کیا پاکستان کی سکیورٹی صورتحال میں بہتری افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں؟

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2025

Getty Images

گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے سرحدی علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم رواں ہفتے وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے ایک خودکش حملے نے ملک کی سکیورٹی پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں۔

اس دھماکے میں 12 افراد ہلاک جبکہ 27 زخمی ہوئے تھے۔

اسلام آباد حملے سے ایک روز قبل وانا کیڈٹ کالج پر ہونے والے حملے کے بعد عمارت کے اندر چھپے چار شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کا آپریشن کئی گھنٹے تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوا تھا۔

منگل (11 نومبر) کے روز ایک تیسرا حملہ بھی ہوا جب خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے دربن میں سکیورٹی اہلکاروں پر ہوئے ایک آئی ای ڈی حملے میں متعدد فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔

جمعہ (14 نومبر) کے روز حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اسلام آباد خودکش حملے میں ملوث تحریک طالبان پاکستان کے چار ارکان کو گرفتار کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کے ’ہینڈلر‘ نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں مقیم کمانڈر نے ٹیلی گرام کے ذریعے رابطہ کر کے اسلام آباد میں خودکش حملہ کروانے کا کہا تھا۔

حکومت پاکستان نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجود اعلیٰ قیادت ہر قدم پر اسلام آباد حملے میں ملوث نیٹ ورک کی رہنمائی کر رہی تھی۔

یاد رہے کہ تاحال کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

’افغانستان کی جانب سے مستقبل میں ہونے والی جارحیت کا آغاز‘

رواں ہفتے کے دوران ہونے والے ان بڑے حملوں کے فوراً بعد پاکستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے سخت بیانات سامنے آئے اور پاکستان کے وزیر دفاع نے اس امکان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا کہ مستقبل میں پاکستان افغانستان کے اندر کارروائی نہیں کر سکتا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی اسلام آباد حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ’انڈیا کی پشت پناہی میں سرگرم‘ شدت پسند گروہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔

تاہم نئی دہلی نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی قیادت کی طرف سے عائد کردہ ’بے بنیاد الزامات‘ کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

ان حملوں کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے سخت موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اور ان حملوں کو ’افغانستان کی جانب سے مستقبل میں ہونے والی جارحیت کا آغاز‘ سمجھا جا سکتا ہے، جو دراصل ’انڈیا کی ہو گی جو افغانستان کے راستے‘ کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت نے اسلام آباد اور وانا میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ’قیمتی جانوں کے ضیاع پر دُکھ کا اظہار‘ کیا ہے۔

اسلام آباد خودکش حملے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد حملہ ایک پیغام ہے کہ وہ دارالحکومت تک پہنچ سکتے ہیں‘ اور افغان طالبان کو مذاکرات کے حوالے سے مخلص سمجھنا خود کو ’بیوقوف بنانے کے مترادف‘ ہے۔

Getty Imagesاسلام آباد خودکش حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے

بدھ کی شب وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذاکرات کی ناکامی پر افغان طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو وہ ’لانگ رینج ٹیکٹکس‘ استعمال کرتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد کو نشانہ بنائیں گے۔

طلال چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے پاس شواہد ہیں جن کی بنا پر انڈیا اور افغانستان کا نام لیا گیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ثالث کوشش کر لیں مگر پاکستان اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر قسم کی کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے اور جو وقت موزوں ہو گا وہ کیا جائے گا۔‘

اس پیچیدہ صورتحال پر تجزیہ کار منقسم نظر آتے ہیں۔ کچھ تجزیہ کار کابل میں طالبان حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تاہم دیگر کا ماننا ہے کہ حملوں میں اضافہ پاکستان کی داخلی سکیورٹی کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔

’ہمارے پاس جدید ہتھیار نہیں۔۔۔ مگر ایسی چیز ہے جو پاکستان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے‘

سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اعجاز حیدر پاکستانی وزیر دفاع کے اس بیان سے متفق ہیں کہ ’پاکستان حالت جنگ میں ہے۔‘

اعجاز حیدر طالبان رہنما عبدالسلام ضعیف کی ایک حالیہ ویڈیو کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ضعیف نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس جدید ہتھیار نہیں۔۔۔ مگر ہمارے پاس ایسی چیز ہے جو پاکستان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔۔۔ یعنی پاکستان میں موجود لوگوں تک ہماری نظریاتی رسائی۔‘

حیدر کے مطابق وزیر دفاع کے اس بیان میں حقیقت ہے کہ ’افغان طالبان یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم اسلام آباد کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر آمنہ خان، سینٹر فار افغانستان، مشرق وسطیٰ اور افریقہ (CAMEA) کی ڈائریکٹر اور انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد سے منسلک ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں گذشتہ برسوں کے دوران شدت پسندی میں اضافہ ہوا لیکن پاکستان نے اس امید پر صبر کا مظاہرہ کیا افغان طالبان دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

تاہم، اُن کے مطابق، افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ مقامات اور سہولت فراہم کی اور وہ ان پر اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے کارروائیاں سرحد اور سرحدی اضلاع تک محدود تھیں، لیکن اب اسلام آباد پر حملہ واضح اشارہ ہے کہ ’کابل کی حکومت کسی قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

Getty Images

خطے کی سکیورٹی صورتحال پر نظر رکھنے والے افغان تجزیہ کار مشتاق رحیم پاکستانی حکومت کی جانب سے اسلام آباد حملے کو طالبان سے جوڑنے کو ایک ’ڈائیورژن‘ سمجھتے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ پچھلے 15-20 سالوں میں اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود پاکستان کی سکیورٹی فورسز ’اپنی کارکردگی کے لحاظ سے ناکام نظر آ رہی ہیں۔‘

مشتاق رحیم سوال اٹھاتے ہیں کہ افغان طالبان جو خود ’بقا کی جنگ‘ لڑ رہے ہیں، وہ کسی دوسرے ملک کی خاطر سکیورٹی کی گارنٹیاں کیسے دے سکتے ہیں۔؟

اعجاز حیدر کا ماننا ہے کہ اس قسم کی جنگ کو مکمل طور پر روکنا ’تقریباً ناممکن ہے‘ کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہے جہاں دشمن سامنے ہو۔ ’ایسی جنگ میں کوئی واضح محاذ نہیں ہوتا اور دشمن چھپ کر وار کرتا ہے۔‘

ان کے مطابق، اس کا واحد مؤثر ذریعہ انٹیلیجنس ہے۔ ’اگر دشمن نے چھپ کر وار کرنا ہے تو طریقہ یہی کہ آپ اس کی صفوں میں گھسیں، دشمن کی شناخت کریں اور اندرونی معلومات حاصل کریں اور اس پر ضرب لگائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب انٹیلیجنس آپریشن کامیاب ہوتے ہیں تو خبر نہیں بنتی، ’خبر تب بنتی ہے جب کوئی واقعہ ہو جیسے اسلام آباد میں خودکش حملہ۔‘

اس کے برعکس، مشتاق رحیم کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان میں سیاسی انتشار اور سکیورٹی غیر مستحکم ہے‘ اور یہی حالات شدت پسندوں کے لیے بہترین میدان بن جاتے ہیں۔

مشتاق رحیم کہتے ہیں کہ اس وقت پورا خطہ عدم تحفظ کے نرغے میں ہے اور ’امن صرف باہمی تعاون سے آئے گا، الزام تراشی سے نہیں۔‘

ان کے مطابق، ٹی ٹی پی جیسے مسلح گروہ کسی بھی ریاست کو چیلنج کر سکتے ہیں، اور اس کا مقابلہ صرف سکیورٹی پرفارمنس بہتر کر کے اور افہام و تفہیم سے ہی ممکن ہے۔

ڈاکٹر آمنہ خان کا مؤقف اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ’پاکستان کا مسئلہ ہے، لیکن ہمیں اپنے پڑوسیوں اور ان ممالک کی مدد چاہیے جو ٹی ٹی پی کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ طالبان ذمہ دار ہیں کیونکہ انھوں نے ہی ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں سہولت کاری کی اور انھیں منتقل کرنے کی پیشکش کی، جو ثابت کرتا ہے کہ ’نہ صرف ٹی ٹی پی افغانستان میں ہے بلکہ طالبان کا ان پر اثر و رسوخ بھی ہے۔‘

آمنہ خان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ کا حوالہ دیتی ہیں جس کے مطابق 20 سے زائد دہشت گرد گروہ طالبان کی حکمرانی میں افغانستان میں سرگرم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ’پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتے ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلقات‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔

افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟ملا عبدالغنی برادر کی افغان تاجروں کو تنبیہ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کی بندش کس ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو گی؟پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ٹی ٹی پی کے خلاف فتوے پر تنازع: ’فتویٰ رہنما نہیں، دارالافتا جاری کرتا ہے‘طالبان کا پاکستان پر تجارتی انحصار کم کرنے کا اعلان: ’تعلقات خرابی کی اس نہج تک پہنچ گئے جہاں مفاہمت مشکل ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More