صدر پوتن کا جنگ سے تباہ حال مقبوضہ ماریوپول شہر کا اچانک دورہ

روسی صدر

،تصویر کا ذریعہReuters

روس کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے ساحلی شہر ماریوپول کا اچانک دورہ کیا ہے، جسے روسی فوج نے تباہ کرنے کے بعد اس پر قبضہ کر لیا تھا۔

ایک سرکاری ویڈیو میں صدر پوتن کو رات کے وقت شہر کی گلیوں میں گاڑی چلاتے اور مقامی لوگوں سے بات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم بی بی سی کی جانب سے اس ویڈیو میں مقام کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

یہ صدر پوتن کا یوکرین کے نئے مقبوضہ علاقے کا پہلا دورہ ہو گا۔ تاژ نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ وہاں بذریعہ ہیلی کاپٹر پہنچے تھے۔

سرکاری طور پر جاری کردہ ویڈیو میں انھیں روس کے نائب وزیر اعظم مارات خوشنولن کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جو انھیں یہ بتا رہے ہیں کہ شہر کی تعمیر نو کیسے کی جا رہی ہے۔

پوتن فل ہارمونک ہال کا بھی دورہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو آزوسٹوال آئرن اینڈ سٹیل پلانٹ کے محافظوں کے ٹرائل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، یہ ایک بہت بڑا صنعتی کمپلیکس ہے جہاں یوکرین کے فوجیوں ہتھیار ڈالنے سے پہلے موجود تھے۔

خونریز جنگ اور طویل لڑائی میں تباہ حال ماریوپول 10 ماہ سے زائد عرصے سے روسی قبضے میں ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہاں جنگ کے دوران 20,000 سے زیادہ افراد مارے گیے۔

اقوام متحدہ کے تجزیہ کے مطابق شہر کی 90 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور یہاں سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جنگ سے قبل اس شہر کی آبادی پانچ لاکھ تھی۔

مقامی لوگوں کے ایک گروہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ روس شہر کی تعمیر نو کے لیے ایک مہنگی مہم چلا رہا ہے اور وہاں کے لوگوں کے دل و دماغ جیت رہا ہے۔ اس کا مقصد ماریوپول کو روس میں ضم کرنا اور اسے اپنا خطہ بنانا ہے۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ اب وہاں تین لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔

جنگ کے دوران روس کی جانب سے ماریوپول تھیٹر پر حملہ بھی دیکھنے میں آیا تھا جہاں سینکڑوں شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس حملے میں تھیٹر کی عمارت منہدم ہو گئی تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں کم از کم تین سو افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

یوکرین اور انسانی حقوق کی تنظمیوں نے اس حملے جو جنگی جرم قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ ان واقعات میں شامل ہے جن کے لیے صدر پوتن اور ان کی حکومت کو قانونی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

ماریا لیووا بیلووا، پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روس میں بچوں کے حقوق کی کمشنر ماریا لیووا بیلووا بھی آئی سی سی کو انھی جرائم میں مطلوب ہیں۔

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے روسی صدر پوتن کے وارنٹ گرفتاری

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن پر یوکرین میں جنگی جرائم کا الزام لگاتے ہوئے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔

آئی سی سی نے روسی صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جنگی جرائم اور خاص طور پر بچوں کو غیر قانونی طریقے سے یوکرین سے روس منتقل کرنے کے الزامات کے تحت جاری کیے ہیں۔

عدالت نے کہا ہے کہ یہ جرائم 24 فروری 2022 کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد کیے گئے۔

ماسکو نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے پوتن کے خلاف وارنٹ گرفتاری کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا ہے۔

سابق روسی صدر دمتری میدویدیف نے وارنٹ کا موازنہ ٹوائلٹ پیپر سے کیا۔ انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کاغذ کو کہاں استعمال ہونا چاہیے۔‘ اپنی ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے ٹوائلٹ پیپر کا ایموجی بھی استعمال کیا۔

واضح رہے کہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اس اقدام سے آگے کچھ ہو گا کیونکہ عالمی عدالت کے پاس ملزموں کو گرفتار کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔

آئی سی سی صرف رکن ممالک کے اندر اپنا دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہے اور روس آئی سی سی کا رکن نہیں تاہم یہ اقدام روسی صدر کو دوسرے چند طریقوں سے متاثر کر سکتا ہے، جیسے کہ ان کے بین الاقوامی سفر پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔

روس میں بچوں کے حقوق کی کمشنر ماریا لیووا بیلووا بھی آئی سی سی کو انھی جرائم میں مطلوب ہیں۔

ماریا بیلووا ماضی میں، روس لے جانے والے یوکرینی بچوں کی نئی سرے سے تعلیم و تربیت کے بارے میں کھل کر بات کرتی رہی ہیں۔

آئی سی سی کا کہنا ہے کہ اس نے ابتدائی طور پر وارنٹ گرفتاری خفیہ رکھنے پر غور کیا لیکن پھر روس کو مزید جرائم کے ارتکاب سے روکنے کے لیے وارنٹ عام کرنے کا فیصلہ کیا۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچوں کو جنگ میں مال غنیمت نہیں سمجھا جا سکتا، انھیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔‘

آئی سی سی کی جانب سے روسی صدر کے وارنٹ گرفتاری کے اعلان کے بعد روس کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

تاہم روس میں اپوزیشن رہنماؤں نے آئی سی سی کے اس اقدام کو سراہا ہے۔ دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسیکی نے بھی آئی سی سی کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔