راشد خان کی بیگ بیش سے نکلنے کی دھمکی: ’کرکٹ کو سیاست سے دور رکھیں‘

راشد خان، بِگ بیش لیگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

افغانستان میں طالبان حکومت کی خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کی بنا پر آسٹریلیا نے مارچ میں افغانستان کے خلاف مینز ون ڈے سیریز کھیلنے سے انکار کیا ہے۔ تین میچوں کی یہ سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانی تھی۔

کرکٹ آسٹریلیا نے کہا کہ اس نے یہ فیصلہ تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز بشمول آسٹریلوی حکومت سے مشاورت کے بعد کیا۔

اس پر ردعمل دیتے ہوئے افغان سپنر راشد خان نے کہا ہے کہ وہ آسٹریلیا کی ٹی ٹوئنٹی لیگ بِگ بیش (بی بی ایل) سے نکلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے تنبیہ جاری کر دی ہے۔

ایڈیلیڈ سٹرائیکرز کے بولر نے کہا کہ ’مجھے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے اور ہم نے عالمی سطح پر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے اور کرکٹ آسٹریلیا کے فیصلے نے ’ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔‘

’اگر افغاستان کے خلاف کھیلنا آسٹریلیا کو بے سکون کر رہا ہے تو میں بی بی ایل میں اپنی موجودگی سے کسی کو بے سکون نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے میں اس مقابلے میں اپنے مستقبل کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔‘

سابق انگلش کپتان مائیکل وان سمیت بعض غیر ملکی کھلاڑیوں نے راشد خان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

خواتین پر پابندیاں: ’ایک ملک میں بنیادی انسانی حقوق نہ ہونا مسئلہ ہے‘

راشد خان، افغانستان، آسٹریلیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگست 2021 کے دوران دوبارہ افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں اور خواتین پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کیے ہیں۔

کرکٹ آسٹریلیا نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کی وجہ سے افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کم ہوئے ہیں اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ ’کرکٹ آسٹریلیا افغانستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے لیے اس کھیل کو فروغ دینے کی حمایت کرتا ہے۔ ہم افغان کرکٹ بورڈ سے تعاون جاری رکھیں گے تاکہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر بنائے جاسکیں۔‘

سابق آسٹریلوی کپتان بلینڈا کلارک، جو دو ورلڈ کپ جیتنے کے بعد 2005 میں ریٹائر ہوئی تھیں، نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ صحیح فیصلہ ہے۔ ’کھیلوں میں شمولیت بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔ اگر ایک ملک میں بنیادی انسانی حقوق ہی نہیں تو میرے خیال سے یہ ایک مسئلہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ آئی سی سی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ’شاید وہ دوسرے ارکان کی حمایت حاصل کر لیں تاہم اگر آپ کہتے ہیں دونوں صنفوں کے لیے برابر کے مواقع درکار ہیں تو اس کے لیے کون کوششیں کرے گا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو آواز اٹھانی ہوگی اور اس بارے میں مؤقف رکھنا ہوگا کہ آیا یہ حقوق سب کے لیے ہونے چاہییں۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

دوسری جانب افغان بورڈ نے آسٹریلیا کے ’شرمناک‘ فیصلے کو نامناسب اور غیر متوقع قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ کھیل کو سیاست کی نذر کرنے کی کوشش ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ کرکٹ آسٹریلیا کے فیصلے پر مایوس ہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ طور پر آئی سی سی سے رجوع کریں گے۔

افغان ون ڈے اور ٹیسٹ کپتان حشمت شہیدی نے کہا ہے کہ ’افغانستان میں شائقین اور لوگ گذشتہ 42 برسوں کے دوران جنگ سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں اور وہ کھیلوں میں سیاست کا عمل دخل نہیں چاہتے۔ ملک میں کرکٹ پسندیدہ کھیل اور خوشی کا بڑا ذریعہ ہے۔

’ہم چاہتے ہیں کہ کرکٹ آسٹریلیا اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔‘

یہ بھی پڑھیے

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 4
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 4

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 5
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 5

افغان کھلاڑی حسان عیسیٰ خیل نے لکھا کہ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے اور آسٹریلیا کا فیصلہ ’نامناسب اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔‘

’افغانوں سے ان کی خوشی مت چھینیں۔ کرکٹ میں سیاست روکیں۔‘

جبکہ افغانستان کے ٹی ٹوئنٹی کپتان محمد نبی نے کہا کہ افغان کھلاڑی ملک کے لیے رول ماڈل ہیں۔ ’ہم نے ثابت کیا ہے کہ مواقع اور پلیٹ فارم ملنے پر افغان شہری باقی دنیا سے کم نہیں۔۔۔ کرکٹ آسٹریلیا اور آئی سی سی کو اس مشکل مرحلے میں افغانستان کی حمایت کرنی چاہیے۔‘

تاہم بعض صارفین کا خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کے بعد اس قدر ردعمل نہیں آیا تھا جتنا آسٹریلوی بورڈ نے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔

جیسے لنڈسے ہلسم کہتی ہیں کہ ’طالبان نے لڑکیوں کو سکول اور کام پر جانے سے روکا مگر میں نے ٹوئٹر پر اس حوالے سے مردوں کا زیادہ سخت ردعمل دیکھا ہے کہ آسٹریلیا نے افغان ٹیم کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار کیوں کیا۔‘

جبکہ اینجلا پریسٹلی کہتی ہیں کہ افغانستان آئی سی سی کا واحد فُل ممبر ہے جس کی خواتین کی انٹرنیشنل ٹیم نہیں۔ ’طالبان کے دور میں خواتین یونیورسٹی نہیں جاسکتیں، کرکٹ کھیلنا تو دور کی بات ہے۔‘