’ہیوی مشینری ہمارے پاس نہیں، ضلعی انتظامیہ فراہم کرتی ہے‘: کراچی میں بچے کی گٹر میں گر کر ہلاکت اور ریسکیو آپریشن میں تاخیر

بی بی سی اردو  |  Dec 02, 2025

Bloomberg via Getty Images

کراچی میں ایک تین سالہ بچے کی گٹر میں گرنے کے بعد ہلاکت نے ایک جانب جہاں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں مقامی حکومتوں پر سوالات اٹھائے ہیں وہیں ایک بڑا سوال یہ بھی ہو رہا ہے کہ اس بچے کی تلاش میں اتنی دیر کیوں لگی؟

یاد رہے کہ اتوار کے روز کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ایک نجی ڈیپارٹمنٹل سٹور کے سامنے مین ہول میں گرنے والے بچے کی لاش تقریباً 15 گھنٹے بعد کئی سو میٹر دور ایک کھلے گٹر سے ملی۔

بی بی سی نے اس حوالے سے سندھ حکومت کے زیر انتظام ریسکیو انتظامیہ سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس بچے کو جلد کیوں نہیں تلاش کیا جا سکا، اس کام میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی اور ایسے واقعات میں کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔

’بلائنڈ آپریشن‘

سندھ حکومت کے زیرانتظام 1122 کے ترجمان حسان الحسیب کا کہنا ہے کہ ’بغیر نقشوں اور کوآرڈینیشن کے وہ بلائنڈ آپریشن کرتے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’گہرے پانی میں ریسیکو کی ایس او پی کے تحت رات کی تاریکی میں آپریشن نہیں ہوتا اور اگر سنہری لمحات کھو دیں تو بچنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، یہاں بھی یہ ہی صورتحال تھی۔‘

انھوں نے ایک اور انکشاف یہ بھی کیا کہ ’کراچی میں ایسے واقعات میں سب سے بڑی مشکل مین ہولز اور ڈرینج کے بلیو پرنٹس یعنی نقشوں کی عدم دستیابی ہوتی ہے جو ان کے مطابق متعلقہ محکمے فراہم نہیں کرتے ہیں۔‘

’اس وجہ سے معلوم نہیں ہوتا کہ گٹر کا بہاؤ کس طرف ہے، جہاں لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں وہاں تلاش کی جا رہی ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مختلف سیاسی ادوار میں مین لائنوں سے دیگر لائنیں منسلک کر دی گئیں ہیں۔ ’جب ٹاؤن انتظامیہ تبدیل ہوتی ہے تو انھیں بھی معلوم نہیں ہوتا جس سے پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے، اس صورتحال میں یہ سارا بلائنڈ سرچ آپریش ہوتا ہے۔‘

حسان الحسیب کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں سارا آپریشن کوآرڈینیشن سے ہوتا ہے جس میں تمام متعلقہ محکمے موجود ہوتے ہیں لیکن کراچی میں ایسا نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہیوی مشینری ہمارے پاس نہیں ہوتی جو ضلعی انتظامیہ یا میونسپل کارپوریشن یا ٹاؤن انتطامیہ فراہم کرتی ہے۔ گزشتہ روز بی آر ٹی پراجیکٹ کی مشینری کرائے پر حاصل کی گئی۔ اس کے بعد ایک این جی او نے اس کو ہائر کیا۔‘

حسان الحسیب کے مطابق مشتعل ہجوم بھی ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ ’گزشتہ روز بھی پولیس، رینجرز اور میڈیا پر پتھرا کیا گیا اس صورتحال میں سٹاف خوفزدہ ہوتے ہیں۔‘

بچے کی لاش کس نے نکالی؟

تین سالہ بچے کی لاش وقوعہ کی جگہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر سر سید یونیورسٹی کے قریب موجود ایک اور کھلے گٹر سے ملی۔

ہنگامی امداد کے سرکاری ادارے ریسکیو 1122 کی جانب سے چیف آپریٹنگ افسر کا ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ واٹر ریسکیو ٹیم نے مسلسل سرچآپریشن کے بعد لاش نکالی ہے۔

تاہم سوشل میڈیا پر موجود کئی ویڈیوز میں اس دعویٰ کو مسترد کیا جا رہا ہے۔

گلشن اقبال ٹاؤن کے کونسلر کبیر احمد، جن کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے، نے اپنی ویڈیو میں دکھایا کہ کراچی پولیس کے ایک ڈی ایس پی نیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک نو عمر نوجوان کو شاباش دے رہے ہیں۔ ویڈیو میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس نوجوان نے گٹر سے بچے کی لاش نکالی ہے۔

اس نوجوان تنویر کا کہنا تھا کہ اس نے گٹر سے بچے کو نکالا تو اس کی سانسیں نہیں چل رہی تھیں۔ نوجوان کا کہنا ہے کہ اس نے بچے کو وہاں موجود ایک شخص کے حوالے کیا۔

تاہم جب رسیکیو انتظامیہ کے حسان الحسیب سے یہ سوال کیا گیا تو انھوں نے اس دعوے کو مسترد کیا۔

ان کے مطابق ’پانی کا بہاؤ معلوم کرنے کے لیے ایک رنگین بال گٹر میں پھینکی جاتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کے ایم سی، ڈی ایم، ایدھی، چھیپا اور دیگر رضاکاروں کو گٹروں پر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ وہ نگرانی کریں اور اس کا رخ دیکھیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جس جگہ ریسکیو آپریشن کیا جا رہا تھا، اس سے تھوڑی دور موجود رضا کاروں نے گٹر میں بچے کی ٹانگ دیکھی لیکن انھوں نے خود اسے نہیں نکالا اور وہاں موجود کچرا چننے والے بچے سے کہا کہ وہ نکالے۔‘

حسان کہتے ہیں کہ ’ان سے یہ کوتاہی ہوئی۔ اس کے بعد وہاں ایک سوزوکی موجود تھی، اس میں لاش ڈال کر وہاں لائے جہاں آپریشن ہو رہا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے کنٹرول روم میں 10.34 پر اطلاع آئی، ’تین منٹ میں 10.37 پر وہاں ایمبولینس پہنچی اور 10.56 منٹ پر ڈرائیور نیچے اتر چکا تھا۔‘

اس سلسلے میں ایدھی کے ترجمان نے بتایا کہ ان کے غوطہ غور نے لاش ایدھی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچائی۔

یاد رہے کہ کراچی کے جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کا کام جاری ہے جس کی وجہ سے مرکزی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

BBCفائل فوٹوذمہ دار کون ہے؟

تین سالہ بچے کے گٹر میں گرنے کے واقعے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی کی گٹر میں گر کر موت ہوئی ہے۔ ’اس سے قبل بھی اس قسم کے درجنوں واقعات ہو چکے ہیں اور واٹر اور سیوریج بورڈ اس کا ذمہ دار ہے۔‘

فلاحی ادارے ایدھی ویلفیئر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے 11 مہینوں میں اتوار کے روز ہلاک ہونے والے تین سالہ بچے سمیت اب تک 23 افراد گٹروں اور نالوں میں گر کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے آٹھ بچوں کی عمریں 10 سال سے کم تھیں۔

نعیم الرحمٰن نے کہا کہ میئر کراچی نے کہا تھا کہ وہ گٹر کے ڈھکن مہیا کریں گے اور لگائیں گے۔ میئر مرتضی وہاب کے مطابق، جس علاقے میں اتوار کے روز کا واقعہ پیش آیا، اس ٹاؤن کے چیئرمین کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہی ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ اختیارات اور فنڈز کی کمی کے باوجود بھی جب جماعتِ اسلامی اپنے محدود وسائل کے ساتھ ٹاؤنز میں کام کرتی ہے تو ’یہ پوچھتے ہیں کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔‘

مرتضی وہاب کا جماعتِ اسلامی کی جانب تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ڈھکن لگانے کے لیے کوئی اختیار چاہیے؟‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جماعتِ اسلامی نے ایک مہم چلائی تھی کہ انھوں نے نئے جدید ترین ڈھکن بنوا لیے ہیں۔ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب کوئی اچھی چیز آتی ہے تو کہتے ہیں ہم نے کیا ہے، جب کچھ برا ہوتا ہے کہ تو کہتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار وہ ہے۔‘

کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران 88 ہزار گٹر کے ڈھکن فراہم کیے گئے ہیں جن میں سے 55 فیصد مقامی یونین کونسلز کے چیئرمین کو دیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنے مصروف سٹور کے سامنے موجود گٹر پر کئی روز سے ڈھکن نہ ہو۔‘

میئر کراچی کا کہنا تھا کہ انھوں ڈی سی کو حکم دیا ہے کہ وہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر کے یہ معلوم کریں کہ یہ ڈھکن کب سے غائب تھا۔‘

مرتضیٰ وہاب نے دعوی کیا کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے شکایتی سیل کے پاس بھی اس ڈھکن کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں آئی۔

’بے قابو‘ ڈمپر، ’لاپرواہ‘ موٹر سائیکل سوار یا ٹوٹی سڑکیں: کراچی میں ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون ہے؟ کراچی کی غیر معمولی بارش، پانی میں ڈوبی سڑکیں اور پریشان حال شہری: ’نو گھنٹے پھنسے رہے، گھر آئے تو بجلی غائب‘’دو دن میں دو بار چوری‘: سندھی گلوکار بیدل مسرور کے گھر میں گھی کے ڈبوں میں موجود لاکھوں روپے غائبگندگی میں ڈوبتا کراچی کا ساحل: ’گٹر لائن شامل ہونے سے مچھلی مر جاتی ہے‘

یاد رہے کہ کراچی میں مقامی حکومتوں کا انتظام تین سطحوں پر مشتمل ہے جس میں پہلی سطح یونین کونسل، دوسری سطح ٹاؤن اور تیسری کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یعنی کے ایم سی ہے۔ مین ہولز اور نالوں کی مرمت اور صفائی کے ایم سی کی ذمہ داری ہے۔

تاہم کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپویشن نے ایکس پر وضاحتی بیان جاری کیا ہے کہ گلشن اقبال میں نیپا پل کے نزدیک جس مقام پر بچے کے ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا وہاں واٹر کار پوریشن کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ ’نہ ہی اس مقام پر سیوریج کی لائن ہے اور نہ ہی واٹر کار پوریشن کا کوئی مین ہول واقع ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ برساتی نالوں کی مرمت، دیکھ بھال اور صفائی کے امور واٹر کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں ہیں۔

سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے صوبائی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ کسی کا بھی ہو سکتا تھا، یہ واقعہ کہیں بھی، کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بحث میں نہیں پڑے گے کہ ’وہاں کونسلر کس کا ہے، ٹاؤن چیئرمین کس کا ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر ہم ایک دوسرے پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں۔‘

انھوں نے مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جس کی ذمہ داری تھی اور اس نے نہیں کیا تو اس کو سزا ملنی چاہیے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘

’یہ شہر اپنے ہی باسیوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا‘

کراچی میں ایک ڈیمپارٹمنٹل سٹور کے سامنے گٹر میں گر کر تین سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ بلدیاتی اداروں اور شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر ثاقب جاوید نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’یہ کوئی حادثہ نہِیں، جرم ہے۔‘

’جو عہدیدار اس مین ہول کو ڈھانپنے میں ناکام رہے تھے، ان کے ہاتھوں پر خون ہے۔ مزید کتنے بچوں کی اموات کے بعد اس نظام کا احتساب ہو گا؟‘

ایک اور صارف کا کہنا ہے کہ چند ہفتوں قبل جب خاتون اداکار صبا قمر نے کراچی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا تو سب کو بہت غصہ آیا تھا۔ ’یہ شہر اپنے ہی باسیوں کے لیے رہنے کے قابل نہیں رہا ہے۔‘

صحافی فیضان لکھانی ایک پر لکھتے ہیں کہ کراچی میں کھلے مین ہول میں گر کر ایک بچہ ہلاک ہو گیا اور کراچی کے رہنما ہونے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔

’لیکن سچ سیدھا ہے: اگر یوسی سے لے کر کے ایم سی تک ہر کوئی اپنا کام صحیح طریقے سے کرتا تو کراچی کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ان سب کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔‘

ایک اور صارف نے کراچی انتظامیہ سے سوال کیا کہ ’ہم 2025 میں جی رہے ہیں، اور ابھی تک آپ مین ہولز کے ڈھکن نہیں لگا سکے ہیں؟‘

BBCگٹر کے ڈھکن کیسے غائب ہوتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ یہ گٹروں کے ڈھکن آخر جاتے کہاں ہیں؟ حکام کا کہنا ہے کہ نشے کے عادی افراد لوہا حاصل کرنے کے لیے ڈھکن توڑ دیتے ہیں۔ ماضی میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر مرتضیٰ وہاب ان ڈھکنوں کی گمشدگی کا ذمہ دار نشے کے عادی افراد کو قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جو نشے کے عادی افراد ہیں، ان کی جگہ جگہ ویڈیوز ملتی ہیں جو سریا نکال رہے ہیں۔ گٹر کے ڈھکن بھی نکال رہے ہوتے ہیں۔ یہ سریا کسی نہ کسی مارکیٹ میں بِکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں نشہ کے عادی افراد کے خلاف کریک ڈاون کے بجائے ’حکومت نے ان کباڑیوں کے خلاف آپریشن کیا ہے۔‘

شہری منصوبہ بندی کے ماہر محمد توحید بھی مرتضیٰ وہاب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گٹر کے ڈھکن چوری ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ان مین ہولز میں سریا اور کنکریٹ استعمال ہوتا ہے۔ چور اس میں سے لوہا نکال کر فروخت کر دیتے ہیں‘ مگر ان کا خیال ہے کہ ’غیر معیاری میٹریل کی وجہ سے یہ ڈھکن خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘

مگر میئر مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ سپلائی اور معیار کا مسئلہ نہیں ہے۔ ’مسئلہ یہ ہے کہ ان مین ہول کورز کی رکھوالی کون کرے گا؟ اگر شہری تعاون نہیں کریں گے تو خدشہ ہے کہ سرکار ڈھکن لگاتی رہے گی اور نشئی چوری کرتے رہیں گے۔‘

محمد توحید کہتے ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ شہر کی اونرشپ نہیں ہے جس میں کمیونٹیز خود نگرانی کرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر کس کے گھر کے سامنے گٹر کا ڈھکن ہے، کوئی نشئی اگر کچھ حرکت کر رہا ہے تو اس کو روکیں کیونکہ حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہر سطح پر گٹر کے ڈھکنوں کی حفاظت کرے۔‘

’حکومتی ادارے عوام کو آگاہ کریں اور شعور دیں۔ اگر آپ کے علاقے میں ڈھکنے لگا دیے ہیں تو یہ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی دیکھ بھال کریں۔‘

کراچی کی تنگ گلیوں میں کثیرالمنزلہ مخدوش عمارتیں اور ’پگڑی‘ کا نظام: ’اب سر پر چھت نہیں رہی، اِس بڑھاپے میں کہاں جاؤں‘لیاری میں پانچ منزلہ عمارت گرنے سے 27 ہلاکتیں: سندھ حکومت کا متاثرین کو فی کس دس لاکھ روپے دینے کا اعلانکراچی میں ڈکیتیوں کے ملزمان جو ’چینی ڈیٹنگ ایپ اور پولیس کی وردیاں استعمال کرتے تھے‘کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی: ’ایک وقت تھا ہم یہاں بال دھوتے تھے، اب یہ مٹی پاؤں پر لگ جائے تو کئی روز کالک نہیں جاتی‘کراچی کے شیرشاہ بازار میں کمپیوٹر کے کچرے سے ’خالص سونے کی تلاش‘’استغفر اللہ، مجھے کراچی پسند نہیں‘: صبا قمر کا وہ بیان جس سے ’روشنیوں کے شہر‘ میں رہنے والے ناراض ہو گئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More