’ان کا نام ماریہ خان ہے، آپ نے ان کا نام کیوں نہیں لیا‘: ماریہ خان کون ہیں؟

ماریہ خان

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@TheRealPFF

سعودی عرب کو اس میچ میں ایک سفر کی برتری حاصل تھی جب پاکستان کو 65ویں منٹ میں ایک فری کِک ملی جس پر پاکستان کی کپتان ماریہ خان نے یہ فری کِک لی اور دور سے گول کو ہی اپنا ہدف رکھتے ہوئے ایک شاندار گول کر کے میچ برابر کر دیا۔

 اس گول کی بدولت پاکستان نے میچ برابر کرکے ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور پاکستان کی کپتان ماریہ جمیلہ خان کو اس میچ کی بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

 سعودی عرب اور پاکستان کا میچ ایک ایک گول سے برابر رہا لیکن سعودی عرب کی ٹیم ویمن انٹرنینشل فرینڈلی ٹورنامنٹ کے گروپ میں سات پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست رہی اور اپنی پہلی ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ پاکستان کی ٹیم چار پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ سعودی عرب میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں سعودی عرب، پاکستان ، موریشیئس اور کومورس کی ٹیمیں شامل تھیں۔

سوشل میڈیا پر پاکستان کے وزیراعظم سمیت بہت سے پاکستانی ان کی اس فری کِک کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

ماریہ خان کون ہیں؟

اس شاندار گول اور کامیابی کے بعد ماریہ خان کا نام پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے اور ان کے اس گول کے کلپس شیئر کیے جا رہے ہیں۔

 ماریہ خان سکواش کے پہلے پاکستانی عالمی چیمپیئن ہاشم خان کی نواسی ہیں اور جہانگیر خان ان کے دور کے انکل ہیں۔

 ہاشم خان نے 1950 کی دہائی میں مشہور زمانہ برٹش اوپن کا اعزاز سات بار حاصل کیا تھا۔ یہ ریکارڈ 23 سال قائم رہا جسے آسٹریلیا کے جیف ہنٹ نے توڑا لیکن پھر جہانگیرخان نے دس بار جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کردی۔

جہانگیر خان نے چھ مرتبہ ورلڈ اوپن جیتا اور 1980 کی دہائی میں لگاتار 10 مرتبہ برٹش اوپب کے فاتح رہے۔

جہانگیر خان نے بی بی سی اردو کو فون پر بتایا کہ ماریہ خان کی فیملی سے ان کا براہ راست تو کوئی رشتہ نہیں لیکن ان کے والدین کی ماریہ کی فیملی سے دور کی رشتہ داری تھی۔

 فٹبال پاکستان ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کے مطابق وہ ہاشم خان کی چھوٹی بیٹی کی اولاد ہیں۔ انھوں نے فٹبال پاکستان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ان کے نانا ہاشم خان نے زندگی کا آخری حصہ انھی کے ساتھ کولاراڈو میں گزارا تھا۔

وہ کولاراڈو میں پلی بڑھیں اور ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے ان کا یہی کہنا تھا کہ کبھی کبھار وہ سوچتی ہیں کہ ’ہم نے خاندانی روایت کے مطابق سکواش کیوں نہیں کھیلی‘۔

وہ بتاتی ہیں ’بدقسمتی سے کولاراڈو جیسی جگہوں میں اس وقت سکول کی سطح پر سکواش تھی ہی نہیں۔‘

 وہ کہتی ہیں کہ ان کو گول کیپر بننا پسند تھا۔ وہ یونیورسٹی آف ڈینور کی ٹیم میں بطور گول کیپر کھیلتی تھیں۔

 انھوں نے ڈینور سے گریجوایشن کی جس کے بعد وہ 2013 میں متحدہ عرب امارات چلی گئیں جہاں وہ ماسٹرز کرنا چاہتی تھیں۔ اسی دوران وہ عرب امارات کی خواتین فٹبال ٹیم کے ساتھ کھیلنے لگیں لیکن مِڈفیلڈر کے طور پر۔

 2014 میں پاکستان خواتین ٹیم نے آخری مرتبہ کسی بین الاقوامی مقابلے میں پاکستان میں ہی منقعد ہونے والی ساؤتھ ایشیئن فٹبال فیڈریشن ویمن چیمپیئن شپ میں حصہ لیا تو ماریہ کو سوشل میڈیا سے پاکستان کی خواتین کی ٹیم کے بارے میں معلوم ہوا جس پر وہ ’حیران‘ ہوئیں۔ انھوں نے ٹیم کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔

 فٹبال پاکستان ڈاٹ کام کے مطابق ماریہ نے پاکستان خواتین فٹبال ٹیم سے متعلق معلومات کے لیے پہلی بار انہی کے فیس بک پیج کے ذریعے ان سے رابطہ کیا تھا۔ اور پھر گذشتہ برس جب وہ کپتان بنیں تو اسی ویب سائٹ نے ان کا تفصیلی انٹرویو کیا۔

 گذشتہ برس ساؤتھ ایشیئن فٹبال فیڈریشن ویمن چیمپیئن شپ میں انھوں نے پہلی بار کسی بین الاقوامی مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کی اور وہ بھی بطور کپتان۔ ایسا اس لیے کیوں کہ پاکستان کی ٹیم آٹھ سال بعد کسی بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لے رہی تھی۔

 

ماریہ خان پر فخر

پاکستان کے وزیر اعظم نے سعودی عرب کی ٹیم کو ٹورنامنٹ جیتنے پر مبارک باد دی اور کہا کہ دوسری پوزیشن پر آنے پر ’خواتین کی قومی ٹیم پر فخر ہے‘۔

انھوں نے کہا ’ ماریہ خان کو شاندر گول پر خاص مبارک باد۔ ہم پاکستان میں خواتین کے لیے کھیلوں اور فٹبال کو فروغ دینے کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

جیویریہ امان نامہ صارف نے لکھا کہ ’پاکستانی فٹبالر ماریہ خان نے فری کِک پر ایک شاندار گول کر کے ہمارا سر بلند کر دیا ہے اور سعودی عرب کے خلاف پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ جیتا ہے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

پاکستانی صحافی منصور علی خان نے اسی گول کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے کیے گئے اس گول کو سراہا اور ٹیم پر فخر کا اظہار کیا۔ لیکن جب انعام اللہ نامی صارف نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں ماریہ خان کا نام نہیں لیا تو کہا ’ان کا نام ماریہ خان ہے، آپ نے ان کا نام کیوں نہیں لیا۔۔۔ آپ کو کہنا چاہیے ماریہ خان‘۔

طیب عارف نے کہا کہ ’پاکستان کے لیے فخر کا لمحہ جب ماریہ خان نے ایک غیر معمولی فری کک پر گول کیا جس سے ان کا ٹیلنٹ اور پختہ ارادہ جھلکتا ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 4
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 4