امریکہ میں فضائی حادثات کے خطرات میں اضافہ

فضائی حادثے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی ہوائی اڈوں پر حال ہی میں کئی حادثات ہوتے ہوتے بچے ہیں اور اس صورت حال کا سبب ہوائی سفر کی بڑھتی ہوئی مانگ اور وبائی امراض کی وجہ سے افرادی قوت میں خلل ہو سکتے ہیں۔

ایوی ایشن انڈسٹری کے رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس ’سیفٹی سمٹ‘ بدھ کو ہوا جس میں حالیہ واقعات سے نمٹنے کے لیے بات چیت کی گئی۔

یہ اجلاس طیاروں کے درمیان تصادم کی ایک اور وفاقی تحقیقات کے آغاز کے ایک دن بعد ہوا ہے۔

رواں سال شہری ہوابازی کا یہ ساتواں واقع ہے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

وفاقی حکام اس وقت چھ ایسے واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں جن میں طیاروں کو رن ویز کے اوپر حادشہ پیش آنے کا خطرہ پیدا ہوا۔ ان واقعات میں ایک طیارے کے لگ بھگ منہ کے بل بحر الکاہل میں گرنے کے خدشے کا واقع بھی شامل ہے۔

تازہ ترین حادثہ سات مارچ کو واشنگٹن ڈی سی کے ریگن نیشنل ایئر پورٹ پر پیش آیا جب ریپبلک ایئرویز کی ایک پرواز بغیر کلیئرنس کے رن وے سے گزر گئی اور یونائیٹڈ ایئرلائنز کی ایک پرواز کو ٹیک آف منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

واقعے کی تحقیقات کرنے والے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کا کہنا ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر نے مداخلت کرتے ہوئے یونائیٹڈ پائلٹ کو بحفاظت روٹ کیا۔

بدھ کے روز واشنگٹن کے علاقے میں ایف اے اے کی میزبانی میں ہونے والے سیفٹی سمٹ میں حکام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ واقعات میں ’اضافہ‘ ہوا ہے اور بہت سے لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان حادثات کو حقیقی حادثات کی طرح سمجھا جائے۔

نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی چیئر وومن جینیفر ہومنڈی کا کہنا ہے کہ کسی ہلاکت یا حادثے کا واقع نہ ہونا محفوظ ہونا نہیں ہے۔ ’حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے ہم ہمیشہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘

سی بی ایس نیوز کے مطابق یہ 14 سال میں اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جسے صنعت کے لیے ’کال ٹو ایکشن‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس بات کا جائزہ لینے کا موقع ہے کہ آیا ریگولیٹری تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ایئر لائنز اب بھی پچھلے تین سالوں کی ہنگامہ آرائی سے نکل رہی ہیں۔ عالمی وبا نے نہ صرف قبل از وقت ریٹائرمنٹ، بڑے پیمانے پر برطرفیوں اور پوری صنعت کو مالی بحران سے دوچار کیا، بلکہ ایئرلائنز نے وبا کے آغاز میں آمدن میں کمی اور سفر کے لیے بےتاب مسافروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا۔

30 سال سے زیادہ پرواز کا تجربہ رکھنے والی کمرشل ایئرلائن پائلٹ لورا آئنسیٹلر کے مطابق، آخری بار انڈسٹری کو گیارہ ستمبر دو ہزار ایک میں اس طرح کے سنگین جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایف اے اے کے قائم مقام منتظم بلی نولن نے شرکا سے پوچھا کہ’ان حالیہ واقعات کی روشنی میں کیا ہم حفاظت سے زیادہ کارکردگی پر زور دے رہے ہیں؟‘

انھوں نے کہا، ’امریکہ کا ایوی ایشن سیفٹی نیٹ مضبوط ہے۔۔۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس نظام کو مزید بہتر کریں۔‘

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ایئر لائنز اب بھی پچھلے تین سالوں کی ہنگامہ آرائی سے نکل رہی ہیں۔ وبائی مرض نے نہ صرف قبل از وقت ریٹائرمنٹ، بڑے پیمانے پر برطرفیوں اور پوری صنعت میں مالی بحران کو ہوا دی، بلکہ ایئرلائنز وبا کے آغاز میں پیسے ضائع کرنے سے لے کر سفر کے کھوئے ہوئے وقت کو پورا کرنے کے لیے بے چین گاہکوں سے بھری ہوئی ہیں۔

30 سال سے زیادہ اڑان بھرنے کا تجربہ رکھنے والی کمرشل ایئرلائن کی پائلٹ لورا آئن سیٹلر کے مطابق، آخری بار انڈسٹری کو 9/11 کے دہشت گردانہ حملے سے اتنا شدید جھٹکا لگا، جس واقعے سے ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو بحالی میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگا۔

انھوں نے بیبی سی کو بتایا کہ پچھلے ایک سال کے دوران جو کچھ ہم اب دیکھ رہے ہیں، کیا یہ واقعی ہوائی سفر کا تیز رفتار اضافہ ہے اور ہم لوگوں کی خدمات حاصل کرکے وبا اپنے سے سے پچیس فیصد کارکنوں کے نقصان کو تیزی سے بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں ابھی تیز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بی بی سی کو بتایا کہ 'ہم گذشتہ ایک سال کے دوران فضائی سفر میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وبائی مرض کے دوران نکالے جانے والے اپنے 20 سے 25 فیصد کارکنوں کے نقصان کو نئی ملازمتوں سے پورا کر رہےہیں اور معاملات کو تیز رفتار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ سب ہوابازی کے شعبے کے تناؤ کے مترادف ہے، کیونکہ ہوائی سفر کی زیادہ طلب شاید زیادہ کام کرنے والی اور کم تجربہ کار افرادی قوت کے موافق ہے۔

مثال کے طور پر بدھ کے اجلاس میں پینلسٹس نے نوٹ کیا کہ ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں اب پورے امریکہ میں 1,200 کم ہوائی ٹریفک کنٹرولرز موجود ہیں۔

آئن سیٹلر نے مزید کہا کہ ’ہم میں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہوائی اڈوں کے اندر اور باہر جانے کا دباؤ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ہمیں سست ہونے اور حالات سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے‘۔