کِنگز ہائی وے: وہ شاہراہ جس نے صلاح الدین ایوبی کے لشکر کو بھی لڑتے ہوئے دیکھا

کنگز ہائی وے

،تصویر کا ذریعہMarta Vidal

  • مصنف, مارٹا وِیڈال
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

اردن کے اہم تاریخی مقامات میں سے بعض کو ایک دوسرے سے ملانے اور ایک کے بعد دوسری سلطنت کے استعمال میں رہنے والی اس شاہراہ کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔

میں نے وادی محیب پر ڈھلتے سورج کا نظارہ کرنے کے لیے جیسے ہی اپنی گاڑی سے باہر قدم رکھا تو وہاں موجود بچوں نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا: ’اردن میں خوش آمدید!‘

میں ایک چٹان پر کھڑی بحرِ مردار تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے کو دیکھ رہی تھی جب ایک چڑیا میرے قریب سے اڑتی ہوئی نیچے کو گئی۔ میں حیران رہ گئی کہ ایک نازک سا پرندہ اس بنجر علاقے میں کھڑی سنگلاخ چٹانوں کو کیسے اپنا مسکن بنا سکتا ہے۔

میں جس جگہ کھڑی تھی وہاں سے نیچے گھاٹیوں میں اور ڈھلوانوں پر مجھے سانپ کی طرح بل کھاتی ایک سڑک نظر آئی۔ یہ کِنگز ہائی وے ہے جسے عربی میں الطریق الملوکی یعنی شاہراہِ شاہ کہا جاتا ہے۔

اس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے پرانی زیر استعمال سڑک ہے۔ ہزاروں سال سے تاجر، زائرین، سپاہی اور بادشاہ اس راستے کے ذریعے شمال سے جنوب کا سفر کرتے رہے ہیں۔ اردن کے وسط میں واقع کوہستانی علاقے سے گزرنے والی یہ سڑک قدیم سلطنتوں اور بادشاہتوں کو ایک لڑی میں پیروتی ہے۔

الطریق الملوکی

،تصویر کا ذریعہAnna Stowe Travel/Alamy

،تصویر کا کیپشنکنگز ہائی وے یا شاہراہ شاہ کم سے کم آٹھویں صدی قبل از مسیح سے مسلسل استعمال میں ہے

آج اس پکّی سڑک کا نام ہائی وے 35 ہے جو اپنی قدیم پیشرو کی جگہ شام سے دریائے اردن کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف جاتی ہے۔ راستے میں رومن کھنڈرات، بازنطینی موزیک ، صلیبی قلعے اور پیٹرا کا قدیم شہر پڑتا ہے۔ یہ سب آثار بھرپور طریقے سے اردن کی تاریخ اور اس کے قدیم مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔

اس علاقے کی قدیم سڑکوں کے نظام کے ماہر آثار قدیمہ فوزی ابودانا کہتے ہیں کہ ’یہ راستہ نباتی دور (چوتھی صدی قبل مسیح سے تقریباً 106 عیسوی) تک، اور شاید اس سے بھی پہلے آئرن ایج یا لوہے کے دور میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اردن سے گزرنے والی اس سڑک کا، جسے ’بادشاہ کی راہگزر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، بائبل کے پرانے عہد نامے میں ذکر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبر موسیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر سے باہر لے جانے کے بعد اسے عبور کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ جیسا کہ ابودانہ وضاحت کرتے ہیں کہ موجودہ شاہراہ کے زیادہ تر حصے میں ادومی، نباتین، رومن، بازنطینی اور اسلامی آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سڑک کم سے کم آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل استعمال میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے رہے ہیں۔‘

ابودانا کے مطابق کنگز ہائی وے قدیم زمانے میں عرب، فرٹائل کریسنٹ، بحیرۂ احمر اور مصرکو ملانے والا ایک اہم تجارتی راستہ تھا۔ عرب سے خوشبویات اور مصالحہ جات لے جانے والے قافلوں نے اس سڑک کے ذریعے نباتین دارالحکومت پیٹرا کو جاتے تھے۔ رومن دور میں شہنشاہ ٹراجن (98-117 عیسوی) نے اس راستے کا نام بدل کر نووا ٹرائیانا رکھا  اور اسے پہیوں والی گاڑیوں کے لیے ہموار بنایا۔ ابودانا کہتے ہیں کہ ’اب بھی اس سڑک کے کنارے ہمیں رومن سنگ میل مل جاتے ہیں۔‘

شاہراہ شاہ

،تصویر کا ذریعہTravel Wild/Alamy

،تصویر کا کیپشنایک زمانے میں یہاں مصالحوں سے لدے کاروان اسی راستے سے پیٹرا پہنچتے تھے

یہ سڑک صدیوں تک زائرین کے لیے ایک اہم راستہ بھی رہی ہے۔ بازنطینی دور میں مسیحی اسے بائبل میں مذکور مقدس مقامات کی زیارت کے لیے استعمال کرتے تھے، مثلاً یسوع کے مصلوب ہونے کا مقام گولگوتھا۔ اسی طرح ابتدائی اسلامی دور میں بہت سے مسلمان اسی راستے سے مکہ جاتے تھے۔

میں کئی سال تک اردن کے دارالحکومت امان میں رہی ہوں، لیکن جنوب کی طرف جانے کے لیے ہمیشہ تیز اور آسان راستے اختیار کیے۔ جب میری کزن مجھ سے ملنے آئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ملک کی طویل اور الجھی ہوئی تاریخ کو دریافت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کنگز ہائی وے کو اپنایا جائے اور اس راستے پر آہستہ آہستہ سفر کیا جائے جو اس قدیم سرزمین کو تشکیل دینے والی بہت سی تہذیبوں نے کبھی استعمال کیا تھا۔

قدیم سڑک کسی دور میں امان کی سب سے اونچی پہاڑی سے گزرتی تھی، جس پر کانسی کے دور سے قبضہ ہے۔ لہٰذا دارالحکومت چھوڑنے سے پہلے ہم ایک رومی ہیکل، ایک بازنطینی گرجا گھر اور ایک اموی محل کے کھنڈرات کے درمیان گھومتے رہے، جو اردن کے تہہ در تہہ تاریخی ورثے کو آشکار کرتے ہیں۔

اس کے بعد ہم نے 30 کلومیٹر تک جنوب میں قدیم شہر مدابہ تک سفر کیا اور زیتون کے باغات، پکے ہوئے انار اور کانٹے دار ناشپاتیوں کی قطاروں سے گزرے۔ اس علاقے میں چشمے اور پانی کے ذخیرے اور زرعی زمین ہے۔ ابودانا نے مجھ سے کہا کہ ’یہ اردن کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔‘

موزائک

،تصویر کا ذریعہYadid Levy/Alamy

،تصویر کا کیپشنسینٹ جارج آرتھوڈوکس چرچ میں موجود اس موزیک پر کنگز ہائی وے کے اطراف اہم مقامات کو دکھایا گیا ہے

مدابا بازنطینی دور کے موزیک کے مجموعے کے لیے مشہور ہے۔ ان میں سب سے مشہور سینٹ جارج آرتھوڈوکس چرچ میں واقع چھٹی صدی کی وہ موزیک باقیات ہیں جنھیں سر زمینِ مقدس کا سب سے پرانا باقی رہنے والا نقشہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نقشے میں کنگز ہائی وے پر واقع مختلف تاریخی مقامات کی نشاندہی موجود ہے۔ گرجا گھر کی قربان گاہ کے قریب میں نے نقشے کے وسط میں بیت المقدس یا یروشلم کی نشاندہی کرنے والے یونانی رسم الخط کو سمجھنے کی کوشش کی، اور دریائے اردن میں تیرنے والی مچھلیوں اور بحیرۂ مردار پر کشتیوں کی تفصیلات نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

مدابا سے نو کلومیٹر مغرب میں کنگز ہائی وے سے ایک چھوٹا سا چکر ہمیں کوہ نیبو کی طرف لے گیا، جہاں موسیٰ نے مبینہ طور پر پہلی بار ارض موعود کو دیکھا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات اور تدفین یہیں ہوئی تھی۔

پرانے عہد نامے میں ہے کہ موسیٰ نے ادوم کے بادشاہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے ملک سے گزرنا چاہتے ہیں۔ یہ علاقہ اب جنوب مغربی اردن میں شامل ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ’ہم اس وقت تک مرکزی سڑک پر چلتے رہیں گے جب تک کہ ہم آپ کے علاقے سے نکل نہیں جاتے۔‘ مگر کنگز ہائی پر سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب جدید سڑک کہیں زیادہ مسافر پرور ہے۔ مجھے درجنوں بار ’اردن میں خوش آمدید‘ کہا گیا، اور چائے سے تواضع کی گئی۔ اور راستے میں ملنے والے بہت سے مقامی لوگوں کی طرف سے دوپہر اور رات کے کھانے کی دعوت دی گئی۔

ہالینڈ کی ایک سیاح سبین ہینڈرکس نے اپنے ساتھی کے ساتھ کنگز ہائی وے پر سائیکل چلاتے ہوئے جنوب میں بحیرۂ احمر کی بندرگاہ عقبہ کی طرف جاتے ہوئے بتایا کہ ’یہاں کے لوگ بہت مہربان اور سخی ہیں: ’جب ہم ایک بہت مشکل چڑھائی پر سائیکل نہیں چلا سکے تو ایک ٹرک ہماری مدد کے لیے رک گیا۔ یہ پہلے سے ہی بھرا ہوا تھا، لیکن کسی طرح وہ ہمارے لیے جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘

کیراک قلعہ

،تصویر کا ذریعہMarta Vidal

،تصویر کا کیپشنکیراک کا قلعہ مشرق وسطیٰ میں صلیبیوں کا سب سے بڑا اور سب سے اچھی حالت میں ہے

ہم اپنی ٹانگوں کو آرام دینے کے لیے رکے تو سڑک کے کنارے واقع بیکری میں ایک نوجوان نے ہم سے کہا کہ ہم اس کے مہمان ہیں اور ہمیں مٹھائی اور کھجور کی بنی روٹی پیش کی۔ بھوک مٹانے کے بعد ہم نے سطح مرتفع پر قائم یونیسکو عالمی ورثے ام الارئیس کی جانب سفر شروع کیا۔ اگرچہ جب ہم وہاں پہنچے تو داخلے کا وقت ختم ہو گیا تھا مگر ایک مہربان گارڈ علاء نے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی، اور ساتھ ہی ہمیں گھمانے کی پیشکش بھی کی۔

کسی زمانے میں یہ رومیوں کا ایک فوجی علاقہ تھا۔ یہاں پر رومن، بازنطینی اور ابتدائی اسلامی ادوار کے کھنڈرات موجود ہیں۔ جب ہم آٹھویں صدی کے گرجا گھر کی (اسلامی حکمرانی کے دوران خانقاہی مسیحیت کو برداشت کیا گیا تھا) باقیات کی طرف جا رہے تھے تو علاء نے ہم سے اپنی آنکھیں بند کرنے کو کہا، اور ہمیں صرف اس وقت انہیں کھولنے کی اجازت دی جب ہم سائٹ کے مشہور موزیک کے سامنے تھے۔ میں وہاں گرجا گھر کے فرش پر بنے موزیک میں دکھائے گئے قدیم قصبوں اور انار کے درختوں کے نقش و نگار دیکھ کر حیران رہ گئی کہ 1200 برس گزرنے کے بعد بھی کس قدر واضح ہیں۔

ہم نے وادیوں اور پہاڑیوں میں بلوط، سائپرس اور چیڑ کے درختوں کے ساتھ سفر کیا، زمین کی خوبصورتی تیزی سے بنجر ہوتی جا رہی تھی۔ ہم وادئ مجیب پہنچ گئے جہاں ہم نے غروب آفتاب کا نظارہ کیا۔ اگلی صبح ہم نے کیرک شہر میں قرون وسطیٰ کے قلعے کو تلاش کیا۔ 1142 میں تعمیر کیا جانے والا یہ مشرق وسطی میں سب سے بڑا اور بہترین حالت میں موجود صلیبی قلعوں میں سے ایک ہے جس پر 1188 میں مسلمانوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ ایک مقامی گائیڈ فواد نے ہمیں قلعے کی بہت منزلیں دکھائیں۔ کچھ اتنی گہرائی میں تھیں کہ ہمیں روشنی کی ضرورت پیش آئی۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ ہم صلاح الدین ایوبی کا تصور کریں، وہ سلطان جس نے صلیبیوں کو شکست دی تھی، اور جو وہاں ایک تخت پر بیٹھا اس قدیم شاہراہ کے پس منظر میں اپنے لشکر کو لڑتے دیکھ رہا تھا۔

جنوب میں گھومتی ہوئی سڑک کے ساتھ ساتھ سفر جاری رکھتے ہوئے ہم اردن کے سب سے بڑے اور متنوع محفوظ علاقے، ڈانا بائیوسفیئر ریزرو، سے گزرے۔ 292 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا، گریٹ رِفٹ ویلی کا یہ پہاڑی علاقہ ریتیلے پتھر کی چٹانوں سے صحرائی میدانوں میں بدل جاتا ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ شوبک کے قرون وسطی کے قلعے کے قصبے کا دورہ کیا جائے۔ لیکن اس کے بجائے ہم محمد ’ابو علی‘ الملاہیم کے ساتھ کافی پینے کے لئے بنجر پہاڑیوں میں ایک سڑک پر رک گئے۔ جب یہ سابق ٹور گائیڈ ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ’دنیا کا سب سے چھوٹا ہوٹل‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایک تباہ شدہ ووکس ویگن بیٹل کو اپنی بیٹی کی کڑھائی سے سجایا۔ یہ اتنا مقبول ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم بھی اسے دیکھنے آ چکے ہیں۔

ابو علی کا ہوٹل

،تصویر کا ذریعہMarta Vidal

،تصویر کا کیپشنابو علی کا دنیا کا سب سے چھوٹا ہوٹل جسے دیکھنے اردن کے شاہ عبداللہ دوم بھی آ چکے ہیں

ابوعلی نے مجھے مقامی عورتوں کا بنایا ہوا رنگین موتیوں کا ہار تحفے میں دیا۔ ان کی سخاوت اور سڑک کے کنارے بنے ہوئے پیارے سے ہوٹل نے مجھے یاد دلایا کہ اگرچہ کنگز ہائی وے نے ایک بڑے تجارتی راستے کے طور پر اپنی اہمیت کھو دی ہے، لیکن یہ لوگ ہیں جن سے آپ ملتے ہیں اور راستے میں آپ کے تجربات ہوتے ہیں جو اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایک جان بوجھ کر سست، دو دن پر محیط، اور 250 کلومیٹر طویل سڑک کے سفر کے بعد ہم اپنی آخری منزل پر پہنچ گئے: پیٹرا، جسے دنیا کے سات نئے عجائبات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ بنجر ریگستان میں سرخ ریت کے پتھر سے تراشے گئے قدیم نباتین شہر کی شان و شوکت کا مقابلہ بہت کم جگہیں کر سکتی ہیں۔ پیٹرا کبھی سلطنتوں اور قدیم تجارتی راستوں کے چوراہے پر ایک عظیم تجارتی شہر تھا، اور نباتائی کارواں کے استعمال میں رہنے والی یہ سڑک، جس نے اس خطے کو خوشحال بنایا تھا، اب دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے جو اس مقام کے 2000 سال سے زیادہ پرانے مندروں، قبروں اور قربان گاہوں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

اس دن ہم پیٹرا کے باہر ایک سڑک پر ایک عورت کو لفٹ دینے کے لیے رکے جو سارا دن آثار قدیمہ کے نمونے بیچنے کے بعد  گھر جا رہی تھی۔ انھوں نے اپنا تعارف امِ خالد کے نام سے کروایا اور تھکا ہونے کے باوجود ہمیں قریبی گاؤں میں واقع اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔

پیٹرا

،تصویر کا ذریعہJan Wlodarczyk/Alamy

،تصویر کا کیپشنکنگز ہائی وے نے پیٹرا کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا۔

اس علاقے کے زیادہ تر بدو قبائل اب بھی نباتین راستوں پر انحصار کرتے ہیں۔ امِ خالد نے، جن کا تعلق عمارین قبیلے سے ہے، مجھے بتایا کہ جب وبا کے دوران سڑکیں زائرین سے خالی ہو گئی تھیں، تو ان کا گزر بسر مشکل ہو گیا تھا۔ انھوں نے مجھے چائے کے لیے واپس آنے پر اصرار کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح  مشکلات کے باوجود وہ اور بہت سے دوسرے لوگ صحرا کو مہمان نواز جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ان سے دوبارہ ملنے کے وعدے کے ساتھ امان واپس جاتے ہوئے میں نے وادئ مجیب میں دیکھے سیاہ و سفید پرندے کے بارے میں سوچا کہ کس طرح پوری تاریخ میں یہاں کے لوگ ان چٹانوں سے غیر معمولی یادگاریں تراشنے اور اس بنجر زمین کو دلکش بنانے میں  کامیاب رہے ہیں۔ کنگز ہائی وے پر نہ صرف اردن کی تاریخ کے سب سے اہم مراحل کا پتا چلتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے دشوار گزار جگہوں میں بھی خوبصورتی، رحم دلی اور سخاوت تلاش کرنے کا حیرت انگیز امکان موجود ہے۔