پینگوئن کی آنکھوں میں موتیا بند کا پہلا آپریشن: ’ہم نے ان کی آنکھوں میں بادل چھائے دیکھے‘

پینگوئن

،تصویر کا ذریعہMANDAI WILDLIFE GROUP

  • مصنف, نیکولس ینگ
  • عہدہ, بی بی سی، سنگاپور

ایشیا کے سب سے بڑے پرندہ گھر سے انھیں برف سے بھری بالٹیوں میں بیٹھا کر سرد ایئر کنڈیشنڈ وین میں لے جایا گیا۔

30 کلومیٹر کے ایک تیز سفر کے بعد تین بڑے پینگوئن اور تین ہمبولٹ پینگوئن سنگاپور کے مشرق میں واقع ایک کلینک پہنچے۔

وہاں پانچ افراد پر مشتمل ویٹنری ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آنکھوں کے ایک نازک آپریشن کے لیے ان کی منتظر تھی۔ اس آپریشن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ پینگوئن کی آنکھوں کا دنیا میں پہلا آپریشن تھا۔

ان چھ پینگوئنز کی آنکھوں سے پہلے موتیابند کی جھلی ہٹائی گئی۔ ایک عمر کے بعد بوڑھے جانوروں میں اس طرح کی پریشانی آجاتی ہے جو ان کی بصارت میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ جھلی ہٹانے کے بعد ان کی آنکھوں میں انٹرا اوکولر لینس لگائے گئے۔

منڈائی وائلڈ لائف گروپ (ایم ڈبلیو جی) نے کہا کہ ان لینسز کو جرمنی میں ہر ایک پینگوئن کی آنکھوں کی پیمائش کے بعد ان میں درست طور پر فٹ ہونے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اسے بنانے میں تقریباً دو ماہ لگے۔ یہ گروپ سنگاپور کے چار وائلڈ لائف پارکوں میں تقریباً 1,000 نسلوں پر مشتمل تقریباً 21,000 جانوروں کے انتظام دیکھتا ہے۔

ایم ڈبلیو جی میں جانوروں کے ڈاکٹر ایلن راسیدی نے کہا: 'ہم نے ان کی آنکھوں میں بادل چھائے ہوئے دیکھے اور [کہ وہ] ایسے حرکت کر رہے تھے جیسے انھیں اپنے سامنے کی چیزوں کو دیکھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔'

پینگوئن

،تصویر کا ذریعہMANDAI WILDLIFE GROUP

اس کے فوراً بعد پینگوئن کو پانی سے باہر ان کے باقی ساتھیوں سے الگ ایک جگہ رکھ دیا گیا۔ ان کی آنکھوں میں روزانہ دوا ڈالی جاتی ہے۔

اس کام میں ہر ایک پینگوئن پر تقریباً ڈھائی گھنٹے لگتے تھے اور اب تقریبا تین ماہ بعد وہ آبی پرندے اب واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کے ردعمل اور سرگرمی کی سطح میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔

ایم ڈبلیو جی نے ماضی میں دیگر جانوروں جیسے بڑی سیل اور اورنگوٹین پر موتیا بند کی سرجری کی ہے۔ اس نے ممکنہ طور پر پاؤں کی مہلک بیماری کے علاج کے لیے شکاری پرندوں کے لیے تھری ڈی حفاظتی جوتے پرنٹ کرنے جیسی اختراعات کو بھی اپنایا ہے۔

لیکن اس آپریشن کی قیادت کرنے والے ویٹنری آپتھیلمولوجسٹ ڈاکٹر گلیڈیز بو کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ پہلی بار ہے کہ پینگوئن پر کامیابی کے ساتھ انٹراوکولر لینس ایمپلانٹس کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ویٹنری میڈیسن میں ایک 'سنگ میل' ہے۔

ڈاکٹر بو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے صرف تین افراد میں سے ایک ہیں جو مشہور ویٹ ادارہ امریکن کالج آف ویٹنری آپتھلمولوجسٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'ایک نسبتا بڑی نسل کے جانور کے طور پر کنگ پینگوئن کی آنکھیں بڑی اور مستحکم ہوتی ہیں جو اپنے لینسز کو اپنی جگہ پر رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اس لیے ہم نے اس طریقہ کار کو اپنانے کا فیصلہ کیا جو کہ دنیا میں پہلا اس قسم کا آپریشن تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پینگوئن

،تصویر کا ذریعہMANDAI WILDLIFE GROUP

پینگوئن کی انوکھی خصوصیات کی وجہ سے یہ سرجری پیچیدہ تھی۔ جیسے کہ ان کی آنکھوں کی حفاظت کے لیے تیسری پلک ہوتی ہے اور وہ ان کی آنکھوں کو پانی کے اندر محفوظ رکھتی ہے لیکن سرجری کے دوران ان کے بند ہونے کا رجحان تھا۔

ایم ڈبلیو جی نے سرجری کی لاگت کو ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، لیکن کہا کہ یہ پینگوئن کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔

پینگوئن کی آنکھوں کی تکلیف کی تشخیص ڈاکٹر بو نے گذشتہ اگست میں ایم ڈبلیو جی کے معمر جانوروں کی دیکھ بھال کے منصوبے کے حصے کے طور پر کیے گئے چیک اپ کے دوران کی۔ بوڑھے جانوروں کی خصوصی دیکھ بھال کا یہ کام سنہ 2017 سے جاری ہے۔

اس کے تحت 361 بوڑھے جانوروں کے لیے بار بار صحت کی جانچ ہوتی ہے اور خصوصی خوراک کے ساتھ ساتھ ان کی مدد کے لیے مخصوص ایڈجسٹمنٹ کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی آسانی کے لیے نچلی سطح پر ڈالیا یا بسیرا بنایا جاتا ہے اور ان کے ترجیحی آرام کے علاقوں میں اضافی پیڈنگ یا بستر شامل کیا جاتا ہے۔

یہ پینگوئن سنگاپور کے جورونگ برڈ پارک میں رہتے ہیں اور یہ پارک سیاحوں کی توجہ کا ایک مشہور مرکز ہے جس میں تقریباً 5000 پرندے رہتے ہیں۔

کنگ پینگوئن جنوبی بحر اوقیانوس اور جنوبی بحر ہند سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کے دوسرے سب سے بڑے پرندے ہیں، جبکہ ہمبولٹ پینگوئن جنوبی امریکہ سے آتے ہیں۔ سابقہ پینگوئن قید میں 40 سال تک زندہ رہ سکتا ہے جبکہ آخر الذکر عام طور پر 15-20 سال تک زندہ رہتا ہے۔