بلاول بھٹو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا جائیں گے

بلاول
  • مصنف, نیاز فاروقی اور شہزاد ملک
  • عہدہ, بی بی سی اردو

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو آئندہ ماہ انڈیا میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

واضح رہے کہ یہ اجلاس چار اور پانچ مئی کو انڈیا کے شہر گوا میں منعقد ہو رہا ہے جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ کریں گے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’اس اجلاس میں پاکستان کی شرکت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور کام کے بارے میں پاکستان کے عزم اور اس اہمیت کی عکاسی کرتی ہے جو پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں خطے کو دیتا ہے‘۔

یہ کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا 12 برس کے وقفے کے بعد انڈیا کا پہلا دورہ ہو گا۔ اس سے قبل سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سنہ 2011 میں انڈیا گئی تھیں۔ 

خیال رہے کہ سنہ 2014 کے بعد کوئی بھی پاکستانی رہنما انڈیا کے سرکاری دورے پر نہیں گیا۔ 2014 میں نواز شریف بطور وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

بلاول بھٹو کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت انڈیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جنوری میں دی گئی تھی۔

پاکستان اور انڈیا سنہ 2017 سے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے مستقل رکن ہیں۔ ماہرین کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم میں ممبر ممالک کو شرکت کی دعوت دینا میزبان ملک کے فرائض میں شامل ہوتا ہے اس لیے پاکستان کو اس میں شرکت کی دعوت دینا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔

ایم ایم اے جے اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پروفیسر اجے درشن بہیرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کی ذمہ داری ہے کہ ایس سی او جیسے کثیر جہتی فورم میں بطور میزبان وہ سب کو مدعو کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے وزیر خارجہ کو مدعو نہ کر یں کیونکہ ہمارے درمیان اختلافات ہیں۔‘

اس سے قبل سنہ 2022 میں سمرقند میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شہباز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہو گی تاہم ایسا نہیں ہوا تھا۔

رواں برس متحدہ عرب امارات کے موقع پر وزیرِاعظم شہباز شریف نے العربیہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے اپنے تمام مسائل حل کرنے چاہییں۔ 

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کشمیر کے متنازع خطے سمیت دیگر تمام معاملات پر مذاکرات کرنے چاہییں۔ 

ان کا کہنا تھا ’انڈین قیادت اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کو میرا پیغام ہے کہ آئیں میز پر بیٹھیں اور ہمارے درمیان موجود سنگین تنازعات مثلاً کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات کریں۔‘ 

تاہم وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دفتر نے اس انٹرویو کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مذاکرات صرف تب ہو سکتے ہیں جب انڈیا اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے جو اگست 2019 میں ختم کر دی گئی تھی۔  

دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں سے جاری تناؤ کے بعد پاکستان کی جانب سے بات چیت کی اس پیشکش کو مثبت انداز میں دیکھا گیا۔ 

’یہ بیک چینل بات چیت کا اشارہ نہیں‘

مودی

،تصویر کا ذریعہEPA

پروفیسر رادھا کمار، جو کہ 2010 میں کشمیر میں مرکزی حکومت کے مذاکرات کاروں میں سے ایک تھیں، کہتی ہیں کہ ایس سی او اجلاس کے لیے پاکستان کو انڈیا کی دعوت کو ایک معمول کے اقدام کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ محض ایک دعوت نامے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ لوگ شاید اسے دونوں ممالک کے درمیان بیک چینل بات چیت کے اشارے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ’میرے خیال میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا بیک چینل پر بات چیت چل رہی ہے مگر موجودہ حکومت اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک نارمل نتیجہ اخذ کرنا تھوڑا مشکل ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں کہوں گی کہ تھوڑی دیر اور انتظار کریں۔ اس دعوت سے فی الحال کوئی نتیجہ اخذ نہ کریں۔‘

اگرچہ مبصرین کا کہنا ہے کہ پوری وضاحت کے لیے مزید انتظار کرنے کی ضرورت ہے لیکن انڈیا کے معروف انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اگر پاکستان تعلقات میں بہتری کے لیے آگے آتا ہے تو انڈیا کو بھی ہاتھ بڑھانا چاہیے۔

’اگر واقعی اسلام آباد کی طرف سے ایس سی او کی دعوت قبول کی جاتی ہے یا دونوں دارالحکومتوں میں مشنز، جہاں 2019 سے سفیر نہیں ہیں، کو بحال کرنے کی تجویز کے ساتھ پاکستان آگے آتا ہے تو یہ امید کی جائے گی کہ نئی دہلی اس کا مثبت جواب دے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایک ایسے وقت میں جب انڈین حکومت روس اور یوکرین کو ’مذاکرات اور سفارت کاری‘ کے مشورے دے رہی ہے اور طالبان سے ’عملیت پسندی‘ کے ساتھ بات کرنے پر زور دے رہی ہے تو ایسے موقع پر علاقائی استحکام کو بڑھانے کے خاطر اقدامات نہ لینا تھوڑا متضاد نظر آئے گا، وہ بھی ایک ایسے سال میں جب کہ ایک ’سٹیٹس مین‘ کے طور پر انڈیا کے کردار کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔‘

’اگر دعوت ملے تو انڈیا جانا چاہیے‘

انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر کہا کہ انھیں ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے باوجود پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کوئی بہتری آئے گی تاوقتکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان کوئی دوطرفہ ملاقات نہیں ہوتی۔

عبدالباسط کا کہنا  تھا کہ پاکستان کو اس تنظیم کے اجلاس میں انڈیا جانا چاہیے۔ 

رواں برس جنوری میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کے وزیر اعظم کو ’گجرات کا قصائی‘ قرار دیا تھا اور اس بیان پر انڈیا اور بلخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی میں شدید غم وغصہ پایا گیا تھا اور انڈیا نے باضابطہ طور پر اس بیان کی شدید مذمت کی تھی۔

یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایجنڈے میں ہے کہ اس تنظیم کے اجلاس میں باہمی تنازعات کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہMinistry of External Affairs, India

،تصویر کا کیپشنجب پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انھیں جلد صحتیابی کا پیغام بھیجا

انڈیا، پاکستان: تنازعات، تلخیاں اور گرمجوشی

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک طویل عرصے سے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں تاہم دونوں کے درمیان کبھی کبھی سرد مہری میں کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ 

فروری 2019 میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر انڈین فوج کے ایک قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں لگ بھگ 40 انڈین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ 

اس حملے کے بعد انڈیا کی جانب سے جوابی طور پر پاکستان کے شہر بالاکوٹ کے قریب ایک فضائی حملہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اس نے ’سرجیکل سٹرائیک‘ کرتے ہوئے ’دہشتگردوں‘ کے ٹھکانے تباہ کر دیے ہیں۔ تاہم اگلے ہی دن پاکستانی فضائیہ نے جوابی کارروائی کے دوران انڈین فضائیہ کا ایک طیارہ مار گرایا تھا۔

انڈیا کے ایک پائلٹ ابھینندن ورتمان بھی اپنا جہاز کریش ہونے کے بعد پاکستانی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے جنھیں کچھ ہی دن میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پلوامہ حملہ اور اس کے بعد انڈین پائلٹ کی گرفتاری نے پہلے سے تلخ تعلقات کو مزید خراب کیا تھا۔

اس کے بعد پانچ اگست 2019 کو انڈیا نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا جس کی پاکستان کی جانب سے شدید مذمت کی گئی اور اس اقدام کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

یوں جہاں فروری 2019 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات عسکری اعتبار سے کشیدہ تھے تو اگست 2019 اور اس کے بعد یہ تعلقات سفارتی اعتبار سے بھی کشیدہ ہو گئے۔ 

لیکن 2021 میں دونوں ممالک کے فوجی حکام کے مابین ایک غیر معمولی ملاقات میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سنہ 2003 میں فائر بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اسی سال مارچ کے وسط میں پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 'پُرامن طریقے' سے ماضی کے تنازعات کو دفن کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بات کی۔

اس کے بعد جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انھیں جلد صحتیابی کا پیغام بھیجا۔

سنہ 2020 میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی والدہ کی وفات پر نریندر مودی کی جانب سے اُنھیں تعزیتی خط لکھا گیا جبکہ دسمبر 2022 میں نریندر مودی کی والدہ کی وفات کے موقع پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اُنھیں تعزیتی پیغام بھیجا گیا تھا۔ 

پاکستان میں گذشتہ سال آنے والے سیلاب کے بعد بھی انڈین وزیرِ اعظم کی جانب سے ہمدردی کا پیغام بھیجا گیا تھا۔