پاکستانی بہو سے 12 سال جبری مشقت کروانے پر امریکی خاندان جیل میں

ملزمان

،تصویر کا ذریعہChesterfield County Sheriff's Office

،تصویر کا کیپشندائیں سے بائیں: محمد نعمان چوہدری (دس سال قید کی سزا)، زاہدہ امان (12 سال قید کی سزا)، اور محمد ریحان چوہدری (پانچ سال قید کی سزا)

امریکہ کی ایک عدالت نے ایک ہی خاندان کے تین افراد کو ایک پاکستانی خاتون سے 12 سال تک جبری مشقت کروانے کے جرم میں قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ 

امریکی محکمہ انصاف کے ایک اعلامیے کے مطابق 80 سالہ زاہدہ امان نے مذکورہ خاتون سے اپنے بیٹے کی شادی 2002 میں کروائی مگر جب خاتون کے شوہر گھر سے چلے گئے تب بھی ان کے خاندان نے مذکورہ خاتون کو ورجینیا میں گھر پر رکھا اور خاندان کے دیگر افراد کی خدمت کروائی۔ 

محکمہ انصاف کے مطابق جبری مشقت کا یہ سلسلہ اگلے 12 برس تک جاری رہا اور چونکہ مذکورہ خاتون کے پاس امریکہ میں عارضی رہائش کا اجازت نامہ تھا، اس لیے اُنھیں ڈی پورٹ کروانے کی دھمکی بھی دی جاتی رہی۔ 

اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کرسٹین کلارک نے کہا کہ ’ملزمان نے متاثرہ فریق کی کمزوریوں کا بھرپور استحصال کیا اور جسمانی و جذباتی تشدد کے ذریعے ان سے ظالمانہ طور پر مشقت کروائی۔‘ 

اس مقدمے کا ٹرائل مئی 2022 میں سات روز تک جاری رہا تھا۔ 

جیوری کی جانب سے ملزمان کو قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد زاہدہ امان کو 144 ماہ (12 سال)، اور ان کے بیٹوں 48 سالہ محمد ریحان چوہدری اور 55 سالہ محمد نعمان چوہدری کو بالترتیب 120 ماہ (دس سال) اور 60 ماہ (5 سال) کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

محکمہ انصاف کے مطابق مجرمان کو یہ سزائیں وفاقی جیلوں میں کاٹنی ہوں گی۔ اس کے علاوہ عدالت نے زاہدہ امان اور ریحان چوہدری کو حکم دیا ہے کہ وہ متاثرہ خاتون کو ڈھائی لاکھ ڈالر کا ہرجانہ بھی ادا کریں۔ 

قانون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عدالت میں پیش کیے گئے ثبوتوں کے مطابق ملزمان نے خاتون سے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کروایا، ان پر جسمانی اور زبانی تشدد کیا اور اُنھیں پاکستان میں اپنے خاندان سے بات نہ کرنے دی جاتی۔ 

اس کے علاوہ مذکورہ خاندان نے ان کی امیگریشن دستاویزات اور پیسے بھی ہتھیا لیے اور دھمکی دی کہ اُنھیں پاکستان ڈی پورٹ کروا کر اُنھیں ان کے بچوں سے جدا کر دیا جائے گا۔ 

یہ بھی پڑھیے

محکمہ انصاف کے مطابق ملزمان نے خاتون کو وقتاً فوقتاً تھپڑ اور لاتیں رسید کیں، دھکے دیے، لکڑی کے تختے سے پیٹا اور ایک موقع پر اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُنھیں ان کے بچوں کے سامنے سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ متاثرہ خاتون ملزمان کے گھر میں ملازمت کرنے پر مجبور رہیں۔ 

اس کے علاوہ یہ ثبوت بھی پیش کیے گئے کہ یہ افراد خاتون سے روز کام کرواتے جس کی شروعات صبح سویرے ہو جاتی۔ ان کے کھانے پینے پر، ڈرائیونگ سیکھنے پر اور گھر کے لوگوں کے علاوہ کسی اور سے بات کرنے پر پابندی تھی۔ اس کے علاوہ اُنھیں پاکستان میں اپنے خاندان سے بھی بات نہ کرنے دی جاتی۔

محکمہ انصاف کے مطابق خاتون سے بے انتہا مشقت طلب کام کروائے جاتے جن میں ایک ایکڑ پر مبنی باغ کی گھاس تراشنا، قالینوں کو ہاتھ سے دھونا اور سکھانا، دو منزلہ گھر کو اندر و باہر سے پینٹ کرنا، گاڑی کے قالین سے چمٹے کے ذریعے کچرا چننا اور گھر کے سامنے کنکریٹ کی ایک راہداری بنانا شامل ہے جس کے لیے خاتون کو 80 پاؤنڈ وزنی کنکریٹ کے تھیلے گھسیٹنے پڑتے جس کے بعد وہ انھیں مکس کر کے سیمنٹ بچھاتیں۔ 

ایف بی آئی کے رچمنڈ فیلڈ آفس میں سپیشل ایجنٹ انچارج سٹینلے ایم میڈور نے عوام سے کہا کہ اگر اُنھیں ایسے کسی بھی استحصال کے بارے میں علم ہے یا شک ہے تو وہ فوراً حکام کو اس کی اطلاع دیں۔ 

وکیلِ استغاثہ جیسیکا ڈی ایبر نے ملزمان کو قصوروار پائے جانے کے موقع پر جبری مشقت کو ’دورِ جدید کی غلامی‘ قرار دیتے ہویے کہا تھا کہ اس کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔