین کھلاڑی کون ہیں؟اینجلو میتھیوز ’ٹائمڈ آؤٹ‘: سری لنکن بلے باز نے کس طرح کرکٹ ورلڈ کپ کی ناپسندیدہ تاریخ اپنے نام کی

اس میچ میں21 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلنے والے راشد لطیف کا کہنا تھا کہ جس وقت اس کمبائنڈ الیون بمقابلہ سری لنکا میچ کا فیصلہ ہوا، اس وقت پاکستانی ٹیم کولکتہ میں میگا ایونٹ کی افتتاحی تقریب کے لیے موجود تھی اور کسی بھی کھلاڑیکو سری لنکا جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔

’افتتاحی تقریبکے دوران ہی ہمیں بتایا گیا تھا کہ چند کھلاڑیوں کو کولمبو جانا ہے ان حالات میں وہاں جا کر میچ کھیل کر نہ صرف ہم نے عوام سے داد سمیٹی بلکہ اس وقت کی سری لنکن وزیر اعظم بندرانایئکے نے میچ کے بعد تقریر میں پاکستا ن اور انڈیا کے کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کیا۔‘

’مجھے آج بھی یاد ہے کہ سری لنکن کپتان ارجنا راناٹنگا کی آنکھوں میں اس تقریر کے وقت آنسو تھے اور انھوں نے بعد میں کہا کہ جو پاکستان اور انڈیا کے کھلاڑیوں نے کیا، وہ اسے کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔‘

37 ٹیسٹ اور 166 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے راشد لطیف نے یہ بھی بتایا کہ سری لنکا کے عوام دوست قسم کے لوگ ہیں، پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے وہاں کسی کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ریٹائرمٹ کے بعد افغانستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ بطور کوچ منسلک ہونے والے راشد لطیف نے یہ بھی کہا کہ کراچی میں زندگی گزارنے کی وجہ سے نہ تو سری لنکا اور نہ ہی افغانستان میں ان کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

جب وہ کوچنگ کا چارج سنبھالنے کے لیے پہلی مرتبہ کابل گئے تو ان کو بتایا گیا کہ وہاں حالات اچھے نہیں، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں کراچی میں پلا بڑھا ہوں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

پاکستانی ٹیم کی کرفیو میں بھی ٹریننگGetty Images(فائل فوٹو)

پاکستان کے لیے سب سے زیادہ انٹرنیشنل میچز کور کرنے والے قمر احمد بھی ان صحافیوں میں شامل تھے جو سنہ 1994 میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں موجود تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ 1994 کے دورہ سری لنکا میں حالات سازگار نہیں تھے، پورا ملک وار زون بنا ہوا تھا اور پاکستانی کھلاڑیوں اور صحافیوں کے ساتھ مستقل سکیورٹی اہلکارموجود رہتے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کرکٹ ٹیم نے وہاں رہ کر ان کا ساتھ دیا۔

'اس دورے پر جہاں ایک طرف کرکٹ ہو رہی تھی وہیں دوسری جانب الیکشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ ایک موقع پر تو ایسا بھی لگ رہا تھا جیسےحکومت اور تامل ٹائیگرز کی جھڑپوں کی وجہ سے دورہ مکمل نہیں ہو پائے گا لیکن پاکستان اور سری لنکا کی دوستی اس دشمنی کے سامنے ڈٹ گئی، سوائے ایک ٹیسٹ میچ کی منسوخی کے سیریز کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔‘

عبدالرشید شکور گذشتہ چار دہائیوں سے سپورٹس صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور 1994 کے دورہ سری لنکا میں وہ وہاں دو ماہ تک موجود تھے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان نے دورے پر دو ٹیسٹ اور پانچ ون ڈے انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ چار ملکی سیریز کھیل کر سری لنکن عوام کو خوب متاثر کیا۔

’کولمبو میں دوسرے ٹیسٹ کی تاریخوںکے دوران عام انتخابات کی وجہ سے دو دن کا کرفیو لگایا گیا تھا، حالات نہ بگڑیں اس لیے دوسرا ٹیسٹ میچ منسوخ کر کے دو اضافی ون ڈے انٹرنیشنل رکھ دیے تھے، جن کی تیاری کے لیے پاکستانی ٹیم نے کرفیو میں بھی ٹریننگ کی۔‘

ان کے مطابق پاکستان کی سری لنکا آمد سے قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم دو مرتبہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے واپس جا چکی تھی، پاکستانی کرکٹرز کا ان حالات میں وہاں سے واپس نہ جانا ان کے عوام کے ذہنوں پر اچھا تاثر چھوڑ گیا۔

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے باقی دو میچز اب راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔ اس کے بعد پاکستان، سری لنکا اور زمبابوے کی ٹیمیں تین ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں مدمقابل ہوں گی۔

سری لنکن ٹیم کے حق میںقرارداد اور فیلڈ مارشل کا تذکرہ: مہمان ٹیم کو دی جانے والی ’صدارتی سکیورٹی‘ کیا ہے؟آٹھ گیندوں پر آٹھ چھکے اور صرف نو منٹ میں نصف سنچری بنانے والے انڈین کھلاڑی کون ہیں؟فیصل آباد میں 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی: جس پچ کے بارے میں ڈینس للی نے کہا ’مر جاؤں تو مجھے اس کے نیچے دفنایا جائے‘’حارث رؤف میچ ونر ہیں، کبھی پاکستان کے لیے تو کبھی دوسری ٹیموں کے لیے‘ابرار احمد اور ہسرنگا کی ’سپورٹس مین سپرٹ‘ کا چرچا: ’یہ وہ چیز ہے جو انڈین کرکٹ ٹیم کبھی نہیں سیکھ سکتی‘اینجلو میتھیوز ’ٹائمڈ آؤٹ‘: سری لنکن بلے باز نے کس طرح کرکٹ ورلڈ کپ کی ناپسندیدہ تاریخ اپنے نام کی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More