پورے پاکستان میں بجلی کیوں چلی جاتی ہے اور بحالی میں اتنا وقت کیوں لگ جاتا ہے؟

بجلی

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, عزیزاللہ خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو، پشاور

پاکستان بھر میں پیر کے روز بجلی کی ترسیل میں طویل تعطل کے بعد کئی علاقوں میں بجلی کی مکمل بحالی رات گئے تک ہی ہو سکی جبکہ کراچی سمیت کچھ جگہوں سے یہ بھی شکایات آتی رہیں کہ بجلی دوبارہ چلی گئی ہے جو کئی گھنٹوں بعد بحال ہوئی۔ 

بجلی کے اس تعطل پر پاکستان میں لوگوں نے بڑے بجلی گھروں کے کام کی نوعیت اور یہ سب نظام کیسے چلتا ہے اس بارے میں مختلف بھاری بھرکم نام سنے لیکن شاید بڑی تعداد میں لوگ اس نظام اور اس کی بحالی کے طریقہ کار سے ناواقف ہوں گے۔ 

ہم آپ کو کچھ ماہرین سے گفتگو کے ذریعے یہ بتائیں گے کہ بجلی کی ترسیل میں یہ تعطل کیسے پیدا ہوا اور اس کی بحالی میں کیوں اتنا وقت درکار ہوتا ہے۔

یہ فریکوئنسی فلکچویشن یا کمی بیشی کیا ہوتی ہے؟

خیبر پختونخوا میں سینیئر انجینیئر اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے پہلے چیف ایگزیکٹو یونس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بنیادی طور پر پاکستان میں 50 ہرٹز کی فریکوئنسی استعمال ہوتی ہے، اگر بجلی کی سپلائی 50 اعشاریہ آٹھ سے اوپر ہوتی ہے تو پھر سسٹم ٹرپ کرجاتا ہے یعنی وہ بند ہوجاتا ہے اور اگر بجلی کی ترسیل 50 سے کم یعنی 49 پر آتی ہے تب بھی وہ گرڈ یا سسٹم ٹرپ کر جاتا ہے۔ 

اُنھوں نے بتایا کہ حالیہ بریک ڈاؤن میں بجلی کی فریکوئنسی کم ہو گئی تھی اور جب ایک فیڈر یا گرڈ بند ہوتا ہے، کام چھوڑ دیتا ہے اور اس کے فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں تو اس کا سارا بوجھ دوسرے فیڈر یا گرڈ پر منتقل ہوجاتا ہے، اگر وہ فیڈر یا گرڈ یہ بوجھ برداشت کر لیتا ہے تو ٹھیک نہیں تو وہ بھی بند ہو جائے گا۔

اس کی مثال یوں لیجیے کہ جیسے آپ کے گھر میں بجلی کا ایک نظام موجود ہے اور اس کا ایک مین بورڈ لگا ہوتا ہے۔ اگر کہیں شارٹ سرکٹ ہوتا ہے اور دو مثبت تاریں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں تو گھر میں کہا جاتا ہے کہ فیوز اڑ گیا ہے اور بورڈ میں اس کا بٹن خود کار طریقے سے ٹرپ کر جاتا ہے یا بند ہو جاتا ہے۔

بجلی

،تصویر کا ذریعہEPA

اب یہ بجلی کہاں سے آتی ہے اور کیسے کم ہو جاتی ہے اس بارے میں یونس خان نے بتایا کہ بجلی بنیادی طور پر بجلی گھروں سے آتی ہے جیسے تربیلا، منگلا، وارسک اور دیگر ڈیم بجلی پیدا کرتے ہیں اور یہ 500 کے وی کے تحت پاکستان کے بڑے  گرڈ سٹیشنز کو بجلی فراہم کرتے ہیں جہاں سے بجلی کو 11 کے وی لائن پر منتقل کر دیا جاتا ہے جو پھر صنعتوں، گھروں اور دیگر صارفین کو فراہم کی جاتی ہے۔ 

آپ نے اکثر سنا اور دیکھا ہو گا کہ بجلی کے بڑے کھمبوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہائی وولٹیج کی تاریں ہیں، ان سے دور رہو، یہ 11 کے وی کی لائن ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بجلی کی ترسیل میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو بجلی کی فریکوئنسی کم یا زیادہ ہو جاتی ہے جس کا اثر پھر گرڈ سٹیشنز پر پڑتا ہے۔

گرڈ سٹیشنز کو کیسے آن یا آف کیا جاتا ہے؟

اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان گرڈ سٹیشنز میں حفاظتی رِیلے لگے ہوتے ہیں۔ یہ رِیلے خود کار طریقے سے  بھی کام کرتے ہیں اور انھیں ڈیوٹی پر مامور اہلکار بھی بند یا آن کر سکتے ہیں۔ اب جب بجلی کی ترسیل یا فراوانی میں کوئی اتار چڑھاؤ یا کمی بیشی ہوتی ہے یعنی فلکچویشن ہوتی ہے تو اس کا اثر گرڈ سٹیشنز پر پڑتا ہے اور پھر وہ بند ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں 8 بڑے گرڈ سٹیشنز ہیں جن میں ایک پشاور، ایک صوبہ سندھ، ایک بلوچستان اور پانچ گرڈ سٹیشنز صوبہ پنجاب میں واقع ہیں۔ یونس خان نے بتایا کہ ان گرڈ سٹیشنز پر جب بوجھ بڑھتا ہے تو یہ اپنی کیپیسٹی یا استطاعت کے مطابق برداشت کرتے ہیں لیکن اگر برداشت نہیں کر پاتے تو یا تو خود بند ہو جاتے ہیں اور یا انھیں اہلکار بند کر دیتے ہیں۔

نیشنل گرڈ کے ساتھ کام کرنے والے واپڈا کے ایک انجینیئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں تمام گرڈ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور ایک کا لوڈ دوسرے گرڈ پر منتقل ہوجاتا ہے اور یوں سارا نظام مکمل بند ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس کا بیک اپ کا کوئی نظام نہیں ہوتا کیونکہ اس کو دوبارہ چلانے کے لیے بجلی درکار ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بجلی کی ترسیل میں بجلی کی فریکوئنسی نیچے آگئی تھی جس وجہ سے نیشنل گرڈ ٹرپ کرنے لگے تھے اور وہ لوڈ برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔

بجلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بجلی کی بحالی میں کیوں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے؟

بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ یا تعطل سے اگر سارے آٹھ گرڈ سٹیشن بند ہو جاتے ہیں تو انھیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے پھر سے بجلی گھروں کو چلانا پڑتا ہے اور اس کے لیے ان کی پیداواری صورتحال دیکھنی پڑتی ہے۔ 

یونس خان نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ شمال سے جنوب یا جنوب سے شمال کی جانب بحالی ہوتی ہے بلکہ چونکہ ہائیڈل پاور جنریشن خیبر پختونخوا یا شمالی علاقوں میں ہوتی ہے جیسے تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم، وارسک ڈیم تو پھر انھیں پہلے چلایا جاتا ہے۔ حالیہ بریک ڈاؤن کے بعد پہلے وارسک کے بجلی گھر کو چلایا کیا گیا جس کی ان دنوں سردیوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہے۔ وارسک پاور جنریشن پلانٹ کو چلا کر اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں بجلی کی ترسیل شروع کی گئی اور اس طرح پھر دوسرے اور تیسرے بجلی گھروں کو چلایا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں نوکلیئر پاور پلانٹ چلائے جاتے ہیں جو کراچی، چشمہ اور دیگر علاقوں میں قائم ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دنیا سے یکسر مختلف نظام ہے جہاں چترال سے کراچی تک سارا نظام آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے اگر کہیں کوئی نقص ہوتا ہے تو اس سے دوسرے فیڈر یا گرڈ سٹیشنز بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ 

ان سے جب پوچھا گیا کہ بجلی کا بیک اپ کا نظام ہے یا نہیں، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر بجلی کی کل پیداوار 10 ہزار میگا واٹ ہے تو بیک اپ کے لیے اتنی بجلی کیسے ہو گی، اس لیے اس نظام کو دوبارہ چلانا پڑتا ہے اور وہ ان بجلی گھروں سے ہوتا ہے۔