سرفراز احمد کی لوک داستاں ادھوری رہ گئی

سرفراز احمد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسرفراز احمد نے
  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

بالآخر جب کراچی کا سورج ڈھلنے لگا تو ٹم ساؤدی نے نئی گیند لینے کا فیصلہ کر لیا اور دھیرے دھیرے رینگتے میچ کو ایک آخری مہمیز لگانے کا خطرہ مول لیا۔ سرفراز احمد دوپہر سے کیویز کو مایوس کرتے چلے آ رہے تھے اور نئی گیند کے استعمال میں ٹال مٹول بھی انہی کے سبب تھی۔

جس وقت سرفراز احمد کریز پر آئے، پاکستانی اننگز ایک آدھ سیشن کی مہمان نظر آتی تھی۔ ٹاپ آرڈر ارزاں نرخوں پہ پویلین واپس پہنچ چکا تھا اور کیوی بولنگ کا ڈسپلن کوئی راہ سُجھانے نہ دیتی تھی۔

سعود شکیل نے اپنے حصے کا قرض بخوبی چکایا اور ایک کنارہ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اگرچہ میچ کے مجموعی سیاق و سباق میں ان کی یہ اننگز کچھ زیادہ معنویت اجاگر نہیں کر پائی مگر بطور ٹیسٹ بلے باز سعود کے لئے یہ ایک اور خاص اننگز تھی جہاں انہوں نے سیشن در سیشن کیوی جارحیت کو مایوسی کا منہ تکنے پہ مجبور کیا۔

اور دوسرے کنارے سے سرفراز احمد نے جو کردار نبھایا، وہ کسی لوک داستاں سے کم نہیں تھا۔ جہاں پاکستان کی اولین ترجیح اپنی جیت سے زیادہ کیوی فتح کے خدشے کو ٹالنا تھا، وہاں سرفراز نے پانسہ یوں پلٹا کہ کیوی اٹیک کو پچھلے قدموں پہ جانا پڑا۔ اگر وہ میچ کو کنارے تک لے جاتے تو یہ اننگز لوک داستانوں کا حصہ بن کر امر ہو جاتی۔

سرفراز احمد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سرفراز کی بیٹنگ کا خاصہ ہے کہ نہ صرف وہ خود کریز پہ بِتائے اپنے وقت سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ شائقین کے لئے بھی تفریح کا سامان بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ وہ خود بھی متحرک رہتے ہیں اور کھیل کو بھی جمود کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔

ان کی اسی سرشت کی بدولت کیوی بولنگ کو بارہا اپنا حساب کتاب سلجھانا پڑا۔ جس وکٹ پہ سپنرز پاکستانی بیٹنگ کے لئے بلائے جاں بنے ہوئے تھے، وہاں سرفراز احمد نے اپنے کھلے سٹانس اور زیریں سینٹر آف گریویٹی کی بدولت آزادانہ سویپ شاٹس کھیل کر کیوی سپن کا سارا ڈنک نکال دیا۔

یہ بھی پڑھیے

سرفراز کے لئے یہ اننگز یوں بھی یادگار رہے گی کہ طویل غیر حاضری کے بعد انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کا پہلا موقع ملا اور اپنے ہوم گراؤنڈ پہ پے در پے تین نصف سینچریوں کے بعد یہ ان کی پہلی سینچری تھی۔ چوتھی اننگز کے دباؤ کے ہنگام ایسی لمبی اننگز اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ بطور بلے باز سرفراز کے تجربے کا فی الوقت کوئی نعم البدل موجود نہیں۔

سرفراز احمد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن سرفراز احمد کی اس یادگار اننگز کی داستان ہی کچھ اور ہوتی اگر دوسرے کنارے سے بھی کوئی ان کی ویسی ہی تائید کرنے کی کوشش کرتا جو سلمان آغا نے کی۔ پاکستانی لوئر آرڈر نے بہرحال پہلی اننگز کی نسبت بہتر کاوش دکھائی اور دم توڑتی روشنی میں ختم ہوتے میچ کو کسی حتمی ڈرامے سے محفوظ رکھا۔

ساؤدی کی ڈکلیریشن بھی نہایت دلیرانہ تھی۔ ٹیسٹ کرکٹ کی بقا کپتانوں کی جانب سے ایسے ہی جارحانہ فیصلوں میں مضمر ہے۔ اگر پانچ روزہ کھیل بلا نتیجہ ختم ہو جائے تو یہ کھلاڑیوں سے زیادہ کھیل کی بدقسمتی ہے۔

ساؤدی نے اسی بدقسمتی سے دامن بچانے کے لئے چوتھی شام ڈکلیریشن کا انقلابی فیصلہ کیا مگر پانچویں شام نئی گیند استعمال کرنے کے فیصلے پہ وہ مدافعتی ذہنیت کا شکار ہو گئے اور سرفراز احمد کی جارحیت سے خائف نظر آئے۔

بلاشبہ نئی گیند پہ رنز بننے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں اور سرفراز احمد کے سامنے یہ چال خطرہ مول لینے کے مترادف ہوتی۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ اگر نئی گیند اپنے وقت پہ لے لی جاتی تو میچ کسی نہ کسی منطقی انجام تک ضرور پہنچتا۔ 

چوتھی شام بھی یہ نئی گیند ہی تھی جس کی سیم کو استعمال میں لا کر سوڈھی نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کو پریشان کیا تھا۔ پانچویں شام جبکہ پاکستان کا لوئر آرڈر میچ بچانے کی تگ و دو میں تھا، وہاں نئی گیند کے ہمراہ سوڈھی بہت مہلک ثابت ہو سکتے تھے۔

مگر ساؤدی کا مدافعانہ قدم میچ کو نتیجے سے دور لے گیا۔ اگرچہ بعد ازاں نئی گیند کا مبالغہ آمیز ٹرن ہی سرفراز کی داستان کو ادھورا چھوڑ گیا مگر یہ اننگز بہرطور سرفراز کے کرئیر کے چند یادگار ترین لمحات میں سے رہے گی۔