’راشد خان کا نعرۂ مستانہ‘

راشد خان

،تصویر کا ذریعہPSL

  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

لیگ سپنرز عموماً نرم خُو، خوش مزاج اور ہنس مُکھ ہوا کرتے ہیں۔ انھیں اپنے ہنر کا سکہ منوانے کو فاسٹ بولرز کے جیسی لفظی گولہ باری کی ضرورت نہیں پڑتی، انگلیوں کا جادو ہی کافی رہتا ہے۔

بطور کپتان شاہین آفریدی تجربات سے کتراتے نہیں ہیں۔ کپتان کو یہ سہولت بھی میسر ہوتی ہے کہ جب جی چاہا، خود بیٹنگ کو چلا آیا اور جب دل کیا، خود ہی بولنگ شروع کر دی۔

شاہین آفریدی اپنے اس اختیار سے خوب لطف اٹھا رہے ہیں۔ اس سیزن وہ مڈل آرڈر کے لگ بھگ سبھی نمبروں پہ مستفید ہو چکے ہیں مگر یہاں غالباً وہ پہلی بار عین صحیح نمبر اور صحیح وقت پہ پہنچے۔

جس وقت شاہین کریز پہ پہنچے، قلندرز کا متوقع مجموعہ اس پچ کی استعداد سے کم رہنے کو تھا۔ اگرچہ ملتان کے پیسرز خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر پائے مگر سٹریٹیجک ٹائم آؤٹ کے بعد جب اینڈی فلاور کے مشورے پہ اسامہ میر کو اٹیک میں لایا گیا تو قلندرز کے قدم لڑکھڑا گئے۔

وہاں شاہین آفریدی جیسے کسی زور آور کی ہی ضرورت تھی جس کی کلائیوں کی تیزی محمد رضوان کے منصوبے ڈھیر کر پاتی۔ جہاں ڈیتھ اوورز میں پلان فُل لینتھ پہ وائیڈ لائن کا طے پایا تھا، وہاں لینتھ کے زون میں بالآخر کوئی ایسی لائن نہ بچی جو شاہین کے لمبے بازوؤں کی رسائی سے دور رہ پاتی۔

ٹورنامنٹ کے بہترین بولر احسان اللہ نے سیزن کا اختتام اپنے بدترین اوور سے کیا اور شاہین آفریدی کی بیٹنگ مہارت نے میچ کو زندہ کر دیا۔ اگر اس بیٹنگ فرینڈلی وکٹ پہ مجموعہ 180 کے لگ بھگ رہ جاتا تو ملتان کی منھ زور بیٹنگ لائن دو اوورز پہلے ہی لکیر کے پار پہنچ جاتی۔

لیکن شاہین نے جب خود بولنگ کا آغاز کیا تو حسبِ عادت فُل لینتھ سے اِن سوئنگ کھوجنے کی کوشش میں یہ بھول گئے کہ ابھی کچھ ہی لمحے پہلے وہ خود اسی پچ پہ فُل لینتھ کی بھد اڑا چکے تھے۔ عثمان خان نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو خود انھوں نے ملتان کے پیسرز کے ساتھ کیا تھا۔

راشد خان

،تصویر کا ذریعہLAHORE QALANDARS

یہاں پیسرز کے لیے فُل لینتھ زہرِ قاتل ثابت ہو رہی تھی اور اگر معاملہ اسی ڈگر پہ چلے جاتا تو ٹائٹل کے دفاع کا خواب دم توڑ جاتا۔ رائلی روسو نے جب قلندرز کی امیدوں پہ پانی پھیرنے کا آغاز کیا تو قلندرز کا ایک ہی مہرہ تھا جو یہ بازی پلٹ سکتا تھا۔

راشد خان کہتے ہیں کہ اگر بلے باز ان سے بچنے بچانے کی کوشش کر رہا ہو تو وہ بہت لطف محسوس کرتے ہیں مگر جب کوئی انہیں چھکا رسید کرتا ہے تو پھر 'مزہ' آتا ہے۔ اچانک ایک جذبہ سا عود کر آتا ہے، ان کے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور وکٹ اڑانے کی خواہش بیدار ہو جاتی ہے۔

سمیع چوہدری کے دیگر کالم

سلطانز نے جس بے خوفی سے ٹرافی کے تعاقب کا آغاز کیا تھا، وہ ہرگز قلندرز کی رسائی میں نہ آ پاتی اگر روسو اسی جذبے سے چار اوورز مزید اس پچ پہ گزار جاتے۔ وہاں راشد خان کے اس سپیل نے زمان خان اور شاہین آفریدی کو وہ مطلوبہ رن ریٹ فراہم کیا جہاں سے ڈیتھ اوورز کے لیے دونوں پیسرز کا کام سہل ہوا۔

پی ایس ایل 8 کی انفرادیت رہی ہے کہ پہلی بار بیٹنگ اور بولنگ دونوں شعبوں میں فارن کی بجائے لوکل پلیئرز فیصلہ کن مراحل پہ کلیدی کردار نبھاتے آئے ہیں۔ مگر ٹورنامنٹ کے اختتامی نوٹ پہ ایک ایسے فتح گر کی مسکراہٹ ہے جسے اگر لوکل نہ کہا جائے تو فارن کہے بھی بات بنتی نہیں۔

راشد خان عموماً وکٹ لینے کے بعد ہنستے مسکراتے نظر آیا کرتے ہیں مگر روسو کو آؤٹ کرنے کے بعد ان کا جوش دیدنی تھا۔ اس سے قبل روسو نے جو جارحیت دکھائی دی، اس نے راشد کے اندر وہی جذبہ پیدا کر دیا تھا جس سے وہ 'محظوظ' ہوا کرتے ہیں۔

اگرچہ میچ کی دونوں اننگز کے اختتامی نوٹ شاہین آفریدی کے ہنر نے ثبت کیے مگر یہ بیچ کے اوورز میں راشد خان کا نعرۂ مستانہ ہی تھا جو قلندرز کو میچ میں واپس لے آیا اور ٹرافی کو قلندرز تک۔