مودی کی ڈگری مانگنے پر 25 ہزار روپے جرمانہ: ’کیا ملک کو جاننے کا حق نہیں کہ وزیر اعظم کتنا پڑھا لکھا ہے؟‘

وزیر اعظم نریندر مودی

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشنانڈین وزیر اعظم نریندر مودی

انڈیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری سیاسی بحث کا حصہ رہی ہے۔ تاہم اس بحث میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی جانب سے یہی سوال عدالت کے سامنے اٹھانا مہنگا پڑ گیا۔

انڈیا کی ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو نریندر مودی کی ڈگری کی تفصیلات مانگنے پر 25,000 روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے ان کے ارادے پر شک کا اظہار بھی کیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کیجریوال کو ایک ایسے معاملے کو متنازع بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ وزیر اعظم کی ڈگریاں پہلے ہی عام کی جا چکی ہیں۔

واضح رہے کہ عام آدمی پارٹی ماضی میں بھی نریندر مودی کی تعلیمی قابلیت پر سوال اٹھا چکی ہے اور دو ہزار سولہ میں وزیر اعلی اروند کیجریوال نے باقاعدہ طور پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن سے درخواست کی کہ معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے تحت وزیر اعظم کی ڈگری کی معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔

تاہم بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں جاری کرتے ہوئے اروند کیجریوال سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نریندر مودی سے ان کی ڈگریوں کو جعلی قرار دینے کے لیے معافی مانگیں۔

اس کے باوجود کیجریوال کی جانب سے درخواست کے جواب میں انڈیا کے سینٹرل انفارمیشن کیمشن (سی آئی سی) نے وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ دلی اور گجرات یونیورسٹیوں کو مودی کی ڈگریاں فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

اپنے حکم نامے میں گجراٹ کی عدالت نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کو کسی بھی بڑے عوامی مفاد کی عدم موجودگی میں اپنی تعلیمی ڈگریاں دکھانے کے معاملے میں آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (ای) اور (جے) کی شقوں کے تحت انکشاف سے استثنیٰ حاصل ہے۔

سوشل میڈیا پر وزیر اعظم مودی کی ڈگریوں کی تصویر پوسٹ کی جا رہی ہے

،تصویر کا ذریعہsocial media

،تصویر کا کیپشنسوشل میڈیا پر وزیر اعظم مودی کی ڈگریوں کی تصویر پوسٹ کی جا رہی ہے

’کیا ملک کو یہ جاننے کا حق نہیں کہ وزیر اعظم کتنے پڑھے ہوئے ہیں‘

دوران سماعت ایک رکنی بینچ کے جسٹس ویشنو کی جانب سے سخت ریمارکس سامنے آئے۔

انھوں نے کہا، ’اروند کیجریوال کا آر ٹی آئی کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعلیمی ڈگری حاصل کرنے پر اصرار ان کی دیانتداری اور مقصد کے متعلق شک پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ (ڈگریاں) پہلے سے ہی عوامی ڈومین میں ہیں۔‘

عدالت کے مطابق’اروند کیجریوال نے بلاشبہ اس کے خلاف اپیل کا استعمال کرتے ہو ایک تنازعے کی شروعات کی ہے جو کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے اور انھوں نے ایسا کس مقصد کے لیے کیا ہے اس میں اس عدالت کو جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

گجرات یونیورسٹی نے سنہ 2016 میں فوری طور پر وزیر اعظم مودی کی ڈگری اپنی ویب سائٹ پر ڈال دی، لیکن ساتھ ہی انفارمیشن کمیشن کے حکم کو اصولی طور پر چیلنج کیا۔

ساتھ ہی ساتھ حکمراں جماعت بی جے پی نے بھی اس کی نقول شیئر کی ہیں جوان کے مطابق وزیر اعظم کی دہلی یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی اور گجرات یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگریاں تھیں۔ اروند کیجریوال نے اس وقت دعوی کیا تھا کہ دستاویزات میں ’واضح تضادات‘ ہیں۔

گجرات ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد اروند کیجریوال نے ٹویٹ کرتے ہوئے پوچھا ’کیا دیش کو یہ جاننے کا حق نہیں کہ وزیر اعظم کتنے پڑھے ہوئے ہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت میں انھوں نے ڈگری دکھائے جانے کی پرزور مخالفت کیوں کی اور ان کی ڈگری دیکھنے کا مطالبہ کرنے والے پر جرمانہ لگا دیا جائے گا؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے وزیر اعظم ملک کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔‘

کیجروال

،تصویر کا ذریعہHindustan times

عدالت کے فیصلے اور ارویند کیجروال کی ٹوئٹ کے بعد سے انڈیا کے سوشل میڈیا پر ’ڈگری‘ ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔

سوشل میڈیا پر کچھ لوگ وزیر اعظم کی ڈگریوں کی تصاویر کے ساتھ جواب دے رہے ہیں تو کچھ لوگ مزید دوسرے سوالات پوچھ رہے ہیں۔

خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق بی جے پی کے رہنما اور ترجمان سمبت پاترا نے کہا کہ ’گجرات ہائی کورٹ نے اروند کیجریوال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں، پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ وہ مایوس ہیں کیونکہ ان کے وزرا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور انھیں عدالت سے ضمانت نہیں مل رہی ہے۔‘

وزیر اعظم کی تعلیمی لیاقت تناظر میں اس سے قبل دہلی میں کئی جگہ نظر آنے والے پوسٹرز میں پوچھا گیا ہے کہ ’کیا انڈیا کے وزیر اعظم پڑھے لکھے ہونے چاہیں؟‘

ششانک شیکھرجھا سپریم کورٹ کے ایک وکیل ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم کی بی اور ایم اے کی ڈگریوں کی تصاویر ڈال کر اروند کیجریوال کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا ’گجرات یونیورسٹی نے گجرات ہائی کورٹ کو مطلع کیا کہ نریندر مودی جی کی ڈگری ان کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ جس کے بعد گجرات ہائی کورٹ نے سی آئی سی کے حکم کو مسترد کر دیا اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا۔‘

بی جے پی کے بہت سے حامی ٹوئٹر صارفین نے انڈیا کے وزیر اعظم کی یہ ڈگریاں پوسٹ کی ہیں جس کے متعلق ایک اور سوال سامنے آیا ہے کہ آیا کوئی ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ میں ایم اے کر سکتا ہے کیا اور یہ کہاں ہوتا ہے۔

جب یہ معاملہ طول پکڑ رہا تھا تو پروفیسر اشوک سوائیں نے ٹویٹ کیا کہ ’مودی کے علاوہ دنیا میں کسی کے بھی پاس انٹائر پولیٹیکل سائنس میں ڈگری نہیں ہے۔ اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

سماجی کارکن اور معروف وکیل پرشانت بھوشن نے گجرات عدالت کے فیصلے پر لکھا: ’لاجواب! گجرات ہائی کورٹ نے پی ایم او اور یونیورسٹیوں وغیرہ کو ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ میں مودی کی ڈگری کی کاپیاں پیش کرنے کے لیے سی آئی سی کے حکم کو برطرف کر دیا۔‘

پرشانت بھوشنکے مطابق ’کچھ جج آر ٹی آئی قانون کی اے بی سی نہیں جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام امیدواروں کو اپنی ڈگریاں ظاہر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ کیا وزیراعظم پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

اپنی ایک اور ٹویٹ میں پرشانت بھوشن میں لکھا، ’غیر تعلیم یافتہ ہونا کوئی جرم نہیں اور نہ ہی یہ کوئی شرم کی بات ہے۔ لیکن حلف نامہ دے کر جھوٹ بولنا کہ میں نے بی اے اور ایم اے کیا ہے 'انٹائر پولیٹیکل سائنس (مکمل سیاسیات) میں کیا ہے یہ یقیناً ایک جرم اور شرم کی بات ہے۔ اس کے بعد اپنی مبینہ ڈگری کو ملک کے عوام سے چھپانا بڑی شرم کی بات ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بعض صارفین وزیر اعظم مودی کا پرانا انٹرویوز بھی شیئر کر رہے ہیں جس میں انھوں نے اینکر راجیو شکلا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ 17 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگ نریندر مودی کا ایک اور مبینہ انٹرویو کا حوالہ دے رہے ہیں جس میں انھوں نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ میکینیکل انجینیئر ہیں۔

زاہد گہلوت نامی ایک صارف نے ایک سکرین شاٹ پوسٹ کیا جس میں لکھا ہے کہ مودی جی نے کنڑ زبان کی میگزین ترنگ کو سنہ 1992 میں انٹرویو دیا جس میں انھوں نے خود کو میکینیکل انجینیئر بتایا ہے اور ان سے پوچھا کہ ’نریندر مودی جی برائے مہربانی وضاحت کریں کہ آپ نے ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ میں ڈگری لی ہے یا ’میکینیکل انجینیئر‘ کی ڈگری لی ہے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث میں حصہ لیتے ہوئے معروف انڈین صحافی رویش کمار نے ایک پرانا نیوز کلپ پیش کیا جس میں وہ انٹائر پولیٹیکل سائنس کی وضاحت کر رہے ہیں کہ در اصل گجرات میں ’سمپورن راجیہ شاستر‘ میں ڈگری ہوتی ہے جس کا سیدھا سا ترجمہ انٹائر پولیٹیکل سائنس کر دیا گیا ہے۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہندی میں راجیہ شاستر کی جگہ راجنیتی شاستر ہوتا ہے۔

معاملہ چاہے جو ہو عام آدمی پارٹی نے وزیر اعظم مودی کے خلاف قومی مہم شروع کر دی ہے جس کے ایک حصے کے طور پران کی مخالفت والے ہزاروں پوسٹر لگائے گئے ہیں۔

عام آدمی پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ اس مہم کا مقصد بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں کو نشانہ بنانا ہے جو ’عام آدمی کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔‘