کرسٹیانو رونالڈو کے سعودی عرب آنے سے کیا کچھ بدل سکتا ہے؟

کرسٹیانو رونالڈو

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, محمد امین
  • عہدہ, کھیل صحافی، بی بی سی ہندی کے لیے

پرتگال کے معروف فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے اپنے کریئر کے آخری مرحلے میں مشرق وسطیٰ کی راہ لی ہے اور یہ ان کے لیے کسی جیک پاٹ سے کم نہیں۔

رونالڈو کا سعودی عرب کے فٹبال کلب النصر کے ساتھ سالانہ 200 ملین یورو کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے نے انھیں فٹبال کی تاریخ کا سب سے زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والا کھلاڑی بنا دیا ہے۔

37 سال کی عمر میں پروفیشنل فٹبال میں کھلاڑیوں کی قدر کم ہونے لگتی ہے لیکن کرسٹیانو رونالڈو کو اپنی برانڈ ویلیو کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا بھی جانتے ہیں۔

قطر میں کھیلے گئے فیفا ورلڈ کپ کے میچز میں وہ اپنی ٹیم کے لیے زیادہ موثر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے لیکن اس کے باوجود انھوں نے مہنگی ترین ڈیل کر ڈالی ہے۔

درحقیقت سعودی عرب کے فٹبال کلب کے ساتھ رونالڈو کے معاہدے کو بڑے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ مشرق وسطیٰ کے کھیلوں کے تجزیہ کاروں کے مطابق اس ڈیل نے دنیا کے معروف فٹبال کھلاڑیوں کے لیے سعودی عرب اور قطر جیسے مشرق وسطیٰ کے ممالک کا راستہ کھول دیا ہے۔

ان ممالک کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے اور وہ ان بڑے کھلاڑیوں پر اپنا پیسہ لٹانے کی حکمت عملی پر کام کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

ورنہ کب کس نے سوچا ہوگا کہ مانچسٹر یونائیٹڈ، ریال میڈرڈ اور یووینٹس جیسے کلبوں کے لیے کھیلنے والے رونالڈو فٹبال کو الوداع کہنے سے پہلے سعودی عرب اور قطر چلے جائیں گے۔

سنہ 1970 کی دہائی میں سعودی عرب اسی طرح دنیا بھر سے آئل انجینئرز اور بلیو کالر پروفیشنل ورکرز کو راغب کر رہا تھا۔

اس وقت خلیجی ممالک میں فٹبال اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا لیکن اس وقت بھی سعودی عرب کے الہلال کلب نے دنیا بھر کے فٹبال شائقین کو حیران کر دیا تھا۔

ریویلینو

،تصویر کا ذریعہCOURTESY OF SANTOS FC

1970 کے عالمی چیمپئن ریولینو نے آغاز کیا

1970 میں برازیل کی ٹیم تیسری بار عالمی چیمپئن بنی۔ معروف کھلاڑی پیلے کے ساتھ اس ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے ریولینو نے اپنے 16 سالہ طویل کریئر کے بعد سعودی عرب کے الہلال کلب کو جوائن کیا تھا۔

میکسیکو میں ورلڈ کپ جیتنے والی برازیلین ٹیم کو ڈریم ٹیم کہا جاتا ہے۔ ریولینو، جو اس ٹیم کے سٹار تھے انھوں نے سنہ 1978 میں الہلال کے ساتھ تین سال کا معاہدہ کیا۔

برازیل کی ٹیم میں اٹیکنگ مڈفیلڈر کے طور پر کھیلنے والے ریولینو کو اس وقت روکنا مشکل تھا جب وہ اپنے بائیں پاؤں سے اینگل بنا کر شاٹس کھیلتے تھے۔ وہ خلیجی ممالک میں بھی بہت کامیاب رہے۔

انھوں نے اپنی ٹیم کے لیے سعودی پروفیشنل لیگ کا ٹائٹل بھی جیتا اور مجموعی طور پر 39 گول سکور کیے۔ تو ظاہر ہے کہ رونالڈو کو جس پرکشش پیشکش نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے اس نے ان سے پہلے بھی کئی کھلاڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

جب میں خود مئی سنہ 2012 میں انڈیا سے قطر شفٹ ہوا تو اسی وقت قطر کے مقبول ترین کلب السعد نے راؤل گونزالیز کو سائن کیا۔ راؤل ہسپانوی فٹبال کی تاریخ کے مشہور ترین کھلاڑیوں میں سے ایک رہے ہیں۔

راؤل کی وجہ سے فٹبال اچانک قطر میں مزید توجہ کا مرکز بن گيا اور صرف ایک دہائی بعد قطر نے ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک توجہ مبذول کرانے کے لیے ایسے معاہدے کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک نہ صرف کھیلوں کی سہولیات کو بہتر بنا رہے ہیں بلکہ اپنے کلبوں میں ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کو سائن کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد کیے جا رہے ہیں۔

جب سعودی عرب میں تیل کے ذخائر پائے گئے تو اس وقت مشرق وسطیٰ کا یہ ملک دولت سے مالامال سمجھا جانے لگا لیکن جب قطر نے اپنے شمال مشرقی علاقے میں قدرتی گیس کے ذخائر دریافت کیے تو اس کی دولت میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

اس کے بعد وہ یورپ اور انڈیا جیسے ممالک کو ایل این جی گیس بیچ کر دنیا کی معاشی طاقتوں میں شامل ہو گیا۔ قطر کے موجودہ حکمران امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی خود بھی فٹبال کے شوقین ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قطر نے فرانسیسی کلب پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) کی ملکیت حاصل کر لی ہے، جس میں جدید فٹبال کے لیجنڈز لیونل میسی، نیمار اور کائیلین ایمباپے کھیلتے ہیں۔

سعودی پرنس ایم بی ایس فیفا کے صدر کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سعودی شہزادے ایم بی ایس فیفا کے صدر کے ساتھ

کتنا فائدہ ہوگا؟

دوسری جانب پانچ بار کے ’بیلن ڈی اور‘ جیتنے والے کرسٹیانو رونالڈو نے معیار پر پیسے کو ترجیح دی ہے۔ انھوں نے بھاری رقوم کے سامنے یورپ کے بہترین کلبوں کی پیشکش ٹھکرائی ہے۔ یقیناً وہ سعودی عرب کی فٹبال کی تاریخ میں ایک روشن ستارے کے طور پر رونما ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی وابستگی سے سعودی فٹبال یا خطے کی فٹبال کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

ان سے پہلے سنہ 1994 کے ورلڈ چیمپیئن روماریو اور برازیل کے بیبیٹو کی جوڑی بھی کافی رقم لے کر سعودی عرب پہنچی تھی لیکن وہ وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرے۔ لیکن ان کی موجودگی سے کوئی نہ کوئی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے۔

جب بڑے کھلاڑی کلب میں شامل ہوتے ہیں تو برانڈنگ اور اشتہار بازی کا کھیل بڑا ہو جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے کلبز بھی بڑے کھلاڑیوں سے معاہدہ کر کے مغربی ممالک کے ساتھ کاروباری نیٹ ورک بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک برانڈ کے طور پر دیکھیں تو کرسٹیانو رونالڈو النصر کلب سے زیادہ بڑے برانڈ ہیں، کلب ان کے آنے کے بعد ہی سرخیوں میں آیا ہے۔ جس طرح نیمار سنہ 2017 میں بارسلونا سے پی ایس جی چلے گئے یا میسی نے گذشتہ سیزن پی ایس جی کو جوائن کیا، ان سب نے قطر کی برانڈنگ کو مضبوط کیا، اسی طرح رونالڈو کا سعودی عرب کے کلب میں جانا سعودی عرب کی برانڈنگ کو مضبوط کرے گا۔

درحقیقت تجارتی نقطہ نظر سے خلیجی ممالک کی دلچسپی اب پیٹرولیم کے کنوؤں سے دوسری چیزوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور وہ یورپی فٹبال مارکیٹ کو بھی سرمایہ کاری کے لیے موزوں سمجھ رہے ہیں۔ قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے گذشتہ 14 سالوں میں یورپی فٹبال میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ابوظہبی کے شاہی خاندان نے مانچسٹر سٹی کو سنہ 2008 میں خریدا تھا۔

تین سال بعد سنہ 2011 میں قطر نے فرانسیسی کلب پی ایس جی کو خرید لیا۔ 2021 میں، سعودی عرب کی زیرقیادت ایک کنسورشیم نے پریمیئر لیگ کلب نیو کاسل یونائیٹڈ کو 300 ملین پاؤنڈ سے زیادہ میں خریدا۔ سعودی عرب کے عبداللہ بن موساد بن عبدالعزیز آل سعود نے سنہ 2013 میں انگلش فٹبال لیگ چیمپئن شپ کلب شیفیلڈ یونائیٹڈ کو خریدا تھا۔

رونالڈو اور میسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

رونالڈو اور میسی

خلیجی ممالک کی نظریں فٹبال پر کیوں ہیں؟

دراصل دنیا بھر میں جس طرح الیکٹرک گاڑیاں بڑھ رہی ہیں، ایسے میں خلیجی ممالک کو بھی احساس ہے کہ صرف پیٹرولیم پر مبنی معیشت ہی پائیدار معیشت نہیں رہ سکتی۔

حال ہی میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات فٹبال میں اپنی بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ان ممالک نے پی ایس جی، مانچسٹر سٹی اور نیو کاسل یونائیٹڈ جیسے کلبوں کو مالی مشکلات سے باہر آنے اور یورپی فٹبال سرکٹ میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی ملکیت مانچسٹر سٹی اور قطر کی ملکیت والی پی ایس جی نے گذشتہ ایک دہائی میں اپنے درمیان ایک درجن سے زیادہ ٹائٹل جیتے ہیں۔

خلیجی ممالک میں یورپی فٹبال میں سرمایہ کاری کی ایک بڑی وجہ اس مارکیٹ کی تیز رفتار ترقی ہے۔ کووڈ کے پھیلاؤ سے پہلے یورپ کے 32 ٹاپ کلب 2019 میں نو فیصد کی شرح سے ترقی کر رہے تھے۔

آٹھ سالوں میں ان کلبوں کی آمدنی میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک کو سماجی اور اقتصادی طور پر دیگر فوائد بھی حاصل ہیں۔ یورپی فٹبال کلبوں کی خریداری سے خلیجی ممالک کی شہری ہوابازی اور سیاحت کی صنعت کو فائدہ پہنچا ہے۔

مانچسٹر سٹی میں یو اے ای کی سرمایہ کاری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مانچسٹر سٹی میں یو اے ای کی سرمایہ کاری

خلیجی ممالک کے لیے کھیلنے والے فٹبال سٹارز

1998 میں النصر نے بلغاریہ کے سب سے اہم کھلاڑی ہرسیٹو سٹوئچکوو سے معاہدہ کیا۔ اگرچہ وہ وہاں زیادہ دیر تک نہیں رک سکے لیکن اس سیزن میں سٹوئچکوو نے سعودی عرب کو ایشین چیمپئن بنایا۔

1994 کی عالمی چیمپئن ٹیم کے رکن، بیبیٹو نے سنہ 2002 میں ریٹائر ہونے سے قبل صرف پانچ میچ کھیلے اور ان میچوں میں صرف ایک گول کیا۔

بیبیٹو کے ساتھ برازیل کو عالمی چیمپئن بنانے والے روماریو نے سنہ 2003 میں قطر کے ٹاپ کلب السد کے ساتھ 1.5 ملین ڈالر میں 100 دن کا معاہدہ کیا۔ تاہم وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے اور تین میچوں میں ایک بھی گول نہ کر سکے۔

ارجنٹائن کے سٹرائیکر گیبریل بٹیسٹوٹا نے بھی قطر کے العربی کلب کے لیے دو سیزن کھیلے۔

2007 میں برازیلین سٹار ڈینیئلسن بھی النصر کے پاس پہنچے، وہ اس وقت سب سے مہنگے کھلاڑی تصور کیے جاتے تھے لیکن وہ صرف دو ماہ تک کلب کے ساتھ رہے۔

جارج ویہا سنہ 1995 کے بیلن ڈی آر کے فاتح اور اس وقت لائبیریا کے صدر ہیں۔ وہ ابوظہبی کے الجزیرہ کلب میں 2001 اور 2003 کے درمیان دو سیزن کے لیے شامل ہوئے۔ جب کہ فیبیئو کونوارو جو 2006 کی عالمی چیمپئن اٹلی ٹیم کا حصہ تھے، نے 2011 میں دبئی کے الاحلی کلب کو جوائن کیا تھا۔

2003-04 میں کئی غیر ملکی کھلاڑی قطر کے مختلف کلبوں سے منسلک تھے جن میں اسپین کے سابق کپتان فرنینڈو ہیرو بھی شامل تھے۔ اسی طرح سنہ 2015 میں قطر کے السد کلب نے 2010 کے ورلڈ چیمپئن اور بارسلونا کے سٹار جیوی ہرنینڈز سے معاہدہ کیا۔