’میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں کا کیا ہو گا؟‘ کانسٹیبل کا دم توڑنے سے قبل سوال

پشاور دھماکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو

انتباہ: اس رپوٹ میں درج تفصیلات بعض قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتی ہیں۔

’لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی ایمرجنسی سے متعدد لاشیں مردہ خانے  منتقل کی گئیں جن میں کم از کم دس اتنی بُری حالت میں تھیں کہ کسی حد تک ناقابل شناخت ہو چکی تھیں۔ متعدد میتوں سے انسانی اعضا علیحدہ ہو چکے تھے۔۔۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دھماکہ کتنا شدید تھا۔‘

الخدمت فاونڈیشن پشاور کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے انچارج ضیا الدین نے گذشتہ روز پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی شدت کو اِن الفاط میں بیان کیا۔ اس حملے میں اب تک 87 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 65 زخمی زیر علاج ہیں۔

دھماکے سے مسجد کی عمارت کا ایک حصہ منہدم ہو گیا اور منگل کی صبح بھی ریسکیو اہلکاروں نے جائے وقوع پر ملبے سے چار افراد کی لاشیں نکالی ہیں اور آخری اطلاعات تک دھماکے کے مقام پر ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

یہ دھماکہ پشاور کے انتہائی حساس اور ہائی سکیورٹی زون میں واقع پولیس لائن میں پیش آیا جس میں بظاہر پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔

’اگر پولیس لائن میں دھماکہ ہو سکتا ہے تو پھر کون سا علاقہ محفوظ ہو گا‘

map

ضیا الدین نے مزید بتایا کہ وہ دھماکے کی اطلاع ملنے کے چند منٹ بعد ہی لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچ گئے تھے۔

’جس وقت میں ہسپتال پہنچا اس وقت تک ایک یا دو ایمبولینس ہی ہسپتال پہنچی تھیں۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد ایمبولینسوں کی لائن لگ گئی۔‘

’زخمی دھڑا دھڑ ہسپتال لائے جا رہے تھے۔ زخمیوں کو ہسپتال کا عملہ اور رضا کار دیکھ رہے تھے جبکہ لاشوں کو ہم لوگ مردہ خانے منتقل کر رہے تھے۔‘

ضیا الدین کہتے ہیں کہ اس وقت ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی بڑی تعداد بھی ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئی تھی۔ یہ سب لوگ بہت غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ ’وہ بار بار سوال پوچھ رہے تھے کہ اتنے محفوظ مقام پر دھماکہ کیسے ہو گیا؟ اگر پولیس لائن میں دھماکہ ہو سکتا ہے تو پھر کون سا علاقہ محفوظ ہو گا؟‘

،ویڈیو کیپشنپشاور پولیس لائن کی مسجد میں دھماکہ

ضیا الدین نے بتایا کہ اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایک پولیس اہلکار جن کا تعلق ہنگو سے تھا کے تین کم عمر بچے موقع پر پہنچے تھے۔

’وہ بچے بار بار کہہ رہے تھے کہ اب ہمارا بابا کے بغیر کیا ہو گا۔ ہمیں بابا کیوں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘

پشاور پولیس کے ترجمان نوید کے مطابق پولیس لائنز پشاور میں ریزور پولیس، سی ٹی ڈی، انوسٹیگیشن کے بلاک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس لائنز کی مسجد میں سول سیکریٹریٹ اور قریب موجود بینکوں کے اہلکار بھی نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ بھی لوگ شامل ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ ریزور پولیس کے اہلکاروں کا تعلق صوبے کے مختلف اضلاع سے ہوتا ہے اور ابھی تک دستیاب اطلاعات کے مطابق دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پشاور پولیس لائنز دھماکے میں تقریباً ہر ضلع میں پشاور سے لاشیں جائیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے سے صرف مسجد ہی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ مسجد کے قریب واقع سرکاری رہائش گاہوں کو بھی نقصاں پہنچا ہے۔

’میں ماں کا لاڈلہ ہوں۔۔۔ پتا نہیں میری ماں کا کیا ہو گا‘

پشاور دھماکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جائے وقوعہ سے ایمبولینس کے ذریعے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے والے ریسیکو 1122 کے ایک کارکن نے بتایا کہ ’زخمیوں کی حالت انتہائی نازک تھی، دو زخمی افراد نے ان کے سامنے ایمبولینس ہی میں دم توڑ دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ایک زخمی جوان بہت حوصلے میں تھا۔ اس کے سر پر چوٹ لگی ہوئی تھی۔ چوٹ والی جگہ پر کسی نے کوئی کپڑا باندھ دیا تھا مگر اس کے جسم کے دیگر حصوں سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ میں نے خون روکنے کی کوشش شروع کی تو اس دوران وہ جوان زخموں سے کراہنے کے باوجود جرات کا مظاہرہ کر رہا تھا۔‘

اہلکار کا کہنا تھا کہ ’اس دوران میں نے اس کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے بات شروع کی تو اس نے بتایا کہ وہ مسجد کے آخر میں ایک کونے میں نماز ادا کر رہا تھا۔ ایک دم دھماکا ہوا اور وہ نیچے گر پڑا۔‘

’اس نے مجھ سے پوچھا جسم کے مختلف حصوں میں درد ہو رہا ہے تو کیا میں بچ پاؤں گا۔ اس اہلکار نے کہا کہ اور تو کوئی غم نہیں بس میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو پتا نہیں میری ماں کا کیا ہو گا۔‘

ریسکیو اہلکار کے مطابق ابھی وہ اس پولیس اہلکار کو لے کر ہسپتال کے گیٹ پر بھی  نہیں پہنچے تھے کہ اس اہلکار نے دم توڑ دیا۔

ریسکیو اہلکار کے مطابق ایک اور زخمی اہلکار بھی اپنے گھر والوں کو یاد کر رہا تھا اور اس نے ہسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔

ریسیکو 1122 کے ایک اور اہلکار نے بھی جائے وقوع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’کم از کم چار، پانچ زخمیوں نے میرے سامنے دم توڑا۔ جب میں نے ایک زخمی کو اٹھانا چاہا تو اس نے میرے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ دوسرے کی طرف  گیا تو وہ بھی دم توڑ چکا تھا۔ ساتھ والے کو دیکھا تو وہ بھی زندہ نہیں تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ شروع کی صفوں میں شاید کوئی نہیں بچا تھا۔‘

’پاؤں کاٹ دو مگر مجھے باہر نکالو‘

پشاور دھماکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

الخدمت فاونڈیشن پشاور کے اہلکار ضیا الدین بتاتے ہیں کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے انھوں نے ایک شخص کو ملبے تلے دبے دیکھا۔ ’اس پر شاید عمارت کا کوئی ستون گرا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف میں تھا۔ وہ بار بار چیخ کر کہہ رہا تھا کہ پاؤں کاٹ دو مگر مجھے باہر نکالو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر تمام ریسیکو اہلکار بہت محتاط تھے کیوںکہ اس شخص کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا اور اس کا صرف پاؤں ملبے تلے پھنسا ہوا تھا۔ تھوڑی سے بھی بے احتیاطی اس کے لیے نقصان دہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے ریسکیو اہلکار ملبے کو بہت احتیاط سے ہٹا رہے تھے۔‘

ضیا الدین کا کہنا تھا کہ امدادی کارکنوں نے کچھ دیر کی کوشش کے بعد انھیں نکال لیا تھا۔ ’جب انھیں نکالا گیا تو پاؤں پر چوٹ تو تھی مگر اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا مگر وہ کافی دیر سے ملبے تلے دبے رہنے کی وجہ سے وہ نڈھال ہو گئے تھے۔‘

’وہاں پر چیخ و پکار تھی اور بے تحاشہ زخمی تھے‘

صوبہ خیبر پختونخواہ میں جماعتِ اسلامی کے سابق پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان دھماکے وقت پولیس لائن کے اندر موجود تھے۔

عنایت اللہ نے گذشتہ روز بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت میں کیپٹل سٹی پولیس کے دفتر میں موجود تھا۔ یہ ایک انتہائی زوردار اور خوفناک دھماکہ تھا۔ جس نے سارے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے تھے۔‘

سی سی پی او اعجاز خان اپنے دفتر میں موجود تھے اور جب دھماکے کی آواز آئی تو وہ جائے وقوعہ کی طرف چل پڑے اور میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

عنایت اللہ کہتے ہیں کہ ’جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو کہرام مچا ہوا تھا۔ مسجد کا وہ حصہ جہاں پر محراب ہوتا ہے وہ زمین بوس ہو چکا تھا۔ وہاں پر چیخ و پکار تھی اور بے تحاشہ زخمی تھے۔‘

mosque

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے برآمدے اور مسجد کے پچھلے حصے میں نماز ادا کرنے والوں نے بتایا کہ مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اگلی صفوں میں موجود لوگ سب زیادہ متاثر ہوئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر وہاں پر کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے جو رو رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ان کے دوست، رشتہ دار ملبے کے نیچے ہیں جو فون کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دھماکہ ایسے مقام پر ہوا ہے جو انتہائی محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں پر انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے دفاتر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت ہی سخت پیغام دیا گیا ہے کہ ہم ایسی جگہ پر بھی پہنچ سکتے ہیں۔‘

’دھماکے کی آواز سے ہم سکتے میں چلے گئے‘

شہری زاہد آفریدی جو دھماکے کے وقت کسی کام کے سلسلے میں پولیس لائن کے قریب علاقے میں موجود تھے بتاتے ہیں کہ اس دھماکے کی آواز ہم نے وہاں سے کم از کم پانچ سو میڑ دوری پر سنی۔

انھوں نے بتایا ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ہم سمجھے کہ دھماکہ ہمارے پاس ہی ہوا ہے۔‘

زاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ’دھماکے کے فوراً بعد گرد و غبار اور دھواں اٹھنے لگا۔ واقعہ کے وقت میرے ساتھ دو لوگ اور بھی تھے۔ ’چند لمحوں کے لیے ہم لوگ بالکل سکتے کی کیفیت میں چلے گئے تھے۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بھگدڑ مچ گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تھوڑی دیر میں ایمبولینس کی آوازیں آئیں اور پھر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی تھی، جس نے سارے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔‘