پاکستانی سکولوں میں بلیئنگ: ’ڈر تھا کہ شکایت لگائی تو مزید تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا‘

bully
  • مصنف, سعد سہیل
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

’میرا سکول جانے کا بالکل دل نہیں کرتا تھا اور میں بہانے ڈھونڈتا تھا کہ کسی طرح مجھے سکول نہ جانا پڑے۔‘

عمار گیلانی ایک سٹوڈنٹ کنسلٹنسی فرم میں کام کرتے ہیں لیکن ایک نیم سرکاری سکول میں ان کے ساتھ ہوا ’تشدد‘ آج بھی ان کے ذہن میں تازہ ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے سکول لائف میں بلیئنگ یا ہراسانی کا سامنا نہ کیا ہو یا اپنے سامنے کسی کو دھونس جماتے نہ دیکھا ہو۔

کسی کو نیچا دکھانے کے لیے نام پکارنا، ان کی جسامت سے متعلق جملے کسنا اور خاص کر لڑکوں کے سکولوں میں جسمانی تشدد بلیئنگ کی چند اقسام میں سے ہے۔

پاکستانی سکولوں میں ریگنگ یا بلیئنگ کا رجحان کوئی نئی بات نہیں لیکن حال ہی میں لاہور کے ایک نجی سکول میں بلیئنگ کا واقعہ منظرِعام پر آنے کے بعد لوگوں کی توجہ اس مسئلے کی جانب ضرور گئی ہے۔

بہت سے لوگ اسے شاید سکول لائف کا ایک معمول سمجھتے تھے اس لیے کبھی کھل کر اس پر بات نہ کرنا چاہیں لیکن عمار گیلانی نے ملتان کے ایک نیم سرکاری سکول میں اپنے ساتھ ہوئی بلیئنگ کے بارے میں بی بی سی کو بتایا ہے۔

عمار گیلانی
،تصویر کا کیپشنعمار گیلانی سکول میں جذباتی و جسمانی تشدد کا سامنا کر چکے ہیں

’شاید میں ہی کمزور ہوں اس لیے بار بار نشانہ بنتا ہوں‘

عمار گیلانی کے مطابق سکول میں ایسے کئی واقعات ہوئے جہاں کئی لوگ انھیں گھیر لیا کرتے تھے، چاہے بریک ٹائم ہو یا چُھٹی کے وقت اور انھیں وہ زبانی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔

’آج بھی کوئی اونچا بول رہا ہو چاہے سڑک پر یا کہیں اور تو وہ لمحات میری آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، میں جتنی بھی کوشش کروں میں اسے بُھلا نہیں سکتا۔‘

عمار نے ایک دل خراش واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک روز بس کی طرف جا رہے تھے تاکہ وہ گھر جا سکیں لیکن وہ کیا دیکھتے ہیں کہ سکول کا ایک مشہور بدمعاش یا بُلی ان کی جانب بھاگتا آ رہا ہے۔

’اس نے آ کر مجھے میرے کالر سے پکڑا اور چلانے لگا کہ میری طرف دیکھنے کی ہمت کیسے کی؟ شاید جانے انجانے میں میری نظر اس پر پڑ گئی ہو گی مگر اُس لمحے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا اور میں کوئی جواب نہ دے سکا۔

’میں وہاں سے صرف نکلنا چاہتا تھا۔ جو لوگ وہاں جمع ہوئے تھے شاید اُن کے لیے یہ ایک تفریح تھی کیونکہ مجھے صرف اردگرد سے قہقہوں کی آواز آئی مگر مجھے کسی سے مدد نہیں ملی۔‘

ہراسانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس واقعے کے بعد سے عمار گیلانی کے مطابق انھیں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید وہ ہی کمزور ہیں اور اس لیے شاید بار بار وہ اس کا نشانہ بنتے ہیں اور کہیں نہ کہیں وہ ایسے واقعات کے لیے اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا انھیں کبھی ان واقعات کو رپورٹ کرنے کا خیال آیا؟ عمار گیلانی کا کہنا تھا کہ ’میرے ذہن میں یہ ہمیشہ سے تھا کہ شاید ان واقعات کو رپورٹ کرنا یا کسی کو اس بارے میں بتانا ایک کمزوری ہے۔ میں اور لوگوں کو دیکھتا تھا تو انھیں تشدد اور لڑائی جھگڑا کرنے میں مزا آتا تھا اور انھیں یہ سب ’کُول‘ لگتا تھا۔ اس لیے انھوں نے کسی کو اس بارے میں نہیں بتایا۔

’مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر میں نے شکایت لگائی تو مجھے مزید تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

’واش رومز، اور کیفے پسندیدہ جگہ‘

پاکستانی سکولوں میں بدمعاشی سے متعلق ویسے تو انٹرنیٹ پر زیادہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی خیبر پختونخواہ میں ایک اپنی تحقیق کے مطابق بُلیز یا دھونس جمانے والوں کی پسندیدہ جگہ سکول کی راہداریاں، واش رومز، اور کیفے ٹیریا ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ٹیچرز کی نگرانی نہیں ہوتی۔

مائیکروسافٹ نے سنہ 2015 میں آٹھ سے 17 سال کے بچوں سے کیے جانے والے ایک سروے میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں 64 فیصد بچوں نے کبھی نہ کبھی بلیئنگ یا بدمعاشی کا سامنا کیا ہے خواہ وہ آن لائن ہو یا سکول کی حدود میں۔

تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ آن لائن بلیئنگ کا سامنا سب سے زیادہ لڑکیوں کو ہوتا ہے۔ 

ہراسانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عائشہ احمد گذشتہ 24 سال سے بطور معلم کام کر رہی ہیں اور انھوں نے وقت کے ساتھ بلیئنگ کی نوعیت کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ 

عائشہ احمد کے مطابق گذشتہ چار پانچ سالوں میں بلیئنگ کی نوعیت کافی زیادہ بدلی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس میں سب سے بڑا کردار موبائل فون کے آنے سے ہے اور جو بچے پہلے صرف سکول کے احاطے میں ملتے تھے ’اب اس فون میں ایک پوری دنیا ہے اور اس دنیا پر کوئی نگرانی نہیں۔‘

سکولوں میں بلیئنگ کا بڑھتا رجحان

عائشہ احمد کے مطابق انھیں جو ہراساں کیے جانے یا تنگ کرنے کی شکایات موصول ہوتی ہیں ان میں کسی کو اس کی شکل و صورت پر تنگ کیا جاتا ہے، موٹاپے پر چھیڑا جاتا ہے اور کبھی کسی کا لہجے پر مذاق اُڑایا جاتا ہے۔

اکثر جو بچے بدمعاشی کرتے ہیں وہ عائشہ احمد کے مطابق کسی نہ کسی وقت پر بُلیئنگ کا شکار رہ چکے ہوتے ہیں۔

’ایسا نہیں ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے مگر ہمارے ہاں ایک طریقہ ہے کہ بچوں کو کنٹرول کیا جائے اور اس میں بعض اوقات والدین حد پار کر دیتے ہیں۔‘

عائشہ احمد
،تصویر کا کیپشنعائشہ احمد کے مطابق اکثر جو بچے بدمعاشی کرتے ہیں وہ پہلے خود بھی اس صورتحال سے گزر چکے ہوتے ہیں

گھریلو تشدد جیسے موضوع پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بہت ساری لڑکیاں دیکھتی ہیں کہ ان کی ماں کو گھر میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ وہ زبانی ہو یا جسمانی تشدد، مگر وہ لڑکی یہ سب دیکھ رہی ہے۔ اور وہ اس بارے میں کچھ نہیں کر رہی اور اس سب کا غُبار بھی پھر سکول میں نکلتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

والدین کو کیسے پتا چلے کہ ان کا بچہ بُلی ہو رہا ہے؟

ماہر نفسیات جیسمین رانا کے مطابق اگر ایک بچہ بلیئنگ سے گزر رہا ہو تو والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اس کے رویے میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔ ان میں سے چند علامات یہ ہو سکتی ہیں:

  • بھوک نہ لگنا
  • بے خوابی
  • سکول نہ جانے کے بہانے کرنا
  • پڑھائی میں بُری کارکردگی
  • پڑھائی میں عدم دلچسپی

خود بُلیئنگ کی شکار زینب چُغتائی نے 2014 میں بُلی پروف کے نام سے ایک مہم شروع کی جس کے تحت وہ سکولز میں بُلیئنگ سے متعلق آگاہی پھیلاتی ہیں۔

زینب چغتائی
،تصویر کا کیپشنزینب چغتائی کہتی ہیں کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے محفوظ ہونے کی تسلی کریں

زینب چُغتائی کہتی ہیں کہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں سے صرف یہ نہ پوچھیں کہ سکول میں کیا پڑھا بلکہ اُن سے پوچھا جائے کہ سکول کا دن کیسا رہا؟ کس سے بات کی اور وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

’اگر بچہ خود نہیں بول رہا تو سکول میں اس کے ٹیچرز یا دوستوں سے بات کریں اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں اور تسلی کریں کہ ان کا بچہ محفوظ ہے، خوش ہے اور یہ کہ اسے ہراساں نہیں کیا جا رہا۔

بُلیئنگ کے بچے پر اثرات

ماہر نفسیات جیسمین رانا کے مطابق بُلیئنگ کے بچے پر چند اثرات فوری طور پر پڑ سکتے ہیں جن میں بچہ اکیلا محسوس کرنے لگتا ہے، خوف کی وجہ سے وہ کسی سے اس بارے میں بات نہیں کر پاتا اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بچہ ایسے واقعے پر شرمندگی محسوس کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ غلطی اس کی تھی۔

طویل مدتی اثرات میں سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں جن میں ڈپریشن اور اینگزائیٹی کے علاوہ بچے میں خود کُشی کے خیالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

جیسمین رانا
،تصویر کا کیپشنجیسمین رانا کہتی ہیں کہ سکولوں میں ہراسانی بچوں میں خودکشی تک کے رجحانات پیدا کر سکتی ہے

ماہر نفسیات ڈاکٹر صباحت شاہ کے مطابق اس قسم کی بلیئنگ کے شکار بچے کے لیے ضروری ہے کہ اسے گھر اور سکول میں ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں اسے محسوس ہو کہ وہ بِلا جھجک اپنے احساسات کا اظہار کر سکتا ہے اور ان کو یہ بھی احساس دلایا جائے کہ وہ جیسا مرضی محسوس کر رہے ہیں وہ جائز ہے۔

بُلیئنگ کی روک تھام کیسے کی جائے؟

معلم عائشہ احمد کا ماننا ہے کہ بُلی یا دھونس جمانے والے کو لاٹھی مارنے سے یا سزا دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

’ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ رجحان کہاں سے آیا ہے اور وہ کس چیز کے جواب میں آیا ہے۔ جب کوئی بُلیئنگ کا واقعہ سامنے آتا ہے تو ہمیں متاثرہ شخص کو تو سہارا دینا ہے مگر بات تو ہمیں بُلی سے بھی کرنی چاہیے۔‘

انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بچوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ غصے کا مثبت انداز میں کیسے اظہار کیا جائے۔

سکولوں اور اساتذہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ اگر وہ کسی پر تشدد ہوتا دیکھ رہے ہوں تو لڑائی جھگڑا بڑھائے بغیر کیسے اسے روکا جا سکتا ہے۔

آن لائن ہراسانی کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور زینب چُغتائی کے مطابق ’اگر آپ کو آن لائن کوئی گالی دے رہا ہے یا بُرا بھلا کہہ رہا ہے تب بھی آپ نے جواب نہیں دینا اور آپ نے ان کے اس اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ فوراً اس اکاؤنٹ کو بلاک کیا جائے۔‘

ماہرین کا ماننا ہے کہ بُلیئنگ کے شکار بچوں کو مناسب سپورٹ فراہم تو کی جا سکتی ہے مگر انھیں کسی ماہر نفسیات کے پاس بھیجنا ضروری ہے تاکہ اسے اس اذیت سے نکلنے کے لیے مکمل طور پر مدد مل سکے۔