شارک ٹینک انڈیا: کشمیر کا ایک سٹارٹ اپ کاروبار کرنے کے خواہشمند ہزاروں افراد میں دلچسپی کا باعث کیوں بن رہا ہے؟

سمیع اللہ اور عبدالرشید

،تصویر کا ذریعہSAMIULLAH AND ABID RASHID

،تصویر کا کیپشن

سمیع اللہ اور عبدالرشید نے مل کر سنہ 2019 میں ایک کمپنی بنائی

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک سٹارٹ اپ نے ریئلٹی شو شارک ٹینک انڈیا پر کمپنی کے لیے فنڈز اکٹھے کیے ہیں، جس سے خطے کے دیگر ابھرتے ہوئے کاروباری افراد کی امیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عاقب جاوید نے کمپنی کے پیچھے موجود افراد سے ملاقات کی۔

کشمیر میں واقع ایک کورئیر ڈیلیوری سروس فاسٹ بیٹل نے شو کے انڈین ورژن پر 900,000 روپے یا تقریبا 11 ہزار امریکی ڈالر اکٹھے کیے، جہاں کاروباری افراد اپنی مصنوعات یا خدمات کو سرمایہ کاروں یا 'شارکس' کے پینل کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ شارکس یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا وہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کریں یا نہ کریں۔

کمپنی کے بانی شیخ سمیع اللہ اور عبدالرشید نے لنکڈ اِن پر شو کے بارے میں اشتہار دیکھنے کے بعد شارک ٹینک کے لیے درخواست دی تھی۔

ان کی کمپنی کشمیر کی پہلی کمپنی ہے جس نے مقبول ٹی وی شو پر اپنے لیے فنڈ اکٹھا کیا ہے۔ ان کی پہل نے ججوں میں سے ایک کو یہ پوچھنے پر مجبور کیا کہ انھیں اس خطے سے زیادہ کاروباری افراد کیوں نہیں نظر آتے ہیں۔

مسٹر سمیع اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا: 'ہمارے پاس ایسی سہولیات نہیں ہیں۔ آپ جیسے لوگ [شارک ٹینک کے ججز] نہیں ہیں جو ہماری مدد کر سکیں، یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے لوگوں کا نوکریوں پر انحصار ہے۔'

مسٹر سمیع اللہ اور مسٹر راشد اب امید کرتے ہیں کہ انھیں ملنے والی فنڈنگ سے کشمیر میں مزید نوجوانوں کو اپنے کاروبار شروع کرنے کی ترغیب ملے گی۔

کشمیر کا ہمالیائی خطہ ایک ایسا حساس علاقہ ہے جس پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سخت مقابلہ ہے اور وہ اس کے مکمل علاقے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ ان کی حکمرانی الگ الگ حصوں پر ہے۔

تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے علیحدگی پسند عسکریت پسندوں نے خطے میں انڈیا کی حکمرانی کے خلاف مسلح بغاوت جاری رکھی ہوئی ہے۔ انڈیا نے پاکستان پر ان عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے جبکہ اسلام آباد ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

اگست سنہ 2019 میں بی جے پی کی زیرقیادت حکومت نے انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا جس کے تحت اس مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو خود مختاری کی ضمانت دی گئی تھی لیکن اب اسے دو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے اعلان کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش اور کرفیو جیسے حالات کئی ماہ تک جاری رہے اور بدامنی کے حالات سے نمٹنے کے لیے ہزاروں اضافی فوجی تعینات کیے گئے۔

اس وقت حکومت ہند نے کہا تھا کہ اقتصادی ترقی کے لیے خطے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی ضروری تھی لیکن سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔

تاہم حکام کا اصرار ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں اور خطے میں مقامی سٹارٹ اپس میں 'بوم' (زبردست اضافہ) دیکھنے میں آ رہا ہے۔

کشمیر میں دستکاری کا بڑا منافع بخش بزنس ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کشمیر میں دستکاری کا بڑا منافع بخش بزنس ہے

جموں کشمیر کے سٹارٹ اپ پالیسی

جموں و کشمیر انٹرپرینیورشپ ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (جے کے ای ڈی آئی) کے ڈائریکٹر اعزاز احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ حکومت 'جموں کشمیر کے سٹارٹ اپ پالیسی 2023-2028' پر کام کر رہی ہے، جس کا مقصد اگلے پانچ سال میں خطے میں 3,000 سٹارٹ اپس کے قیام کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور خطے کی معیشت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ 'یہ پالیسی پہلے سے موجود تھی لیکن ہم کچھ مسائل اور پھر وبائی امراض کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔ اب ہم ماہرین کی مدد سے اس میں ترمیم کر رہے ہیں اور آنے والے ہفتوں میں ایک نئی پالیسی منظر عام پر لانے والے ہیں۔'

مسٹر سمیع اللہ اور مسٹر راشد نے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے صرف چھ ماہ قبل سنہ 2019 میں اپنی سٹارٹ اپ کمپنی فاسٹ بیٹل شروع کی تھی۔ اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے مسٹر سمیع اللہ ایک ای کامرس کمپنی میں کام کرتے تھے جو پورے انڈیا میں مصنوعات فراہم کرتی تھی۔

انھوں نے کہا: 'ہم نے سوچا کہ یہ ماڈل کشمیر میں بھی لایا جا سکتا ہے اس لیے ہم نے اسی طرز پر اپنا برانڈ بنایا۔'

فاسٹ بیٹل کے ڈیلیوری ایجنٹس مصنوعات کو اٹھائیں گے، انھیں خطے کے مرکزی شہر سرینگر کے اپنے دفتر میں پیک کریں گے اور موٹر سائیکلوں اور منی وینز سے انھیں ڈیلیور کریں گے۔

لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ سامان کو مطلوبہ مقامات تک نہیں پہنچایا جا سکا کیونکہ ایمرجنسی سروسز کے علاوہ دیگر گاڑیوں کی سڑکوں پر اجازت نہیں تھی۔

مسٹر سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ مواصلاتی بندشوں نے انھیں اپنے عملے سے مہینوں تک بات چیت کرنے سے روکا اور کمپنی کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔

سمیع اللہ اور عبدالرشید

،تصویر کا ذریعہSAMIULLAH AND ABID RASHID

،تصویر کا کیپشن

سمیع اللہ اور عبدالرشید اپنے سٹاف کے ساتھ

بندشوں سے نقصان

بانیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی ذاتی بچت میں سے تنخواہیں ادا کیں۔ اور سنہ 2020 کے آخر تک جب حالات معمول پر آنا شروع ہوئے تو انھوں نے اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پھر وبائی مرض کووڈ 19 نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انھیں ایک بار پھر کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کا مقابلہ کرنا پڑا۔

لیکن مسٹر سمیع اللہ اور مسٹر راشد نے امید نہیں ہاری۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے محسوس کیا کہ وادی میں سیب کے تاجر اپنی پیداوارمارکیٹ تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور اس لیے فاسٹ بیٹل نے پورے کشمیر میں پھل پہنچانے کے شعبے مین قدم رکھا۔

مسٹر سمیع اللہ کہتے ہیں: 'سیب کی صنعت خطے میں روزگار پیدا کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے، اور پھل کی فراہمی سے ہم نے جو منافع کمایا اس نے ہمیں اپنے نقصانات کو پورا کرنے میں مدد کی۔'

کمپنی نے کووڈ کے مریضوں کو آکسیجن سلنڈر اور ادویات کی فراہمی بھی شروع کردی۔

آج فاسٹ بیٹل ہر چیز فراہم کرتا ہے، اس کے 130 ملازمین ہیں اور پورے انڈیا اور بیرون ملک کئی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ اب تک اس نے 55 سے زیادہ ممالک میں 100,000 آرڈرز فراہم کیے ہیں۔ یہ کمپنی 1,500 سے زیادہ مائیکرو، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ایز) کے ساتھ بھی کام کرتی ہے۔

مسٹر سمیع اللہ کہتے ہیں کہ وہ چھوٹے درجے کے کاروباریوں کی بھی مناسب قیمتوں پر مصنوعات فراہم کرکے ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کشمیر میں سیب کا بڑا کاروبار ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کشمیر میں سیب کا بڑا کاروبار ہے

چھوٹے کاروباروں کی مدد

33 سالہ بینش بہیر خان کرافٹ ورلڈ کشمیر چلاتی ہیں۔ یہ ایک آن لائن سٹور ہے جو ہاتھ سے بنے ہوئے کروشیے کے بنے بیل بوٹے والے بیگز اور موسم سرما کے کپڑے فروخت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے کاروبار کو فاسٹ بیٹل کی وجہ سے بہت فروغ ملا ہے۔

'وہ ہماری مصنوعات کو ہمارے یہاں سے لے کر صارفین کی دہلیز تک پہنچاتے ہیں اور اس سے ہمارے بزنس کی توسیع میں مدد ملی ہے۔'

فاسٹ بیٹل کی کامیابی کی کہانی خطے کے عارف ارشاد ڈار جیسے دیگر کاروباری افراد کے لیے بھی ترغیب کا کام کر رہی ہے۔

30 سالہ نوجوان کشمیر اوریجن نامی ایک آرگینک سٹور چلاتے ہیں اور اس کے تحت وہ کشمیری کسانوں اور کاریگروں کی تیار کردہ تازہ پیداوار اور ہاتھ سے تیار کردہ مصنوعات فروخت کرتا ہے۔

مسٹر ڈار کا کہنا ہے کہ وہ مسٹر سمیع اللہ اور مسٹر راشد کی طرح اپنا کاروبار بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کے لیے مزید ملازمتیں پیدا کر سکیں۔

ابھرتے ہوئے کاروباری شخص کا کہنا ہے کہ شارک ٹینک پر فاسٹ بیٹل کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے 'کیونکہ اس نے ظاہر کیا کہ کشمیر سے ایک سٹارٹ اپ بھی بڑا بن سکتا ہے۔'

سٹارٹ اپ کے بانیوں کا کہنا ہے کہ اب وہ 'سٹارٹ اپس کا ایکو سسٹم' بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی چیلنجز ہیں کیونکہ خطے کی غیر یقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے لوگ اب بھی سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔

مسٹر عبدالرشید نے کہا: 'لیکن ہم یہاں رہتے ہیں اور ہمیں حالات کا علم ہے۔ ہم برف باری اور کرفیو سے واقف ہیں، ہمیں اس ماحول کی عادت ڈالنی ہوگی اور آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔'