ترکی کے پہلے یو اے وی (بغیر پائلٹ لڑاکا ڈرون طیارے) ’بیراکتر کزلیلما‘ نے ایک تجربے میں ایف 16 طیارے کو بصری حدود سے باہر (بی وی آر) فضائی میزائل سے ہدف بنانے کا دعویٰ کیا ہے جسے دفاعی صنعت کی تاریخی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
بیراکتر کزلیلما بنانے والی ترکی کی دفاعی کمپنی بائیکر ڈیفینس چیئرمین اور چیف ٹیکنالوجی آفیسر سلجوق بیرقدار، جو ٹیسٹ فلائٹ کے دوران کزلیلما کے ساتھ ایف 16 کی فارمیشن میں پرواز کر رہے تھے، نے کہا کہ ’ہم نے ہوابازی کی تاریخ میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی ہے۔۔۔ اور ترکی یہ سنگِ میل عبور کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔‘
(بی وی آر یا ’بصری حدود سے باہر‘ فضائی جنگ میں اس وقت استعمال ہوتی ہے جب ایک طیارہ یا میزائل اپنے ہدف کو اس فاصلے سے نشانہ بناتا ہے جہاں وہ ہدف براہِ راست آنکھ سے نظر نہیں آ رہا ہوتا، یعنی ہدف نظر کی حد سے باہر ہو تو اسے بی وی آر کہا جاتا ہے۔۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر ریڈار، سینسرز یا ڈیٹا لنک کے ذریعے ہدف کو ٹریک کرکے نشانہ بنایا جاتا ہے۔)
ترک زبان میں کزلیلما کا مطلب ہے ’سرخ سیب‘ اور یہ اکثر فتح اور کامیابی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ بغیر پائلٹ لڑاکا طیارہ 2026 میں ترک فوج میں شامل کیا جائے گا۔
کزلیلما کو ریڈار پر کم دکھائی دینے والے ڈرون طیارے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس میں جدید سینسرز نصب ہیں جو اسے دشمن کے طیاروں کو دور سےدیکھنے اور ٹریک کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
بائیکر ڈیفینس کے مطابق سینوپ کے ساحل کے قریب ہونے والے حالیہ ٹیسٹ میں ترک فضائیہ کے دو ایف-16 لڑاکا طیاروں نے حصہ لیا جس دوران کزلیلما نے جدید الیکٹرانک سکیننگ ریڈار ’مراد‘ کی مدد سے 50 کلومیٹر (30 میل) کے فاصلے پر ایک ایف-16 (ہدف) کو لاک کیا، ہوا سے ہوا میں مار کرنے والا میزائل ’گوکدوعان‘ ورچوئل انداز میں داغا اور کامیابی سے براہِ راست ہدف کو نشانہ بنایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اصل میدانِ جنگ ہوتا تو ایک بغیر پائلٹ لڑاکا طیارے کی فائرنگ سے دشمن کا ایف-16 تباہ ہو جاتا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ترکی کے بغیر پائلٹ لڑاکا طیارے جو بحری جہازوں سے ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں، مستقبل میں سپرسونک رفتار حاصل کر سکتے ہیں اور مشرقی بحیرۂ روم اور ایجیئن خطے کی فضائی نگرانی کر سکیں گے۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ کزلیلما 15 ہزار فٹ کی بلندی پر ایک گھنٹہ 45 منٹ تک محوِ پرواز رہا اور اب تک اس کی ٹیسٹ فلائٹس کا دورانیہ مجموعی طور پر 55 گھنٹے سے زیادہ ہو چکا ہے۔
صدارتی مواصلات کے ڈائریکٹر برہان الدین دوران نے کہا کہ ’یہ پیش رفت جس کے اثرات آئندہ برسوں میں مزید واضح ہوں گے، فضائی جنگوں کے لیے گیم چینجر ہو گی۔‘
ترکی ساختہ فوجی ساز و سامان نے حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر خاص توجہ حاصل کی ہے۔
Getty Imagesسلجوق بیرقدار نے 2016 میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی بیٹی سمیّہ اردوغان سے شادی کی۔ انھیں اس تیزی سے ترقی کرتی ہوئی 'مقامی اور قومی' دفاعی صنعت کا معمار قرار دیا جاتا ہےبنا پائلٹ طیارہ اور 30 میل دور سے ایف 16 پر حملہ
سلجوق بیرقدارکی جانب سے ایکس پر پوسٹ کردہ ویڈیو میں کزیلیما کے ساتھترک فضائیہ کے پانچ ایف-16 لڑاکا طیارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
بائیکر کے مطابق ایک ایف۔16 نے کزلیلما کے ساتھ قریبی فارمیشن میں پرواز کی جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ پلیٹ فارم پائلٹ والے لڑاکا طیاروں کے ساتھ مل کر مؤثر طریقے سے مشنز انجام دے سکتا ہے جبکہ دوسرا ایف۔16 اس پورے ٹیسٹ میں ’ہدف طیارے‘ کے طور پر استعمال ہوا۔
ٹیسٹ کے دوران بیراکتر کزلیلما نے اسیلسان کے تیار کردہ مراد اے ای ایس اے ریڈار کی مدد سے 30 میل کے فاصلے پر موجود ہدف ایف۔16 کو نہ صرف ڈیٹیکٹ اور ٹریک کیا بلکہ اسے کامیابی سے لاک آن بھی کیا۔
اس کے بعد اس نے اپنے پر کے نیچے نصب توبیتاک ساجے کے تیار کردہ ’گوکدوعان‘ بی وی آر میزائل کے ذریعے ورچوئل الیکٹرانک فائرنگ کی۔
سمیلیشن میں کزلیلما نے انتہائی تیز اور پھرتیلے ایف۔16 کو ورچوئل ہٹ کے ساتھ کامیابی سے ’نیوٹرلآئز‘کیا۔
بیراکتر آقنجی: ترکی کے ڈرون نے ’ہیٹ سگنل‘ کی مدد سے ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ کیسے تلاش کیا؟ترکی کے ڈرون عالمی فوجی منڈیوں میں اتنے مقبول کیوں ہو رہے ہیں؟یورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہےانڈین فوج کی نئی ’ڈرون بٹالین‘ کیا اسے پاکستانی فوج پر برتری دلائے گی؟
ٹیسٹ کے سب سے اہم حصوں میں سے ایک میں یہ دیکھا گیا کہ طیارے، ریڈار اور میزائل کے درمیان رابطے کا نظام کتنا مؤثر ہے۔
ہدف ایف۔16 کے لاک ہونے کے بعد کزلیلما نے مراد اے ای ایس اے ریڈار سے ملنے والی معلومات (جیسے ہدف کی جگہ، رفتار اور سمت) براہِ راست اور بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے پر کے نیچے لگے گوکدوعان میزائل تک پہنچائیں۔
کزلیلما اور میزائل کے درمیان اس کامیاب ڈیٹا لنک کی تصدیق کو ایک بڑا سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بغیر پائلٹ لڑاکا طیارہ دور سے نظر نہ آنے والے (بی وی آر) اہداف کو بھی مؤثر انداز میں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک ہی پرواز میں تین ٹیسٹایف۔16 کے ساتھ فارمیشن فلائٹ نے یہ ثابت کیا کہ کزلیلما پائلٹ والے ایف-16 کے شانہ بشانہ اڑ سکتا ہے اور مستقبل میں دونوں مشترکہ آپریشن کر سکتے ہیں جو مستقبل کی فضائی جنگوں کے لیے گیم چینجنگ ہے۔اسی پرواز میں کزلیلما کے نیچے نصب بی وی آر میزائل گوکدوعان کے ساتھ اس کی ایروڈائنامک اور ایویونکس مطابقت بھی چیک کی گئی اور یہ دیکھا گیا کہ کزیلیما کے پر کے نیچے میزائل لٹکا ہونے کے باوجود طیارے کی پرواز یا اس کے الیکٹرانک نظام پر کوئی فرق نہیں پڑا۔تیسرا اور سب سے اہم کہ مراد ریڈار نے دشمن کی درست جگہ اور رفتار کی ساری معلومات فوراً میزائل تک پہنچائیں جو دور سے مار کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔کزلیلما کی سمندر میں دفاعی طاقت
ترک سیکورٹی ماہر ایری گُچلر نے آذربائیجان کے ایک چینل کو بتایا کہ ترکی کے گوکدوعان میزائل کی رینج 200 کلومیٹر ہے جو امریکی ایم آر اے اے ایم (جدید درمیانی فاصلے کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل) کے برابر ہے، یعنیکزلیلما ایف -35 طیاروں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
ترک تجزیہ کار کوزان سلجوق ارکان کا ماننا ہے کہ کزلیلما لڑاکا طیاروں کے خلاف فضا سے فضا میں مشن کو ترجیح دے رہا ہے۔
ایک دفاعی یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ریڈار اور میزائل مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے اور اگرچہ انجن مقامی نہیں، ٹی ایف-6000 (انجن) مکمل ہے اور ہم اسے 2026 میں نصب دیکھیں گے۔ ’ہمارے پاس ایسا طیارہ ہو گا جو تقریبا مکمل طور پر پابندیوں سے آزاد ہوگا۔‘
ترک فضائیہ کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل حسین فضل کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ’ہم اس کے دو انجن والے ورژن کو دیکھیں گے جو سپرسونک رفتار سے پرواز کرنے کے قابل ہوگا اور جہاز سے ٹیک آف اور لینڈنگ کر سکے گا۔‘
انھوں نے سی این این ترکی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ ایجیئن اور مشرقی بحیرۂ روم کی نگرانی کے لیے بڑی تعداد میں بغیر پائلٹ لڑاکا پلیٹ فارمز تعینات کرنا شروع کرتے ہیں تو سمندر میں بحری پلیٹ فارم کے ساتھ آپ کی دفاعی صلاحیت نمایاں طور پر بڑھ جائے گی۔‘
’وفادار وِنگ مین‘ کا تصور
ایلیکس پلیٹساس، اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو اور سابق پینٹاگون عہدیدار ہیں جو دفاع، ایرو سپیس اور ہائی ٹیک شعبوں میں کاؤنٹر ٹیررازم اور ڈیجیٹل تبدیلیوں کے ماہر ہیں۔
بیراکتر کزلیلما کی صلاحیتوں کے متعلق بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ایلکس کہتے کہ ترک ڈرون اور بغیر پائلٹ والے لڑاکا طیاروں کے ایف 16 کو بی وی آر میں نشانہ بنانے کے دعوے بالکل ممکن ہیں، البتہ یہ ابھی نتائج کا خلاصہ ہے، اصل ڈیٹا نہیں۔
ریٹائرڈ ائیر مارشل عامر مسعود نے پاکستانی فضائیہ میں 41 سال بطورِ لڑاکا پائلٹ خدمات انجام دی ہیں۔
عامر مسعود کا ماننا ہے کہ ترکی نے بہت منفرد نوعیت کا تجربہ سیمولیشن میں کرتے ہوئے لائیو ٹیسٹنگ کی ہے اور یہ ایسی صلاحیت ہے جو انھوں نے کسی بھی مغربی ملک یا چین سے پہلے دکھائی ہے۔
عامر کے مطابق کزلیلما کو ترکوں نے ایک خودمختار لڑاکا پلیٹ فارم کے طور پر ڈیزائن کیا ہے۔ ’اس کا سائز ایف-16 سے بڑا ہے، اس میں جیٹ انجن نصب ہے اور اس میں نصب میزائل ترکی کے گوکدوغان پروگرام کے ہیں جو نظر کی حد سے باہر مار کرنے والے (بی آر وی) ایئر ٹو ایئر میزائل ہیں۔ اس کے ساتھ اس میں مراد (اے ای ایس اے) ریڈار استعمال ہوا ہے۔ انجن بھی ترکی کا بنایا ہوا تھا یعنی تقریباً پورا نظام مقامی تھا۔‘
عامر کا ماننا ہے کہ یہ بہت بڑی پیشرفت ہے۔
ان کے مطابق ’یہ ٹیسٹ فلائٹ سب سونک تھی تاہم مستقبل میں وہ اسے سپرسونک بنانا چاہتے ہیں۔ انجن اور مجموعی ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ رفتار اور کارکردگی دونوں میں اضافہ ہو گا۔‘
ایکس پر سلجوق بیرقدارکیپوسٹ کردہ ویڈیو (جس میں کزیلیما کے ساتھترک فضائیہ کے پانچ ایف-16 لڑاکا طیارے فارمیشن بھی دیکھے جا سکتے ہیں) کا حوالہ دیتے ہوئے عامر مسعود کہتے ہیں کہ یہ دراصل ’وفادار وِنگ مین‘ کے تصور پر مبنی ہے۔ ’اس میں ڈرونز کو ایک پائلٹ والے طیارے کی مدد سے استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے ڈرونز کو ’کولیبوریٹو کومبیٹ ایئرکرافٹ‘ کہا جاتا ہے۔‘
ان ڈرونز میں میزائل نصب ہوں گے جنھیں ڈیٹا لنک کے ذریعے کنٹرول اور گائیڈ کیا جائے گا اور ہدف کی طرف رہنمائی دی جائے گی۔
’اب پائلٹ زمین پر بیٹھا لڑائی کنٹرول کرے گا‘
بطور پائلٹ ایک بنا پائلٹ والے ڈرون طیارے اور پائلٹ والے طیارے میں فرق کے حوالے سے عامر کہتے ہیں کہ اس سے یقینی طور پر جنگی حکمتِ عملی بدل جائے گی اور ’اب پائلٹ زمین پر بیٹھا لڑائی کنٹرول کرے گا۔ اب پائلٹ کا کردار کاک پٹ سے گراؤنڈ کنٹرول سٹیشن تک منتقل ہو رہا ہے۔ پائلٹ پوری صورتحال کا ڈیٹا نیچے بیٹھ کر دیکھتا ہے، میزائل فائر کرتا ہے اور سب کچھ محفوظ ماحول میں انجام دیتا ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسے دنیا کے جدید فضائی دفاعی نظام کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے؟ عامر کا کہنا تھا کہ یقیناً ’یہ ایسی جنگی فضا میں استعمال ہو سکتا ہے جہاں آپ پائلٹ کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ وقت کے ساتھ اس میں الیکٹرانک جنگ اور سائبر ٹیکنالوجی کے آلات بھی شامل کیے جائیں گے اور جب اسے سیٹلائٹ اور دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا تو یہ دشمن کے دفاع کے خلاف بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔ شاید کچھ موجودہ پائلٹ والے طیاروں سے بھی زیادہ۔‘
ان کے مطابق ’اس طرح نہ صرف خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ لاگت بھی کم ہوتی ہے کیونکہ بنا پائلٹ والے طیارے، رافیل جیسے مہنگے لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں کہیں سستے پڑتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ روس-یوکرین جنگ میں روزانہ کی بنیاد پر ڈرونز استعمال ہو رہے ہیں اور میدانِ جنگ میں 80 فیصد جانی نقصان ڈرونز کے حملوں سے ہو رہا ہے۔ یہ جنگ کا نیا چہرہ ہے۔
وہ پاکستان انڈیا کے مابین حالیہ کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں زیادہ تر مقابلے فضا میں ہوئے ہیں اور مستقبل میں زمینی، فضائی اور بحریتینوں سطحوں پر ڈرونز کا کردار بڑھے گا۔
عامر کے مطابق ’تقریباً سات آٹھ سال پہلے جب کزلیلما پر آر این ڈی (تحقیق) شروع ہوئی تو پاکستان نے بھی اس میں حصہ لیا تھا کیونکہ ہمیں غیر پائلٹ والے لڑاکا ڈورن طیارے میں دلچسپی تھی۔‘ تاہم بعد میں کیا ہوا، اس بارے میں وہ حتمی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
خیال رہے پاکستان اور ترکی کے مابین اس صنت میں مشترکہ تعاون جاری ہے اور پاکستان نے ترک ڈرونز خریدے ہیں اور اس کے علاوہ دونوں ممالک میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی موجود ہے۔
BBC2023 میں بائیکر نے 1.8 ارب ڈالر کی برآمدات کیں اور ترکی کی سرفہرست دس برآمد کنندہ کمپنیوں میں شامل رہی۔ 2024 میں بھی کمپنی نے دوبارہ 1.8 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سیلز کیں۔
ریٹائرڈ ائیر مارشل عامر مسعود کے مطابق گزشتہ 10 برس میں ترکی نے ڈرون ٹیکنالوجی میں حیران کن پیشرفت کی ہے۔ ’ماضی میں ان کی ایوی ایشن انڈسٹری پاکستان سے بھی پیچھے تھی لیکن اب انھوں نے ڈرونز پر زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔ آج وہ اربوں ڈالر تک کی آمدن پیدا کر رہے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک جس میں مشرقِ وسطیٰ، آذربائیجان، پاکستان اور افریقی ریاستیں شامل ہیں، کو یہ ٹیکنالوجی بیچ رہے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق روس بھی ترکی سے ڈرون لے رہا ہے۔‘
عامر کے مطابق دوسرے ممالک خصوصاً چین اور امریکہ کے مقابلے میں ’اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کئی اہم ٹیکنالوجیز میں اجارہ داری رکھتے ہیں۔ چین نے بہت کچھ کاپی یا ریوریس انجینئر کیا ہے، اس لیے ان کے نظام عالمی معیار پر نہیں مگر ترکی چونکہ نیٹو کا حصہ ہے، اسے نیٹو معیار کے مطابق ٹیکنالوجی بنانی ہوتی ہے اس لیے ان کی ٹیکنالوجی بہت اہم ہے۔‘
خیال رہے ایسلسان جدید اے ای ایس اے ریڈار بنا رہا ہے، ہوولسان میزائل ٹیکنالوجی میں آگے ہے اور اب ترکی نے انجن سازی بھی شروع کر دی ہے۔
عامر کا ماننا ہے کہ کزلیلما ترکی کی دفاعی صنعت کو مزید مضبوط کرے گا اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک اس میں دلچسپی رکھتے ہیں جن میں سے چند اس پروگرام میں سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔
بائیکر اور سلجوق بیرقدار کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
بائیکر ایک پرائیویٹ ترک کمپنی ہے جو ڈرونز بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس کے ڈرونز جیسے بائیکر ٹی بی ٹو نے لیبیا (2019–2020)، ایتھوپیا (2020–2022)، شام (2016) اور آرمینیا اور آذربائیجان کی 2020 کی جنگ سے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی بغیر پائلٹ طیارہ بنانے والی کمپنی کے طور پر بائیکر نے پاکستان سمیت 37 ممالک کے ساتھ برآمداتی معاہدے کر رکھے ہیں۔
ایس ایس بی کے مطابق بائیکر کے تیار کردہ ڈرونز 2014 میں پہلی بار ترک فضائیہ میں شامل کیے گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف کارروائیوں اور لیبیا میں ترکی کی فوجی مہمات میں بھی استعمال کیا گیا۔
اس کمپنی کی سربراہی سلجوق بیرقدار کر رہے ہیں جو 1979 میں استنبول کے ضلعی علاقے ساریئر میں پیدا ہوئے۔ وہ اوزدیمیر بیرقدار کے بیٹے ہیں جنھوں نے بائیکر مکینا کمپنی قائم کی جو ابتدا میں گاڑیوں کے پرزے تیار کرتی تھی۔
انھوں نے امریکہ کی ایم آئی ٹی سے بغیر پائلٹ ہیلی کاپٹر سسٹمز پر کام کرتے ہوئے اپنا ماسٹرز مکمل کیا۔ 2007 میں وہ بائیکر میں کام کے لیے ترکی واپس آئے۔
سلجوق بیرقدار نے 2016 میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی بیٹی سمیّہ اردوغان سے شادی کی۔ انھیں اس تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ’مقامی اور قومی‘ دفاعی صنعت کا معمار قرار دیا جاتا ہے، جسے صدر اردوغان انقرہ کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
2005 میں سلجوق کی ایک ویڈیو جس میں وہ ترک حکام سے ڈرون ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کر رہے تھے، حالیہ ادلب آپریشن کے دوران میڈیا میں خوب وائرل ہوئی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ کی بعض ہتھیاروں کی فروخت پر پابندیوں کے باعث انقرہ نے مسلح ڈرونز میں سرمایہ کاری شروع کی۔
2023 میں بائیکر نے 1.8 ارب ڈالر کی برآمدات کیں اور ترکی کی سرفہرست دس برآمد کنندہ کمپنیوں میں شامل رہی۔ 2024 میں بھی کمپنی نے دوبارہ 1.8 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سیلز کیں۔
بیراکتر آقنجی: ترکی کے ڈرون نے ’ہیٹ سگنل‘ کی مدد سے ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ کیسے تلاش کیا؟ترکی کے ڈرون عالمی فوجی منڈیوں میں اتنے مقبول کیوں ہو رہے ہیں؟یورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہےشدت پسندوں کا نیا ہتھیار: سستے چینی کواڈ کاپٹر اور کمرشل ڈرون خیبرپختونخوا میں خوف کی علامت کیسے بنے؟سرحد پار جمی نظریں اور ’کوریئر‘ کا انتظار: انڈیا کا نیا اینٹی ڈرون نظام جو ’چٹا‘ کی سمگلنگ روکنے کے لیے بنایا گیا ہےانڈین فوج کی نئی ’ڈرون بٹالین‘ کیا اسے پاکستانی فوج پر برتری دلائے گی؟