Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر پوتن کے لیے عالمی عدالت کے وارنٹ گرفتاری کیا معنی رکھتے ہیں؟

کوسوو کے سابق صدر ہاشم تھاسی پر اگلے ماہ جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا امکان ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ہو سکتا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو جلد ہی ہیگ میں کسی سیل کے اندر نہ دیکھا جا سکے لیکن اُن کی جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ ان کے آزادانہ سفر اور دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پوتن تیسرے سربراہ مملکت ہیں جن پر اقتدار میں رہتے ہوئے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے فرد جرم عائد کی ہے۔
وارنٹ گرفتاری کے بعد روس کے صدر کیا نتائج بھگت سکتے ہیں۔

کیس کیا ہے؟

آئی سی سی نے کہا تھا کہ اس نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے جنگی جرائم پر وانٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ ان پر یوکرین کے سینکڑوں بچوں کو ملک بدر اور غیرقانونی طور پر روسی فیڈریشن بھیجنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کریملن نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور روس کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’آئی سی سی کا فیصلہ ہمارے ملک کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور قانونی نقطہ نظر سے بھی۔‘

بیرون ملک سفر

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے 123 رکن ممالک صدر پوتن کو حراست میں لے کورٹ کے حوالے کر سکتے ہیں۔ روس اس کا رکن ملک نہیں اور نہ ہی چین، امریکہ یا انڈیا جو رواں برس کے آخر میں بڑی معیشتوں کے گروپ جی 20 کی میزبانی کرے گا۔
بین الاقوامی فوجداری کی عدالت روم سٹیٹیوٹ کے تحت قائم کی گئی تھی جس کی توثیق یورپی یونین کے تمام ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، برازیل، برطانیہ، کینیڈا، جاپان، میکسیکو، سوئٹزرلینڈ، 33 افریقی ممالک اور جنوبی بحرالکاہل کے 19 ممالک نے کی۔

یورپ سمیت افریقی ممالک نے آئی سی سی کی توثیق کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2000 میں روس نے روم سٹیٹیوٹ پر دستخط کیے لیکن پھر روس 2016 میں اس معاہدے سے اس وقت دستبردار ہوا جب آئی سی سی نے ماسکو کی جانب سے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضے کو مسلح تنازعے کی درجہ بندی میں شامل کیا۔
اتریچ یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایوا ووکوسک نے کہا ہے کہ ’پیوتن بیوقوف نہیں ہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کا سفر نہیں کریں گے جہاں ان کو گرفتار کیے جانے کا امکان ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان ممالک کے علاوہ باہر کہیں اور سفر نہیں کر سکیں گے جو یا تو واضح طور پر اتحادی ہیں یا کم از کم کسی حد تک روس کے ساتھ ہو۔

آئی سی سی کا ماضی کا تجربہ

سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر اور لیبیا کے معمر قذافی وہ واحد سربراہ حکومت ہیں جنپر  آئی سی سی نے ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہوئے فرد جرم عائد کی ہے۔
2011 میں معمر قذافی پر الزامات معزول اور ہلاک ہونے کے بعد ختم کر دیے گئے تھے۔
عمر البشیر جن پر 2009 میں دارفر میں نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا تھا، ایک دہائی تک صدر کے عہدے پر فائز رہے جب تک کہ ایک بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔
اس کے بعد سوڈان میں دیگر جرائم کے لیے ان پر مقدمہ چلایا گیا لیکن آئی سی سی کے حوالے نہیں کیا گیا۔
انہوں نے اپنے دور حکومت میں متعدد عرب اور افریقی ممالک کا سفر کیا جن میں آئی سی سی کے رکن ممالک چاڈ، جبوتی، اردن، کینیا، ملاوی، جنوبی افریقہ اور یوگینڈا شامل ہیں۔ ان ممالک نے ان کو حراست میں لینے سے انکار کیا۔
عدالت کی حکم عدولی کی بنا پر آئی سی سی نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل سے رجوع کیا تھا۔

سوڈان میں دیگر جرائم کے لیے سابق صدر عمر البشیر پر مقدمہ چلایا گیا لیکن آئی سی سی کے حوالے نہیں کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عہدہ چھوڑنے کے بعد آئی سی سی نے آئیوری کوسٹ کے صدر لارینٹ گباگو پر مقدمہ چلایا تھا اور تین سال کے بعد 2019 میں ان کو الزامات سے بری کر دیا تھا۔
کینیا کے صدر ولیم روتو اور ان کے جانشین اوہورو کینیاتا دونوں کو منتخب ہونے سے قبل آئی سی سی نے فرد جرم عائد کیا تھا تاہم بعد میں ان کے خلاف الزامات ختم کر دیے گئے۔
کینیاتا وہ واحد رہنما ہیں جو اپنے عہدے پر رہتے ہوئے آئی سی سی کے سامنے پیش ہوئے۔

 دیگر عدالتیں

آئی سی سی کے علاوہ کئی سابق رہنماؤں پر بین الاقوامی عدالتوں نے مقدمہ چلایا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سربیا اور یوگوسلاویہ کے سابق صدر سلوبودان میلوژوک کسی بین الاقوامی ٹریبیونل کے سامنے پیش ہونے والے سربراہ مملکت تھے۔ ان پر 90 کی دہائی میں بلقان جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مقدمہ اقوام متحدہ کی عدالت میں چلایا گیا تھا۔ فیصلہ آنے سے قبل 2006 میں دوران حراست ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
لائیبیریا کے سابق رہنما چارلس ٹیلر کو 2012 میں اقوام متحدہ کی خصوصی عدالت نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا۔
کوسوو کے سابق صدر ہاشم تھاسی جو 90 کی دہائی میں بلقان جنگوں میں سربیا اور یوگوسلاویہ کے سابق صدر سلوبودان میلوژوک کے مخالفین میں سے ایک تھے۔ دی ہیگ نے ان پر 90 کی دہائی میں ملک میں جاری تنازع میں منفی کردار ادا کرنے پر جنگی جرائم کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی تھی۔ ان پر اگلے ماہ مقدمہ چلانے کا امکان ہے۔

شیئر: