معاشی ترقی سے ’امریکہ اور یورپ کو خوفزدہ‘ کرنے والے جاپان کی ترقی سست روی کا شکار کیوں ہے؟

ٹوکیو

،تصویر کا ذریعہJIRO AKIBA/ BBC

  • مصنف, روپرٹ وِنگفیلڈ ہیز
  • عہدہ, نامہ نگار، ٹوکیو

جاپان میں گھر گاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں۔

جیسے ہی آپ یہاں منتقل ہوتے ہیں، آپ کے نئے گھر کی قیمت اس سے کم ہوتی ہے جو آپ نے اس کے لیے ادا کی تھی اور 40 سال میں اپنے مارگیج ( قرض) کی ادائیگی ختم کرنے کے بعد اس کی قیمت تقریباً کچھ بھی نہیں رہتی۔

جب میں پہلی بار بی بی سی کے نامہ نگار کی حیثیت سے یہاں آیا تو مجھے حیرانی ہوئی- 10 سال بعد جب میں جانے کی تیاری کر رہا تھا تو صورتحال اب بھی ویسی ہی تھی۔

جاپان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ یہ ایک پرامن اور خوشحال ملک ہے۔ جاپانیوں کی اوسط عمر دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

یہاں قتل کے واقعات کی شرح سب سے کم ہےاور سیاسی تنازعات بہت کم ہوتے ہیں۔

جاپان کا پاسپورٹ کا شمار دنیا کے طاقتور پاسپورٹس میں کیا جاتا ہے جبکہ یہاں ریلوے کا نظام شنکانسن دنیا کا بہترین تیزرفتار ریل نیٹ ورک جانا جاتا ہے۔

ایک زمانے میں امریکہ اور یورپ جاپان کی معیشت سے اسی طرح خوفزدہ تھے جس طرح وہ آج چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے ڈرتے ہیں۔

تاہم دنیا کو جاپان کے جس عروج تک جانے کی توقع تھی وہ کبھی نہیں آیا۔ سنہ 1980 کی دہائی میں جاپان کے لوگ امریکیوں سے بھی زیادہ امیر تھے لیکن آج وہ برطانوی شہریوں سے بھی کم کماتے ہیں۔

جاپان کی معیشت کئی دہائیوں سے سست روی کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ تبدیلی کے خلاف شدید مزاحمت اور ماضی سے چمٹے رہنے کی ضد سمجھی جاتی ہے۔

ایک جانب جہاں جاپان کی اکثریت آبادی ضعیف العمری میں ہے وہیں آبادی کی شرح بھی سکڑ رہی ہے۔ اس صورت حال میں جاپان پھنس کر رہ گیا ہے۔

جاپان جو لوگوں کا خواب اور مستقبل تھا

جب میں سنہ 1993 میں پہلی بار جاپان آیا ، تو نہ تو گنزا اور شنجوکو شہر کی جگمگاتی سڑکوں نے مجھے متاثر نہیں کیا تھا اور نہ ہی ’ہراجوکو‘ لڑکیوں کے جنگلی ’گنگورو‘ فیشن نے۔

ٹوکیو کسی بھی دوسرے ایشیائی شہر کے مقابلے میں انتہائی صاف ستھرا اور منظم تھا اس کے مقابلے میں ہانگ کانگ میں وکٹوریہ پیک سے کولون شہر تک بلند عمارات کے درمیان شور شرابہ گھٹن اور بدبو حواسوں کو متاثر کرتی تھی۔

تائیوان کے شہر تائی پے میں جہاں میں چینی زبان سیکھ رہا تھا، سڑکوں پر دھواں اگلتی دو سٹروک سکوٹروں کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں جس نے شہر کو سموگ کی چادر میں اس قدر لپیٹ لیا تھا کہ آپ اکثر بمشکل دو بلاک دیکھ سکتے تھے۔

اگرموازنہ کیا جائے تو ہانگ کانگ اور تائی پے ایشیا کی ابھرتی معیشتیں تھیں تو ترقی کے عروج پر موجود جاپان ایک تہذیب یافتہ ملک تھا۔ ٹوکیوکنکریٹ کا ایسا جنگل تھا جوخوبصورتی اور نفاست سے تیار کیا گیا تھا۔

متبادل فیشن کی دنیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنٹوکیو میں ہاراجوکو کا علاقہ جو اپنے الگ فیشن اور کلچر کے لیے مشہور ہے

ٹوکیو میں امپیریل پیلس کے سامنے مٹسوبشی، مٹسوئی، ہیٹاچی، سونی سمیت ملک کی بڑی کمنیوں کی شیشے سے بنی ہوئی فلک بوس عمارتیں نظر آتی تھیں۔

نیو یارک سے لے کر سڈنی تک والدین اپنی اولاد کو ’جاپانی سیکھنے‘ کی ترغیب دے رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں نے چینی زبان کا انتخاب کر کے کوئی غلطی کی ہے۔

جاپان دوسری جنگ عظیم کی تباہی سے نکل کر اب ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ میں عالمی طور پر سبقت لے چکا تھا۔

پیسہ ملک میں واپس آ گیا تھا جس سے پراپرٹی کی صنعت کو زبردست فروغ ملا تھا۔ لوگ اپنی من پسند چیز خریدنے کی دسترس رکھتے تھے یہاں تک کہ جنگل کے بڑے رقبے بھی۔

سنہ 1980 کی دہائی کے وسط تک یہ لطیفہ عام تھا کہ ٹوکیو میں شاہی محل کی زمین امریکی ریاست کیلیفورنیا سے زیادہ قیمتی ہے۔

جاپانی اسے ’بابورو جیدائی‘ یا ببل ایرا (انتہائی مستحکم معیشت کا دور) کہتے ہیں۔

پھر 1991 میں ترقی کا یہ بلبلا پھٹ گیا۔ ٹوکیو سٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی کی قیمتیں گر گئیں اور اس معاشی گراوٹ کے اثرات اب بھی قائم ہیں۔

ایک دوست حال ہی میں کئی ہیکٹر جنگل خریدنے کے لیے بات چیت کر رہا تھا۔ مالک 20 ڈالر فی مربع میٹر چاہتا تھا۔

میرے دوست نے بتایا کہ ’میں نے اسے بتایا کہ جنگل کی زمین کی قیمت صرف دو ڈالر فی مربع میٹر ہے۔ تاہم انھوں نے اصرار کیا کہ انھیں 20 ڈالر فی مربع میٹر کی ضرورت ہے، کیوںکہ انھوں نے سنہ 1970 کی دہائی میں اس کے لیے یہی رقم ادا کی تھی۔‘

جاپان کی بلٹ ٹرینوں کی بات ہو یا ٹویوٹا کر حیرت انگیز مینوفیکچرنگ کا کارنامہ تو جاپان اپنی کارکردگی اوربے مثال مہارت میں نا قابل تسخیر دکھائی دیتا ہے تاہم ایسا ہے نہیں۔

اس کے برعکس بیوروکریسی سے اس وقت خوف آتا ہے جب عوام کے پیسے میں سے بڑی رقم مشکوک کاموں پر خرچ کر دی جاتی ہے۔

پچھلے سال میں نے جاپان کے پہاڑ ایلپس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں مین ہول کے ڈھکنے کے پیچھے کی کہانی دریافت کی۔

سنہ 1924 میں ہاتھیوں کی ایک قدیم قسم کی ہڈیاں قریبی جھیل میں پائی گئیں تھیں جو اس شہر کی پہچان بن گیا چند سال پہلے کسی نے فیصلہ کیا کہ مین ہول کے تمام ڈھکنوں کو نئے کور سے بدل دیا جائے گا جس میں سب سے اوپر مشہور ہاتھی کی تصویر ہو گی۔

یہ پورے جاپان میں ہو رہا ہے۔ اب جاپان سوسائٹی فار مین ہول کور بن گئی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے چھ ہزار مختلف ڈیزائن ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ ڈھکنوں سے محبت کیوں کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ آرٹ شاہکار ہیں، مگر ہر ایک کی قیمت 900 ڈالر تک ہے۔

کٹر کا ڈھکنا
،تصویر کا کیپشنکٹر کے یہ ڈھکنے پورے جاپان میں پائے جاتے ہیں

یہ اس بات کی نشانی ہے کہ جاپان کس طرح قرضوں کی مد میں دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ کے نیچے دبا ہوا ہے۔ اور اس بوجھ سے نمٹنے کے لیے عمر رسیدہ آبادی مدد نہیں کر سکتی جو صحت کی دیکھ بھال کےنظام اور پنشن پر دباؤ کی وجہ سے ریٹائر نہیں ہو سکتی۔

جب میں نے اپنے جاپانی ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کی تو انتہائی شائستہ عملہ مجھے آئی ٹیسٹ سے فوٹو بوتھ تک اور وہاں سے فیس کی ادائیگی تک لے گیا اور پھر مجھے ’لیکچر روم 28‘ پر رپورٹ کرنے کے لئے کہا۔ یہ ’سیفٹی‘ لیکچرز ہر اس شخص کے لئے لازمی ہیں جس نے پچھلے پانچ سالوں میں ٹریفک کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایک شخص اندر آیا اور ہمیں بتایا کہ ہمارا ’لیکچر‘ 10 منٹ میں شروع ہوگا اور دو گھنٹے تک چلے گا!

آپ کو لیکچر کو سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں سے بہت کچھ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ جب یہ اپنے دوسرے گھنٹے میں داخل ہوا تو میرے کئی ہم جماعت سو چکے تھے۔

جب میں دفتر واپس آیا تو میں نے اپنے جاپانی ساتھی سے پوچھا، ’اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ سزا ہے نا؟‘

اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’نہیں۔ یہ ریٹائرڈ ٹریفک پولیس اہلکاروں کے لیے روزگار سکیم ہے۔‘

جاپان اب بھی جاپان کی طرح محسوس ہوتا ہے، نہ کہ امریکہ کی پیداوار۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پاؤڈر سنو سے لے کر فیشن تک تمام جاپانی چیزوں کو ذوق و شوق سے دیکھتی ہے۔ ٹوکیو اپنے کھانوں کے باعث بہترین ریسٹورینٹس کا مرکز ہے۔

لیکن امیگریشن سے انکار کرنے اور پدر شاہی کو برقرار رکھنے کے لئے اس کے انتہائی دائیں بازو کے مداح بھی ہیں۔ اسے اکثر ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قدامت کو چھوڑے بغیر کامیابی سے جدید بن گیا ہے۔ اس میں کچھ سچائی بھی ہے، لیکن میں دلیل دوں گا کہ جدید ایک لبادہ ہے۔

جب کووڈ کی وبا آئی تو جاپان نے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ یہاں تک کہ مستقل غیر ملکی باشندوں کو واپس آنے سے روک دیا گیا تھا۔ میں نے وزارت خارجہ کو فون کرکے پوچھا کہ جاپان میں کئی دہائیاں گزارنے والے، یہاں گھر اور کاروبار رکھنے والے غیر ملکیوں کے ساتھ سیاحوں جیسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس کا جواب دوٹوک تھا: ’وہ سب غیر ملکی ہیں۔‘

اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہونے کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی جاپان شکوک و شبہات کا شکار ہے، یہاں تک کہ بیرونی دنیا سے بھی خوفزدہ ہے۔

جاپان کی موجودہ صورت حال کے بیرونی عنصر کیا ہیں؟

مجھے یاد ہے کہ میں ٹوکیو خلیج کے دور دراز حصے میں جزیرہ نما بوسو کے ایک گاؤں کے ہال میں بیٹھا تھا۔ میں وہاں اس لیے تھا کیونکہ اس گاؤں کو جاپان میں خطرے سے دوچار 900 سو میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ ہال میں جمع بوڑھے لوگ فکر مند تھے۔ 1970 کی دہائی کے بعد سے انہوں نے نوجوانوں کو شہروں میں ملازمتوں کے لیے جاتے دیکھا ہے۔ باقی 60 میں سے صرف ایک نوعمر تھا اور کوئی بچہ نہیں تھا۔

ایک بوڑھے آدمی نے تاسف سے کہا، ’جب ہم چلے جائیں گے تو ہماری قبروں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘ روحوں کا خیال رکھنا جاپان میں اہم کام ہے۔

لیکن جنوب مشرقی انگلستان کے رہنے والے میرے لیے اس گاؤں کی موت مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔ اس کے ارد گرد تصویری پوسٹ کارڈ چاول کی پڈیاں اور گھنے جنگل میں ڈھکی ہوئی پہاڑیاں تھیں۔ ٹوکیو دو گھنٹے سے بھی کم فاصلے پر تھا۔

جاپانی کاشتکار

،تصویر کا ذریعہJIRO AKIBA/BBC

،تصویر کا کیپشنجاپان میں کاشتکار دنیا میں سب سے قدیم ہے

میں نے ان سے کہا کہ ’یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ یہاں رہنا پسند کریں گے۔ اگر میں اپنی فیملی کو یہاں رہنے کے لیے لے آؤں تو آپ کو کیسا لگے گا؟‘

کمرے موجود مردوں نے خاموشی اور شرمندگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر ایک شخص نے اپنا گلا صاف کیا اور تشویش بھری نظروں کے ساتھ بولا: ’ٹھیک ہے، آپ کو ہماری طرز زندگی سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ آسان نہیں ہوگا۔‘

یہ گاؤں ختم ہو رہا تھا مگر پھر بھی اس پر ’بیرونی لوگوں‘ کے قبضے کا خیال ان لوگوں کے لیے اس سے بھی بد تر تھا۔

جاپان کی ایک تہائی آبادی 60 سال سے زیادہ عمر کی ہے جس کی وجہ سے جاپان موناکو کے بعد دنیا کی معمر ترین آبادی کا گھر بن گیا ہے۔ یہاں شرح پیدائش پہلے سے کہیں کم ہے۔ سنہ 2050 تک اس کی موجودہ آبادی میں 20 فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔

اس کے باوجود امیگریشن خلاف رویے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ جاپان کی صرف 3 فیصد آبادی غیر ملکی نژاد ہے جبکہ برطانیہ میں یہ شرح 15 فیصد ہے۔ یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کی تحریکیں جاپان کے اس طرز عمل کو نسلی پاکیزگی اور سماجی ہم آہنگی کی روشن مثال قرار دیتی ہیں۔

جاپان میں ہوکائیڈو کے عینو، جنوب میں اوکیناوان، پانچ لاکھ نسلی کوریائی اور دس لاکھ کے قریب چینی باشندے ہیں۔ پھر ایسے جاپانی بچے ہیں کے والدین میں سے ایک غیر جاپانی ہے، جن میں میرے اپنے تین بچے بھی شامل ہیں۔

ان دو ’ثقافتی بچوں‘ کو ’ہافو‘ یا نصف کے نام سے جانا جاتا ہے- یہ ایک تضحیک آمیز اصطلاح جو یہاں عام ہے۔

ان میں مشہور شخصیات اور سپورٹس آئیکون شامل ہیں، جیسے ٹینس سٹار ناؤمی اوساکا۔ عام لوگ انھیں زیادہ خوبصورت اور باصلاحیت سمجھتے ہیں لیکن انھیں مثالی قرار دینا الگ بات ہے اور قبول کرنا بالکل دوسری بات ہے۔

اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک ایسے ملک کا کیا ہوتا ہے جو کم شرح پیدائش کے حل کے طور پر امیگریشن کو مسترد کرتا ہے تو جاپان ایک اچھی مثال ہے۔

یہاں 30 برسوں سے حقیقی اجرت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ جنوبی کوریا اور تائیوان میں آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور یہاں تک کہ انھوں نے جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

لیکن تبدیلی دور محسوس ہوتی ہے۔ جزوی طور پر یہ ایک سخت درجہ بندی کی وجہ سے ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ طاقت کے لیور کون رکھتا ہے۔

جاپان میں اقتدار اب بھی ضعیف العمر افراد کے پاس ہے

ایک ممتاز ماہر تعلیم نے مجھے بتایا کہ ’دیکھیں آپ کو اس بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جاپان کس طرح کام کرتا ہے۔ سنہ 1868 میں ساموریوں نے ہتھیار ڈال دیے، اپنے بال کٹوا دیے، مغربی سوٹ پہنے اور کاسومیگاسیکی (وسطی ٹوکیو کا سرکاری ضلع) کی وزارتوں میں پہنچ گئے اور آج بھی وہاں موجود ہیں۔

سنہ 1868 میں مغربی سامراجیوں کے ہاتھوں چین کی قسمت کے دہرانے کے خوف سے اصلاح پسندوں نے توکوگاوا شوگناٹ کی فوجی آمریت کا تختہ الٹ دیا اور جاپان کو تیز رفتار صنعت کاری کے راستے پر ڈال دیا۔

تاہم میجی کی بحالی، جیسا کہ یہ جانا جاتا ہے، بیسٹائل پر حملہ نہیں تھا۔ یہ ایک اشرافیہ کا گڑھ تھا۔ یہاں تک کہ وہ 1945 کے دوسرے جھٹکے کے بعد بھی’عظیم‘ خاندان زندہ رہے۔ مردوں کی اکثریت والے اس حکمران طبقے کی تعریف قوم پرستی اور اس یقین سے کی جاتی ہے کہ جاپان خاص ہے۔ وہ نہیں مانتے کہ جاپان جنگ میں جارح تھا، بلکہ ان کے مطابق اس کا شکار تھا۔

مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم شنزو آبے ایک وزیر خارجہ کے بیٹے اور ایک اور وزیراعظم نوبوسوکی کیشی کے پوتے تھے۔

دادا کیشی جنگی جنتا کے رکن تھے اور امریکیوں نے انھیں ایک مشتبہ جنگی مجرم کے طور پر گرفتار کیا تھا لیکن وہ پھانسی سے بچ گئے اور سنہ 1950 کی دہائی کے وسط میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) قائم کرنے میں مدد دی، جس نے تب سے جاپان پر حکمرانی کی ہے۔

کچھ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ جاپان ایک جماعتی ریاست ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لیکن یہ سوال مناسب ہے کہ جاپان ایک ایسی پارٹی کو دوبارہ کیوں منتخب کر رہا ہے جو اشرافیہ کے زیر انتظام ہے، جو امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ امن پسندی کو ختم کرنے کی خواہش مند ہے، لیکن 30 سالوں سے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے۔

حالیہ انتخابات کے دوران میں نے ٹوکیو سے دو گھنٹے مغرب میں پہاڑوں میں ایک تنگ وادی کا دورہ کیا۔ مقامی معیشت کا انحصار سیمنٹ بنانے اور پن بجلی پر ہے۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں میری ملاقات ایک بزرگ جوڑے سے ہوئی جو پولنگ سٹیشن کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ شوہر نے بتایا کہ ’ہم ایل ڈی پی کو ووٹ دیں گے۔ ہمیں ان پر بھروسہ ہے، وہ ہماری دیکھ بھال کریں گے۔‘

بیوی نے کہا: ’میں اپنے شوہر سے اتفاق کرتی ہوں۔‘

جوڑے نے وادی بھر میں حال ہی میں مکمل ہونے والی سرنگ اور پل کی طرف اشارہ کیا جس سے انھیں امید ہے کہ ٹوکیو سے ہفتے کے آخر میں مزید سیاح آئیں گے لیکن اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ایل ڈی پی کی سپورٹ بیس کنکریٹ سے بنی ہے۔

عمر رسیدہ آبادی

،تصویر کا ذریعہJIRO AKIBA/ BBC

،تصویر کا کیپشنجاپان کے لیے بڑا چیلنج اس کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی ہے

یہ دیہی علاقوں کے گڑھ اب آبادی کے لحاظ سے اہم ہیں۔ انھیں کم ہونا چاہیے تھا کیونکہ لاکھوں نوجوان روزگار کے لیے شہروں میں چلے گئے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

ایل ڈی پی اسے اس طرح پسند کرتی ہے کیونکہ ان کے لیے دیہی علاقوں کے بڑی عمر کے ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے۔

جیسے جیسے یہ پرانی نسل گزر رہی ہے، تبدیلی ناگزیر ہے لیکن مجھے اس پر یقین نہیں ہے کہ جاپان زیادہ آزاد یا کھلا بننے جا رہا ہے۔

نوجوان جاپانیوں کی شادی یا بچے ہونے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن ان کے والدین یا دادا دادی کے مقابلے میں ان میں غیر ملکی زبان بولنے یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا امکان بھی کم ہے۔

جاپانی مینیجرز میں سے صرف 13 فیصد خواتین ہیں اور اوسطاً 10 میں سے ایک سے بھی کم پارلیمنٹ کی ممبر ہیں۔

جب میں نے ٹوکیو کی پہلی خاتون گورنر یوریکو کوائیکے کا انٹرویو کیا تھا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی انتظامیہ نے صنفی فرق کو دور کرنے میں کس طرح مدد کی ہے۔

میں نے انھیں بتایا کہ ’وہ مختلف زبان بولنے والی جاپانی شہری ہیں۔ آپ ان سے یہاں رہنے اور اپنا کیریئر یہاں بنانے کی ترغیب دینے کے لیے کیا کہیں گی؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں انھیں بتاؤں گی کہ اگر میں یہاں کامیاب ہو سکتی ہوں تو وہ بھی ہو سکتی ہیں۔‘ تب میں نے سوچا کہ ’کیا ان کے پاس صرف یہ ہی کچھ کہنے کو ہے؟‘

پھر بھی اس سب کے باوجود میں جاپان کو یاد کرنے جا رہا ہوں، جو میرے اندر بے پناہ پیار اور کبھی کبھار مایوسی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

ٹوکیو میں اپنے آخری دنوں میں سے ایک پر میں دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ سال کے آخر میں سٹریٹ مارکیٹ گیا۔

ایک سٹال پر مجھے لکڑی کے خوبصورت پرانے اوزاروں کے ڈبے پڑے ملے۔ کچھ ہی فاصلے پر خوبصورت ریشمی کیمونوس میں ملبوس نوجوان خواتین کا ایک گروپ کھڑا گپ شپ کر رہا تھا۔

دوپہر کو ہم ایک چھوٹے سے ریستوران میں گرلڈ میکریل، سشمی اور مسو سوپ کھانے گھسے۔ ایسے میں کھانا، آرام دہ ماحول، مہربان بوڑھا جوڑا جو ہم پر جھنجھلا رہا تھا، یہ سب کچھ اتنا مانوس اور آرام دہ لگ رہا تھا۔

ایک دہائی کے بعد مجھے جاپان کے اس انداز کی عادت ہو گئی ہے اور میں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا ہے کہ یہ تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔

ہاں، مجھے مستقبل کی فکر ہے۔ اور جاپان کا مستقبل ہم سب کے لیے سبق آموز ہو گا۔ مصنوعی ذہانت کے دور میں، بہت کم کارکن جدت اپنا سکتے ہیں۔ جاپان کے بوڑھے کسانوں کی جگہ ذہین روبوٹ لے سکتے ہیں۔ ملک کے بڑے حصے دوبارہ جنگل بن سکتے ہیں۔

کیا جاپان عالمی منظر نامے میں غیر اہم ملک قرار پا کر گمنامی کی چادر اوڑھ لے گا یا یہ خود کو دوبارہ سنبھال کر اپنا عروج دوبارہ حاصل کر پائے گا؟

میرا ذہن مجھے کہتا ہے کہ جاپان کو نیا جنم لینے کے لیے تبدیلی کو اپنانا ہو گا۔ لیکن میرا دل یہ سوچ کر اداسی سے  بھر جاتا ہے کہ جن چیزوں نے جاپان کو اس قدر خاص بنایا وہ کہیں کھو جائیں گی۔۔۔