تاندہ ڈیم سے مزید 20 بچوں کی لاشیں برآمد: ’لاپتہ بچوں کی فہرست میں بیٹوں کے نام دیکھ کر پیروں تلے زمین نکل گئی‘

تاندہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عزیز اللہ خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو، پشاور

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندا ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل منگل کو بھی جاری ہے اورڈی پی او کوہاٹ کے مطابق آج مزید 20 لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔

اتوار کو میر باش خیل اور سلیمان تالاب نامی دیہات کے بچے پکنک منانے تاندہ ڈیم گئے تھے جہاں وہ کشتی الٹ گئی جس پریہ بچے سوار تھے۔ 

اس حادثے میں صرف سات بچوں کو بچایا جا سکا جبکہ ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل تین دن سے جاری ہے۔

 کوہاٹ کے قریب میر باش خیل گاؤں کے قریب واقع تاندہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔ اس علاقے میں بیشتر افراد اچھے تیراک ہیں اور سماجی کارکن شاہ محمود بھی ان میں شامل ہیں۔

جب انھیں تاندہ ڈیم میں مدرسے کے طلبا کی کشتی الٹنے کی اطلاع ملی تو وہ بھی موقع پر پہنچے اور پانی سے بچوں کو نکالنے کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔

وہ چھ، سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔

الٹنے والی کشتی میں شاہ محمود کے دو بیٹے، چار بھتیجے، دو کزن اور ایک رشتہ دار سوار تھے لیکن انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت بچوں کو ڈیم کے گہرے پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

بچوں کے اجتماعی نماز جنازہ کے دوران وہ نڈھال تھے، مسلمسل رونے کے باعث ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔

ماہر تیراک جس کے اپنے بچے بھی پانی کی نذر ہو گئے

تاندہ
،تصویر کا کیپشنشاہ محمود چھ سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے تب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔

شاہ محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈیم میں جب پہلی نظر پڑی تو بچوں کے سر نظر آ رہے تھے وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، بچے جیسے تڑپ رہے تھے۔ میں پانی میں کود گیا تھا اور کچھ دیر میں ہم نے مل کر چھ سات بچے نکال لیے تھے۔‘

جب باہر آیا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی فہرست دی، میں اس فہرست کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچ نمبر پر میرے بیٹے کا نام اور ولدیت میں میرا نام لکھا تھا، میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔۔‘

شاہ محمود بتاتے ہیں ’اس کے بعد دیکھا تو میرے دوسرے بیٹے کا نام تھا ۔ میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔ اتنے میں دیکھا کہ میرے چار بھتیجوں کے نام بھی لکھے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام تھے، یہی نہیں اس کے بعد میرے دو کزن اور ایک سالے کا نام بھی اسی فہرست میں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

تاندہ

شاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریباً ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ ہے جبکہ بھتیجوں کی عمریں بھی چار سے پانچ سال کے قریب ہیں۔

شاہ محمود کہتے ہیں ’میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر نکالتا ہوں اور اب تو میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔‘

شاہ محمود تاندہ ڈیم پر موجود تھے جہاں اب ریسکیو کے ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبے  بچوں کو تلاش کر رہے تھے۔ 

پہلے روز جب  یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی افراد جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل پر کام کرنے والا ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 افراد کو پانی سے نکال لیا تھا مگر ان میں دس بچے دم توڑ چکے تھے۔

شاہ محمود نے بتایا کہ انھوں نے جن بچوں کو نکالا انھیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی ’کچھ ایسے بچے بھی تھے جن کی سانس بمشکل چل رہی تھی، ان کی سانسیں مصنوعی سانس سے بحال کی گئیں اور فوری طور پر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔‘

’دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں مگر ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں کہ اسے تسلی ہو‘

تاندہ

تاندہ ڈیم پر سرچ آپریشن پر نظر رکھے کئی بچوں کے والد اور بھائی بے چین نظر ائے۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہاں بڑی تعداد میں مقامی لوگ پہنچ گئے تھے جس سے آپریشن میں دشواری پیش آتی رہی۔

ڈیم کے کنارے پر موجود دولت خان نے اچانک شور مچانا شروع کر دیا کہ ’مجھے اندر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ مجھے معلوم ہے کہ بچے پانی کے اندر کہاں ہوں گے۔‘

وہ بلند آواز سے با بار یہی دہراتے اور روتے رہے۔۔ کچھ لوگ  انھیں تسلی دینے لگے۔

 دولت خان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے اس کشتی میں سوار تھے جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں ہے۔

دولت خان کہہ رہے تھے کہ ’دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں ہے لیکن ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں تاکہ اسے تسلی ہو کیونکہ وہ تو ایسی ہے کہ نہ زندہ ہے اور نا ہی مردہ ہے بس بچوں کو یاد کر رہی ہے۔‘

تاندہ

دولت خان کے ساتھ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری کالج کے پرنسپل پروفیسر مکمل خان نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں اور وہ چھ سال کے تھے جب سے وہ اس ڈیم میں تیراکی کرتے آئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اس ڈیم کے نیچے کہاں ریت ہے، کہاں مٹی ہے اور کہاں جھاڑیاں ہیں اس لیے انھیں اجازت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو نکال سکیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن 18 بچوں کو نکالا گیا ہے وہ سب مقامی لوگوں نے نکالا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس حادثے میں ڈوبنے والے دولت خان کے دو بچوں کے علاوہ ان کے بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں۔

پروفیسر مکمل خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں میں ماتم ہے، خواتین سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ انھیں یہ امید ہے کہ بچے ڈیم سے زندہ نکل آئیں گے اور اسی امید پر وہ جی رہے ہیں۔‘

’سلمان تالاب گاؤں کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے‘

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سلمان تالاب گاؤں میں اجتماعی نماز جنازہ کے بعد قبرستان کے قریب چارپائیوں اور کرسیوں پر بزرگ اور نوجوان بیٹھے تھے جہاں فاتحہ خوانی کی جا رہی تھی ۔ ان میں بخت مین خان بزرگ بھی موجود تھے۔ اس گاؤں میں ان بچوں کے ساتھ تمام افراد کے کسی نے کسی طرح سے رشتہ داری ہے ۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے، کسی کے بچے ہلاک ہو گئے ہیں ، کسی کے بچوں کی تلاش جاری ہے اور جن کے بچے شامل نہیں بھی تھے ان گھروں کی خواتین اور مرد بھی دیگر افراد کے غم میں شریک ہیں۔  یہ گاؤں ہیں یہاں خوشی اور غمی  یکساں ہوتی ہے ۔‘

انھوں نے بتایا کہ موسی خان دبئی میں مزدوری کرتے ہیں ان کے دو بیٹے اس مدرسے میں پڑھتے تھے اور دونوں ہی اس ڈیم میں ڈوب گئے ہیں۔ موسی خان کو دبئی اطلاع دی گئی تو وہ فوی طور پر پاکستان پہنچے لیکن ان کے بچے نہیں ملے۔

بخت مین خان نے بتایا کہ ’موسی خان کی حالت غیر ہے، وہ کچھ بات نہیں کرتے۔۔۔ بس بچوں کو یاد کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے ساتھ عزیز کا گھر ہے جو سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ عزیز کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اب وہ اکلوتا بیٹا بھی ڈیم میں ڈوب گیا ہے لیکن عزیز کو چھٹی نہیں ملی کہ وہ بیٹے کو دیکھ سکے۔‘

مقامی بزرگوں کا کہنا تھا کہ ’خواتین کو تو ہم نے شروع میں کچھ نہیں بتایا۔۔۔ انھیں کہا بس آپ قران کی تلاوت کریں لیکن بعد میں جب انھیں معلوم ہوا تو ایک کہرام تھا، لیکن انھیں تسلیاں دے کر خاموش کرایا ہے۔‘

انھوں نے شکوہ کیا کہ ’انتظامیہ کہیں نہیں ہے، اس ڈیم پر اکا دکا واقعات تو آئے روز پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی لیکن اب بڑی تعداد میں بچہ ڈوبے ہیں تو سب یہاں آئے ہیں لیکن انھیں نہیں لگتا کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ کو ایسے اقدامات لینے چاہییں تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات پیش نہ آئیں۔ یہاں کشتیاں جیکٹس اور غوطہ خور ہونے چاہییں جو ایمرجنسی میں کام کر سکیں۔‘