پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر احتجاج: عظمیٰ خان کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت مل گئی

بی بی سی اردو  |  Dec 02, 2025

BBCعمران خان کی بہنوں کا کہنا ہے پہلے ہر منگل کو عدالتی حکم کے مطابق ان کی ان کے بھائی سے ملاقات کروائی جاتی تھی لیکن ابھی ان کی آخری ملاقات عمران خان سے چار نومبر کو ہوئی تھی

اسلام آباد ہائی کورٹ اور اڈیالہ جیل کے باہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کو اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

بی بی سی اردو کو پی ٹی آئی کے ترجمان اور اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ عظمیٰ خان کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

منگل کو جب عمران خان کی تینوں بہنیں علیمہ خانم، نورین نیازی اور عظمی خان اڈیالہ جیل کے باہر ملاقات کے لیے پہنچیں تو وہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں نے انھیں راستے میں ہی روک دیا تاہم کچھ دیر بعد جیل حکام کی طرف سے ایک اہلکار کو عمران خان کی بہنوں کے پاس بھیجا گیا اور پیغام دیا گیا کہ ملاقات کے لیے عظمیٰ خان کے نام پر اتفاق ہوا ہے۔

جیل اہلکار کے مطابق عظمیٰ خان کچھ دیر میں اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے جیل کے اندر چلی جائیں گی۔

خیال رہے اس سے قبل ان کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ تقریباً ایک مہینے سے ان کی ملاقات سابق وزیرِ اعظم سے نہیں کروائی گئی کیونکہ ان کے مطابق ’حکومتی حکام نہیں چاہتے کہ عمران خان کے پیغامات جیل سے باہر آئیں۔‘

بی بی سی سے خصوصی گفتگو کے دوران عمران خان کی بہن نورین خان نے الزام عائد کیا تھا کہ ’ان (حکومتی حکام) کو اسی بات کی پریشانی ہے کہ باہر آ کر عمران خان کی بات بتائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے بالکل ملاقاتیں ختم کر دی ہیں۔‘

عمران خان کی بہنوں کا کہنا تھا کہ پہلے ہر منگل کو عدالتی حکم کے مطابق ان کی ان کے بھائی سے ملاقات کروائی جاتی تھی لیکن ابھی ان کی آخری ملاقات عمران خان سے چار نومبر کو ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام پارلیمنٹیرین نے منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ اور اڈیالہ جیل کے باہر پرامن احتجاج کی کال دے رکھی ہے تاہم اسلام آباد اور راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

عمران خان کی دوسری بہن علیمہ خان بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ چار نومبر کو جیل حکام نے نورین خان کی ملاقات عمران خان سے کروائی تھی اور ’اس کے بعد کسی سے ملنے نہیں دیا۔‘

عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دعویٰ کیا کہ سابق وزیر اعظم کے بیٹوں سمیت ’کسی سے بھی فون پر بات تک نہیں کروائی جا رہی۔‘ ان کے مطابق عمران خان کے بیٹے ’خط تک نہیں بھیج سکتے۔‘

سابق وزیرِ اعظم کی بہن نورین خان نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ’پاکستانی حکومت اور اسٹیبلمشمنٹ عمران خان سے 9 مئی کی ذمہ داری قبول کروانا چاہتی ہے۔‘

’یہ چاہتے ہیں عمران خان ان سے معافی مانگیں کہ 9 مئی میں نے کروایا، توڑ پھوڑ میں نے کروائی، اپنے لوگوں کو میں نے خود گولیاں ماریں، شاید وہ یہی چاہتے ہیں۔‘

نورین خان کے مطابق ’عمران خان نے ان کو ایک ہی جواب دیا تھا کہ آپ سی سی ٹی وی فوٹیج نکالیں، کینٹ کے اندر ناکے لگے ہوئے ہیں، کوئی یہاں پر نہیں گھس سکتا بغیر فوج کی نظر پڑے یا پھر کیمروں میں آئے بغیر۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ سال 9 مئی واقعے سے قبل فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری سے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی سے ممکنہ مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’اپنی ہی فوج پر حملہ آور انتشاری ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔۔۔ ایسے انتشاری ٹولے کے لیے صرف ایک راستہ ہے کہ وہ قوم کے سامنے معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست چھوڑ کر تعمیری سیاست میں حصہ لے گا۔‘

BBCعمران خان کی بہن علیمہ خان بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ چار نومبر کو جیل حکام نے نورین خان کی ملاقات عمران خان سے کروائی تھی اور ’اس کے بعد کسی سے ملنے نہیں دیا۔‘حکومت کیا کہتی ہے؟

عمران خان کی خاندان سے ملاقات نہ ہونا صرف الزام نہیں ہے بلکہ حکومتی شخصیات بھی اس غیراعلانیہ پابندی کی تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

سماٹی وی کے ایک پروگرام میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو ایک سزا یافتہ قیدی کو اجازت دے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر حکومت یا ریاست کے خلاف تحریک چلائے۔‘

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی خاندان سے ملاقات نہ کروانے پر نہ صرف پی ٹی آئی احتجاج کر رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پیر کو پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’عمران خان کو قریبی رشتہ داروں، ساتھیوں یا قانونی ٹیم سے ملاقات نہ کرنے دینے کے حوالے سے اطلاعات پر وضاحت سامنے آنی چاہیے کیونکہ خاندان اور قانونی مدد تک رسائی تنہائی میں رکھنے اور حراستی طاقت کے خلاف بنیادیتحفظ ہے۔‘

گذشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر عمران خان کی خراب صحت اور جیل میں موت تک کی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں، جن کی تردید حکومتی حکام کی جانب سے کی جا چکی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی رات بھر پڑاؤ کے بعد اڈیالہ جیل سے روانہ: ’اب احتجاج پورے ملک میں ہو گا‘نورین خان کے انڈین میڈیا کو انٹرویوز اور ’آپریشن سندور ٹو‘ کی بازگشت: وائرل کلپ کی حقیقت کیا ہے؟پنجاب پولیس پر عمران خان کی بہنوں اور کارکنان پر تشدد کا الزام: اڈیالہ جیل کے باہر کیا ہوا؟پی ٹی آئی کو ’مشکل وقت میں‘ چھوڑنے والے رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم: ’سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا‘عمران خان کی صحت کیسی ہے؟

عمران خان کے حوالے سے پھیلنے والی افواہوں پر ان کی بہن نورین خان کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں پتا کہ یہ خبر کیسے پھیلی۔‘

ان کا الزام ہے کہ ’عمران خان کو جیل میں تکلیف دی جا رہی ہے، انھیں تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور یہ سب جیل قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘

عمران خان کی دوسری بہن بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ افواہیں کہاں سے پھیلنا شروع ہوئیں۔

علیمہ خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’افواہیں کہاں سے آئیں، جیل کے اندر سے کیسے آ گئیں؟ جو افواہیں پھیلاتے ہیں وہ جیل والے یا اسٹیبلشمنٹ والے ہی ہوں گے۔‘

انھوں نے دعویٰ کہ کیا ’کسی نے ہمیں کہا کہ یہ ٹیسٹ رن کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کا ردِ عمل دیکھ سکیں۔ ہمیں کوئی معلومات نہیں۔‘

تاہم چار نومبر کو عمران خان سے ملاقات کرنے والی ان کی بہن نورین خان کہتی ہیں کہ ان کے بھائی کی ’صحت بالکل ٹھیک تھی، خوراک بھی اپنے حساب سے کھاتے ہیں، ورزش بھی کرتے ہیں اور خود کو مضبوط بھی دکھاتے ہیں۔‘

’کھانا وہاں (جیل میں) وہی پکتا ہے جو عمران خان کہتے ہیں اور ان کے پیسوں سے پکتا ہے۔‘

BBCسابق وزیرِ اعظم کی بہن نورین خان نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ’پاکستانی حکومت اور اسٹیبلمشمنٹ عمران خان سے 9 مئی کی ذمہ داری قبول کروانا چاہتی ہے۔‘عمران خان کی جیل میں خاندان سے ملاقات کیوں نہیں کروائی جا رہی؟

خاندان سے ملاقات نہ کروانے کی اطلاعات پر جیل حکام کی جانب سے تو کوئی واضح بیان نہیں جاری کیا گیا لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا الزام ہے کہ عمران خان جیل میں بیٹھ کر ’انارکی اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے سما ٹی وی کے پروگرام میں اس بات اعتراف کیا کہ ’قانون اجازت دیتا ہے کہ قیدی کی ملاقات خاندان سے بھی ہونی چاہیے، وکلا سے بھی ہونی چاہیے۔ لیکن کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو ایک سزا یافتہ قیدی کو اجازت دے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر حکومت یا ریاست کے خلاف تحریک چلائے۔‘

’کسی قانون میں نہیں لکھا کہ کسی قیدی کو حکومت کے خلاف انارکی، فتنہ، افراتفری، تحریک یا جلاؤ گھیراؤ کی اجازت دی جائے اور وہ ملاقاتیوں کے ذریعے سے ان ساری چیزوں کو مینج کرے۔‘

تاہم رانا ثنا اللہ کو بھی نہیں معلوم کہ عمران خان کی ملاقات پر پابندیاں کس کے حکم پر لگائی گئی ہیں۔ ’پابندی تو جیل حکام نے ہی لگائی ہو گی۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پابندی پنجاب حکومت نے لگائی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’میرے علم میں نہیں۔‘

Getty Imagesپی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام پارلیمنٹیرین نے منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ اور اڈیالہ جیل کے باہر پرامن احتجاج کی کال دے رکھی ہے

لیکن عمران خان کی بہن نورین خان کہتی ہیں کہ ان کے اور عمران کے درمیان ’عام باتیں‘ ہی ہوتی ہیں کہ ’کیا ہو رہا ہے، کیا ہوگا اور آخر میں وہ بتاتے ہیں کہ باہر جا کر کیا بتانا ہے۔‘

’ان کو اسی بات کی پریشانی ہے کہ باہر آ کر عمران خان کی بات بتائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے بالکل ملاقاتیں ختم کر دیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کا ’ٹی وی بند ہے، اخبار بند ہے۔ جیل کے قواعد کے مطابق آپ کسی بھی قیدی کو چار دن سے زیادہ تنہائی میں نہیں رکھ سکتے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم کسی بھی اضافی سہولت کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ ’وہ صرف کتابیں مانگتے ہیں اور اپنے بچوں سے بات کرنے کا کہتے ہیں۔‘

Getty Imagesوزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا الزام ہے کہ عمران خان جیل میں بیٹھ کر ’انارکی اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ملکی قوانین اور جیل مینویل میں کیا درج ہے؟

قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور جیل کے قوانین حکام کو قیدیوں کی ان کے اہلخانہ اور قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے کا پابند کرتے ہیں۔

سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اینڈ پرزنرز ایڈ (شارپ) کے چیف ایگزیکٹو محمد مدثر جاوید نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جیل مینویل کے مطابق چاہے سیاسی قیدی ہو یا عام قیدی ہو، ان کی ملاقاتیں ہر ہفتے ہونی چاہییں اور یہ قواعد موجود ہیں۔‘

’خاندان کا حق ہے کہ وہ قیدی سے ملیں اور قیدی اپنے وکلا یا قانونی مشیر سے مل سکیں۔‘

Getty Imagesچار نومبر کو عمران خان سے ملاقات کرنے والی ان کی بہن نورین خان کہتی ہیں کہ ان کے بھائی کی ’صحت بالکل ٹھیک تھی، خوراک بھی اپنے حساب سے کھاتے ہیں، ورزش بھی کرتے ہیں اور خود کو مضبوط بھی دکھاتے ہیں‘

محمد مدثر جاوید کہتے ہیں کہ ’کسی کے پاس اختیار نہیں کہ وہ قیدیوں کی ملاقاتیں بند کروا سکیں‘ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’سکیورٹی یا سیفٹی کے سبب ضرور آئی جی جیل خانہ جات ایسا ایکشن لے سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ متبادل دنوں میں قیدیوں کی ملاقاتیں کروائیں اور انھیں سہولیات فراہم کریں۔‘

عمران خان کی بہنوں کا کہنا ہے کہ خاندان سے ملاقاتیں نہ کروا کر ان کے بھائی کو ’تکلیف دی جا رہی ہے۔‘

نورین خان نے خبردار کیا کہ ’اگر انھوں نے کبھی عمران خان کے ساتھ کچھ کیا تو یہ یاد رکھیں کہ یہ نہ پاکستان میں رہنے کے قابل ہوں گے اور نہ دنیا کے کسی اور کونے میں۔‘

نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانیکارکنوں کے بھیس میں پولیس اہلکاروں کی ’خفیہ‘ میٹنگز میں شرکت: وہ سرکاری گواہ جن کے بیانات نو مئی مقدمات میں سزاؤں کی وجہ بنےہائبرڈ نظام میں محبت کا انجامعمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟عمران خان کی بہن پر انڈہ پھینکنے کا واقعہ: ’سیاست میں اس طرح کے واقعات کی گنجائش نہیں ہے‘
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More