وہ کرپٹو ایپ جس سے ہزاروں افراد اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے

کرپٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سارا مونیٹا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

کرپٹو کرنسی کی ایک ٹریڈنگ ایپ ’آئی ارن بوٹ‘ میں سرمایہ کاری کرنے والے ہزاروں افراد اپنی تمام جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمپنی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دھوکے بازی کا یہ معاملہ اب تک کے سب سے بڑے کرپٹو سکینڈلز میں سے ایک ہو سکتا ہے۔

ہر گذرتے سال کے ساتھ کرپٹو کرنسی کی تجارت لوگوں میں مقبول ہوئی ہے جس میں لوگوں سے ان کے سرمایے کے عوض کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سرمایہ کاری میں بڑھتی ہوئی جعلسازی کے باعث سرمایہ کاروں کو ہوشیار رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

’میں نے کرنسی نکالنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی میری رقم غائب ہوگئی‘

رومانیہ سے تعلق رکھنے والی روزینہ (فرضی نام) نے اپنے ساتھ ہونے والی اس جعلسازی کے حوالے سے بتایا ’جب میں نے آئی ارن بوٹ ایپ کے ذریعے اپنی رقم کی سرمایہ کاری کی تو مجھے سینکڑوں یورو کا نقصان ہوا۔‘

روزینہ نے اپنی پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچنے کے خدشے کے باعث اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔

’کرپٹو کرنسی خریدنے والے میری طرح کے صارفین کو بتایا گیا کہ کمپنی کی مصنوعی ذہانت کے پروگرام کے ذریعے ان کی سرمایہ کاری کو ہینڈل کیا جائے گا اور اس طریقے سے ہمیں زیادہ منافع ملنے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔‘

روزینہ کےمطابق ’میں نے ایک ماہ کے لیے آئی ارن بوٹ میں سرمایہ کاری کی۔ اس ایپ میں موجود گرافکس ہمیں دکھا رہے تھے کہ ہماری سرمایہ کاری کس طرح آگے بڑھ رہی ہے۔‘

روزینہ کے مطابق ’شروع میں یہ سب کافی پروفیشنل اور اچھا لگ رہا تھا یہاں تک کہ انھوں نے ایپ کی مرمت کا اعلان کیا اور پھر کچھ وقت بعد ایپ سے رقم نکالنے کا عمل منجمد ہو گیا۔‘

روزینہ نے بتایا کہ اس حوالے سے لوگوں نے فوراً پریشانی کا اظہار شروع کر دیا۔

’کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، اپنے سرمایہ کو میں نکال کیوں نہیں پا رہا۔ یہ سب دیکھ کرمیں نے کرنسی نکالنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی میری رقم غائب ہوگئی اور میرا پورٹ فولیو تو خالی ہو گیا، لیکن میرے والٹ میں رقم آئی ہی نہیں۔‘

بٹ کوائن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئی ارن بوٹ کو ملک کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر گیبریل گیریز نے سپانسر کیا تھا اور ان کی شہرت کے باعث رومانیہ میں حکومتی عہدیداروں اور تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت درجنوں اہم شخصیات کو اس ایپ کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا۔

گیبریل گیریز کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایپ میں اپنی بچت کی سرمایہ کاری کرنے کے جھانسے میں آ گئے اور اپنی تمام رقم کھو بیٹھے۔

لیکن روزینہ کہتی ہیں کہ اگر اس ایپ کی تشہیر میں گیریز شامل نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی اس میں سرمایہ کاری پر غور نہ کرتیں۔

’ہمیں یہ سوچنے کی آزادی تو تھی کہ اس میں دھوکہ نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کمپنی اور ہمارے درمیان اعتماد کرنے کے لیے درمیان میں ایک معتبر استاد کا نام تھا جن کی موجودگی نے ہمیں اس پر شک کرنے اور جانچ پڑتال کی جانب سوچنے بھی نہیں دیا۔‘

رومانیہ میں کرپٹو کرنسی کے نام پر جو کچھ فراڈ ہوا وہ نہ ہی رومانیہ کا پہلا واقعہ ہے اور نہ دنیا کے لیے غیر معمولی۔

رومانیہ کے ادارے یورپی سینٹر فار لیگل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی جرائم سے نمٹنے کی ماہر سلیویا تبسکا نے جب آئی ارن بوٹ کو ڈھونڈنا شروع کیا تو ان کے علم میں آیا کہ اس کمپنی کے جھانسے میں آ کر کئی دوسرے ملکوں میں بھی بہت سے لوگوں نے اس جعلسازی میں اپنا سرمایہ ڈبو دیا ہے۔

جس چیز نے انھیں سب سے زیادہ حیران کیا وہ اس جعلسازی کا منظم طریقے سے پھیلنا تھا۔

’اس معاملے پر تحقیق کے دوران ہم نے دیکھا کہ اس میں سرمایہ کاروں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر اس کمپنی کے دعوی کے مطابق انڈونیشیا میں ان کے آٹھ لاکھ سے زیادہ صارفین موجود ہیں۔‘

bit coin

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سلیویا تبسکا کے مطابق پہلے تو یہ ایپ بہت اچھی طرح سے کام کرتی ہے اور جب ان کے پاس کسی بھی ایک ملک میں کافی سرمایہ کار آ جاتے ہیں جنھوں نے اپنی جمع پونجی اس میں لگا دی ہوتی ہے تو وہ اس رقم کو نکالنے کی اجازت نہیں دیتے اور سب سمیٹ کر یہی کام کسی دوسرے ملک میں شروع کر دیتے ہیں۔‘

آئی ارن بوٹ اپنی بہترین ساکھ کے ساتھ خود کو امریکہ میں قائم کمپنی کے طور پر پیش کرتا ہے تاہم جب بی بی سی کی فیکٹ چیک ٹیم نے ان کی ویب سائٹ پر کچھ معلومات کے لیے جانچ پڑتال کرنا چاہی تو اس پرخطرے کے سرخ نشان (ریڈ فلیگ) واضح ہو گئے۔

ویب سائٹ پرکمپنی کے بانی کے طور پرجس شخص کا نام ظاہر ہوتا ہے اس کے بارے میں ٹیم نے نہ کبھی سنا نہ ہی ان کی دیگر تفصیلات ان کو دکھائی دیں جس کے بعد کمپنی کے بارے میں پولیس میں شکایت بھی درج کروا دی گئی ہے۔

کمپنی کے دعوے کے مطابق میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ہواوے اور کوال کام جیسی کمپنیاں ان کےساتھ ’سٹریٹجک پارٹنرز‘ کے طور پر کام کرتی ہیں تاہم جب بی بی سی نے ان کمپنیوں سے تصدیق کرنا چاہی تو ان تمام اداروں نے آئی ارن بوٹ کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ شراکت داری کی تردید کی۔

کمپنی کی ویب سائٹ پر کہیں بھی ان سے رابطے کی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ بی بی سی نے جب ان کے فیس بک پیج کی ہسٹری چیک کی تو معلوم ہوا کہ 2021 کے آخر تک یہ کمپنی اکاؤنٹ وزن کم کرنے والی مصنوعات کی تشہیر کر رہا تھا اور اس اکاؤنٹ کو ویت نام اور کمبوڈیا سے چلایا جاتا تھا۔

آئی ارن بوٹ اپنی ایپ میں آنے والے سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ مزید لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دیں۔

سلیویا تبسکا کے مطابق ’اس کمپنی میں لوگ جس طرح سے کام کرتے ہیں وہ ایک حقیقی کاروبار سے زیادہ جعلسازی کے لیے جانے والی ’پونزی سکیم‘ سے ملتا جلتا ہے۔‘

بی بی سی نے آئی ارن بوٹ کی کسٹمر سروس کے دعوے دار افراد کی جانب سے میسیجز کو بھی دیکھا اورچیٹ کی گفتگو کا بھی مشاہدہ کیا جس میں سرمایہ کاروں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی رقم نکالنے کے لیے، 30 فیصد رقم فیس کی مد میں ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔

’کچھ لوگ اپنے پیسے واپس لینے کے لیے کافی بے چین تھے، جنھوں نے فیس کی مد میں اس خطیر رقم کی ادائیگی بھی کی تاہم وہ پھر بھی اپنی جمع پونجی واپس نہیں لے سکے۔‘

بی بی سی نے متعدد بار آئی ارن بوٹ سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

کرپٹو
،تصویر کا کیپشن

ایف بی آئی کے نئے ورچوئل ایسیٹس یونٹ کے سربراہ جان وائمن اس تمام فراڈ کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

’خطرات سے آگاہ کر کے ہی دھوکہ بازوں کسے بچا جا سکتا ہے‘

نائجیریا اور کولمبیا جیسے بعض ممالک میں مقامی رہنماؤں کو آئی ارن بوٹ کے سرپرستوں کی جانب سے اس ایپ میں شامل ہونے کے لیے مختلف تقریبات منعقد کرنے کےلیے دباؤ ڈالا گیا تاکہ لوگوں کو اس میں آنے کی ترغیب ملے۔ ان رہنماوں سے آئی ارن بوٹ نے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔

کولمبیا سے تعلق رکھنے والے شخص اینڈریس نے کہا کہ انھوں نے ایپ میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کو فعال کیا اور انھیں اب بھی یقین ہے کہ یہ کمپنی فراڈ نہیں بلکہ درست طریقے سے کام کرتی ہے۔

’آئی ارن بوٹ کی رجسٹریشن امریکہ میں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعتاً وجود رکھتی ہے۔‘

ان کے ملک میں دسمبر 2022 میں رقوم واپسی روک دی گئی تھی اور اس حوالے سے سرمایہ کاروں کو بتایا گیا کہ کمپنی اپنی سرمایہ کاری کو آئی بو کے نئے بہتر کوائن یو ایس ڈی ٹی میں تبدیل کر رہی ہے اور جس کی قیمت بھی مساوی تھی۔

کولمبیا میں کمپنی کے اعلان کے مطابق سرمایہ کاروں کو مارچ تک صبر کرنے کو کہا گیا ہے جب نئے بٹ کوائن باضابطہ طور پر مارکیٹ میں لانچ ہونے کی امید تھی لیکن لوگ اب بھی اپنی رقوم تک رسائی کے منتظر ہیں۔

’لوگوں نے اس میں سرمایہ کاری کے لیے قرضے لیے یہاں تک کہ مقامی رہنماوں کی یقین دہانی پر دیگر مقاصد میں جمع کی جانے والی رقوم بھی اس کمپنی میں لگا دیں تاہم اب کیونکہ ان رہنماؤں کے پاس تسلی بخش جواب نہیں اس لیے لوگ ناراض ہونے لگے ہیں۔‘

بی بی سی ایک تجزیہ کار کی مدد سے ایک اہم کرپٹو والٹ رکھنے والے کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوا جس نے تقریباً 13 ہزار متاثرین سے ایک سال کے دوران تقریباً ایک اعشارعہ تین ملین منافع کی ادائیگی وصول تو پائی تاہم اس بات کا پتہ نہیں لگایا جا سکا کہ وہ رقم کہاں اور کس کے پاس گئی۔

تفتیش کاروں کے لیے مسئلہ سب سے ذیادہ سامنے آتا ہے۔

ایف بی آئی کے نئے ورچوئل ایسیٹس یونٹ کے سربراہ جان وائمن اس کو بڑا چیلینج قرار دیتے ہیں۔

’یہ ایک ایسا چیلنج یہ ہے جس میں ایک جانب ان کے پیچھے موجود افراد کی شناخت کرنا مشکل ہے دوسری جانب ان کے لیے قانون کے مطابق تفتیشی اقدامات بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ اس لیے اس طرح کی جعل سازی کی تحقیقات کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔

جان وائمن کے مطابق ’اس طرح کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں وقت بھی بے حساب لگ جاتا ہے تاہم جان وائمن اس تمام فراڈ کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیتے ہیں۔‘

جان وائمن کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو سرمایہ کاری کے خطرات سے آگاہ کرنا ہی دھوکہ بازوں کو روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘

ایف بی آئی نے ورچوئل کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد پر کارروائی کے لیے گذشتہ سال ورچوئل ایسیسٹس یونٹ قائم کیا تھا۔

یہ یونٹ آن لائن فراڈ اور جعلسازی کے شکار ہونے والوں کے لیے بنایا گیا ہے جہاں ایک مخصوص صفحہ پر وہ اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں۔

لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھوکہ دہی کرنے والوں کی روک تھام کا اپنا طریقہ برقرار رکھا ہے۔

جان وائمن کہتے ہیں، ط سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی جمع پونجی کو کہیں بھی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنے سے پہلے مکمل معلومات لیں اور یہی سب سے اہم ہے۔ اس کا کلیہ یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو درست اور سچ محسوس ہو وہ بہتر ہی ہوتی ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔‘