اگر زلمی بھی زمان خان سے سیکھ پاتی: سمیع چوہدری کا کالم

زمان خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

زمان خان خود کو خوش بخت پاتے ہیں کہ انھیں شاہین شاہ آفریدی کے پروں تلے پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے۔

ایک نوآموز فاسٹ بولر کو اگر آفریدی جیسے مشّاق کا دستِ شفقت میسر آ جائے جو خود بھی کم عمری میں ہی دنیائے کرکٹ پہ اپنی دھاک بٹھا چکا ہے تو یہ واقعی خوش بختی سے کم نہیں۔

اہم ترین مواقع پہ آخری اوور پھینکنے کے لیے زمان کا انتخاب پچھلے سیزن سے شروع ہوا۔ شاہین آفریدی اور زمان خان کی اس رفاقت نے گیے برس قلندرز کو پہلی پی ایس ایل ٹرافی تھمائی تو اب کی بار یہی ساجھے داری انھیں ٹائٹل کے دفاع تک لے آئی ہے۔

زمان خان جب میرپور میں اپنی بولنگ کے جوہر دکھا رہے تھے، تب وہ شعیب اختر کے دیوانے ہوا کرتے تھے۔ وہ ویسی ہی پیس سے وہی تباہ کاریاں مچانا چاہتے تھے جس سے شعیب انڈیا کے بھرے سٹیڈیمز پہ سناٹا طاری کر دیا کرتے تھے۔

اس دوران زمان مالنگا کی ویڈیوز بھی دیکھا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ مالنگا کو کبھی بھی اپنا آئیڈل نہیں مانتے رہے مگر فطری طور پہ ان کا ایکشن مالنگا کے بہت قریب ہے۔

ٹی ٹونٹی میں اس ایکشن کے فاسٹ بولر دو دھاری تلوار کی مانند ہوتے ہیں جو کبھی مخالف ٹیم تو کبھی اپنے ہی ڈریسنگ روم پہ آن گرتے ہیں کہ اگر درستی اور مہارت کے ساتھ ساتھ شب و روز کی مشق شامل نہ ہو تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پشاور کی بولنگ کا نکلا۔

وائیڈ یارکر کی اختراع ماڈرن کرکٹ میں فاسٹ بولرز کا ڈیفنس میکنزم ہے۔ چھٹے ساتویں سٹمپ کی لائن کو نشانہ بنانے والا بولر ایک سوچالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ تگ و دو کسی وکٹ کے حصول کو نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ ڈاٹ بال کمانے کی خاطر کرتا ہے جو ٹی ٹونٹی کے ڈیتھ اوورز میں جنسِ نایاب ہے کیونکہ جدید بلوں کے ضخیم کناروں کے کونوں کھدروں میں بھی اس قدر جان ہوتی ہے کہ اس رفتار سے آتی گیند کنارے سے ٹکرا کر بھی باؤنڈری پار جانے کو تیار ہوتی ہے۔

اگر وائیڈ یارکر عین نشانے پہ نہ داغا جا سکے تو گیند عموماً باؤنڈری سے بھی خاصے پرے جا پہنچتی ہے۔ اور بولر اگر بلے باز کی نشانے بازی میں خطا کو یقینی بنانے کی اضافی سعی کرے تو گیند بسا اوقات اس لائن سے جا ٹکراتی ہے جس کے بعد فری ہٹ مقدر ٹھہرتی ہے۔

زمان خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنزمان کے درست ترین وائیڈ یارکرز نے زلمی پہ سہولت کے سارے دروازے بند کر دیے

نامور موسیقار آر ڈی برمن نے گلزار سے کہا تھا کہ گانا فقط گا دینے سے نہیں بن جاتا، اسے جینا پڑتا ہے، گھنٹوں نہیں، پہروں تک گنگنانا پڑتا ہے تب جا کر گانے کی کوئی شکل نکلتی ہے۔

زمان خان نے بھی پہروں جس مشق میں بِتائے ہیں، اس کی شکل بھی یہاں ان کے آخری اوور میں ابھر کر آئی. پہلے کبھی وہ شعیب اختر تو کبھی مالنگا کی ویڈیوز دیکھا کرتے تھے مگر جب سے انہیں آفریدی کی سرپرستی میسر ہوئی ہے، وہ سبھی ویڈیوز دیکھنا چھوڑ چکے ہیں۔

یہاں زمان کے درست ترین وائیڈ یارکرز نے زلمی پہ سہولت کے سارے دروازے بند کر دیے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ٹی ٹونٹی کی پہلی اننگز کا آخری اوور صرف چھ رنز میں پڑا ہو جبکہ ڈریسنگ روم میں ابھی نصف بلے باز باقی ہوں؟

بابر اعظم کا پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی درست تھا اور وکٹ کے مزاج کے مطابق انھوں نے اپنی اننگز بھی خوب کھیلی مگر ان کے بولنگ ڈسپلن نے ڈیرن سامی کے تمام تر فول پروف منصوبے نابود کر دیے۔ یہ پچ اور یہ مجموعہ پہلے ہی زلمی کے لیے جیت کا مژدہ تھا اگر زلمی کے فاسٹ بولرز کی مشق و مہارت زمان خان کے جیسی ہوتی۔

پچھلے میچ کی طرح یہاں بھی پچ میں جان فقط اتنی ہی تھی کہ نئے گیند پہ بلے بازوں کی ہلہ شیری جم پائے۔ جوں جوں گیند کی چمک گھٹتی جائے، رن ریٹ بھی گرتا جائے۔ یہاں 170 بھی ایک بہترین مسابقتی مجموعہ تھا اگر بولنگ ڈسپلن یوں ابتر نہ ہوتا۔

اہم ترین میچز میں اگرچہ ہمیشہ بابر اعظم کی کپتانی ہی زیرِ بحث رہتی ہے مگر یہاں وہ محاذ ان سے زیادہ ڈیرن سامی کے ہاتھ میں تھا اور قابلِ بحث تھا تو زلمی کے پیسرز کا ڈسپلن۔ جہاں اٹھارہ رنز اضافی سرگرمیوں کی شکل میں ہدیہ کر دیے جائیں، وہاں بساط پلٹتے دیر کیسی؟

سلمان ارشاد اور عامر جمال نے زمان خان سے کچھ الگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بھی گیند کو بلے باز کی رسائی سے پرے ہی رکھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ان کی مشق اور مہارت پچھلے میچ کے یکسر برعکس تھی۔ عامر جمال تو وہ لینتھ ہی ڈھونڈتے رہ گئے جو پچھلی شام انہیں راس آئی تھی۔

شاہین آفریدی ہی کی قیادت میں قلندرز نے اپنے پہلے چاروں سیزنز کے داغ دھوتے ہوئے پچھلے برس ٹرافی اٹھائی تھی۔

یہاں بھی شاہین ہی تھے جنھوں نے اپنے ٹریڈ مارک چھکے سے لاہور کی فائنل میں انٹری کا نقارہ بجایا۔ اگر پشاور کے بولرز زمان خان سے کچھ سیکھ پاتے تو لاہور کو اپنے ٹائٹل کے دفاع کا موقع آسانی سے میسر نہ آتا۔