انڈیا میں ریسلرز کا احتجاج: ’ہم سب اپنی بہترین فارم میں ہیں اور اپنے عروج پر نہ کھیلنا ہمیں اندر سے مار دے گا‘

پھوگاٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, زویا متین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی

ونیش پھوگاٹ کے لیے سال 2023 ہر لحاظ سے ایک مشکل سال رہا ہے۔

عالمی چیمپئن شپ اور ایشین گیمز کے مقابلے شروع ہونے میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں، انڈین پہلوان کی ٹریننگ اس وقت زوروں پر ہوں گی۔

وہ اسے ٹریننگ کا وہ نقطہ عروج قرار دیتی ہیں جہاں آپ کا جسم خود بخود حرکت شروع کر دیتا ہے اور آپ کی ہڈیوں تک کو بھی پتا ہوتا ہے کہ اب آپ نے کیا کرنا ہے۔

ورلڈ چیمیئن شپ میں دو مرتبہ تمغہ جیتنے والی پھوگاٹ کے لیے تیسری مرتبہ بھی تمغہ حاصل کرنے کا موقع ہے۔

لیکن وہ کسی تربیتی کیمپ میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے بجائے، انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ایک سڑک پر چھوٹے سے خیمے میں رہ رہی ہیں، جہاں آج کل درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے۔ وہ گذشتہ ایک ماہ سے ’بہت کم نیند‘ اور ’مسلسل شور‘ کا شکار ہیں۔

پھوگاٹ کا شمار ملک کے سب سے کامیاب پہلوانوں کے گروہ میں ہوتا ہے اور یہ لوگ آج کل اپنی ریسلنگ فیڈریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا الزام لگانے کے بعد احتجاج کر رہے ہیں۔

اولمپک میں میڈلز جیتنے والوں سمیت یہ پہلوان ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے استعفیٰ اور گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھوشن سنگھ نے دہلی پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ میں اپنے پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے احتجاج کو سیاسی قرار دیا ہے۔

منگل کو ان مظاہروں کو شروع ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ اور اس احتجاج نے ہونے والی چیمپئن شپ میں انڈیا کے لیے ریسلنگ کا تمغہ جیتنے کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس سے کھلاڑی نہ صرف پریشان ہیں بلکہ دل برداشتہ بھی ہیں۔

یہ مظاہرے اگلے سال ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں انڈیا کے ریسلنگ میں ایک اور تمغہ جیتنے کے خواب بھی ختم کر سکتے ہیں۔ ملک نے ریسلنگ میں اب تک سات اولمپک تمغے جیتے ہیں، ان میں سے سات 2008 سے اب تک جیتے ہیں۔

ریسلرز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنہ 2020 کے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے پہلوان بجرنگ پونیا کہتے ہیں کہ ’پورے ملک نے ایک اور تمغہ حاصل کرنے کے لیے ہم سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور ہم واقعی ایسا چاہتے ہیں، لیکن یہاں ہم 30 دن سے بغیر کسی حل کے بیٹھے ہیں۔‘

ہر سال بین الاقوامی اولمپک کمیٹی چند ایونٹس کو اولمپکس مقابلوں کے لیے کوالیفکیشن ایونٹس کے طور پر مختص کرتی ہے۔

اینٹر دی دنگل: ٹریولز تھرو انڈیاز ریسلنگ لینڈ سکیپ کے مصنف، رودرنیل سینگپتا کہتے ہیں کہ ریسلنگ کے لیے ستمبر میں ہونے والی عالمی چیمپئن شپ وہ ایونٹ ہے، جو اسے اولمپکس کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ عالمی چیمپئن شپ یا نیشنل گیمز بھی نہ صرف اولمپکس کے کوالیفائر کے طور پر اہم ہیں بلکہ اس کی ویسے بھی ملکی سطح پر بھی اہمیت ہے کیونکہ یہ کسی بھی کھیل اور کھلاڑی کے لیے بڑے ایونٹ ہوتے ہیں۔

کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجی مقام پر اپنی ٹریننگ جاری رکھے ہوئے ہیں جو دسمبر میں شروع ہوئی تھی لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ شاید یہ کافی نہ ہو۔

سینگپتا کہتے ہیں کہ ’پہلوانی جسمانی طور پر ایک انتہائی مشکل کھیل ہے۔ بہترین فارم میں رہنے کے لیے آپ کو انتہائی مشکل ٹریننگ کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ مسلسل مشق کرتے رہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ضروری کنڈیشنگ کے بغیر، ایک کھلاڑی کے پہلے 30 سیکنڈ میں ہارنے کا امکان ہوتا ہے ’چاہے اس کی صلاحیت اور ماہرت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں۔‘

پونیا کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اس سال ایشیائی رینکنگ سیریز سمیت کچھ بڑے ٹورنامنٹس سے باہر ہو چکے ہیں۔

’لوگ کہتے ہیں کہ ہم ذاتی فائدے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن مقابلہ نہ کرنا ایک کھلاڑی کے لیے سب سے بری چیز ہے۔‘

ریسلرز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عام حالات میں پہلوانوں کی ٹریننگ کا آغاز صبح چار پانچ بجے ہو جاتا ہے، وہ کچھ وارم اپ ایکسرسائز کرتے ہیں اور روزانہ ان کی ٹریننگ کا معمول مختلف ہوتا ہے۔

کچھ دن وہ ویٹ ٹریننگ کی مشق کرتے ہیں، دیگر دنوں میں مجموعی طور پر فٹنس کو بہتر کرنے کے لیے کراس فنکشنل مشقوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ دن میں وہ اپنی تکنیک اور حکمت عملی پر کام کرنے کے لیے آزمائشی مقابلے کرتے ہیں۔

پھوگاٹ کہتی ہیں کہ ’یہ بڑی یکسوئی والی زندگی ہوتی ہیں آپ ٹریننگ کرتے ہیں، کھاتے ہیں سوتے ہیں اور دوبارہ اکھاڑے میں ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔‘

کسی بھی مقابلے کے لیے پہلے چند مہینوں کی ٹریننگ میں پہلوان اپنی جسمانی طاقت اور گرفت پر کام کرتے ہیں تاکہ وہ خود کو ان ’سخت مشقت والے حالات‘ کے لیے تیار کر سکیں جو ان کے منتظر ہیں۔

سینگپتا اسے ’مکمل توجہ سے ساتھ سخت ٹریننگ کا وقت‘ کہتے ہیں جس میں کھلاڑیوں کو صرف نظم و ضبط پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسمانی طاقت اور ذہنی تندرستی سے لے کر تکنیک تک جسم کے ہر حصے کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کی ہر حرکت، آواز اور سانس قائم رکھنے کی نگرانی کی جاتی ہے۔

سینگپتا کا کہنا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں ایک پہلوان کا جسم طاقت اور قوت کی مکمل حد پر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جسے ’دھماکہ خیز قوت‘ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ قوت کو ظاہر کرنا۔ یہ صرف بہت مختصر وقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے. اور پھر مقابلہ سے پہلے آخری مہینہ ہے، جہاں جسم کو آرام اور صحت یاب ہونے کا وقت دیا جاتا ہے۔

پونیا کا کہنا ہے کہ یہ اہم ہے کیونکہ اس دوران جسم کو آرام اور چوٹوں کو بھرنے کا وقت ملتا ہے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ ایشیئن چیمئین شپ اور عالمی چمپئن شپ دونوں ستمبر میں ہیں سینگپتا کا کہنا ہے کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ اگلے ہفتے تک مظاہروں کو ختم کیا جائے تاکہ پہلوان ’باقاعدہ اور بھرپور ٹریننگ‘ دوبارہ شروع کر سکیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر انھیں بھرپور ٹریننگ کے لیے تین ماہ بھی مل جاتے ہیں تو بھی شاید یہ ان کے چیمیئن شپ مقابلوں میں جیت کے لیے کافی نہ ہوں۔‘

یہ خدشہ دہلی میں احتجاج پر بیٹھے پہلوانوں کو بھی ہے۔

ریسلرز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سینکڑوں پولیس افسران اور شائقین کے درمیان گھرے ہوئے، وہ نیلی ترپال کی چادروں سے بنے چھتری والے خیمے میں رہ رہے ہیں۔

ایتھلیٹس دن بھر لوگوں کے درمیان موجود رہتے ہیں، ان سے ملتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور انٹرویو دیتے ہیں۔ لیکن فجر کے وقت، جب ان کے زیادہ تر حامی سو رہے ہوتے ہیں، وہ مختصر وقت کے لیے دوبارہ پہلوانوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

مسلسل تھکاوٹ اور پیشانی پر بہتے پسینے کے ساتھ وہ ایک دو گھنٹے قریبی ٹریننگ سینٹر میں اپنی ٹریننگ کرتے ہیں۔ اس دوران وہ کہتے ہیں کہ وہ مقابلوں میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مایوس بھی ہیں۔

کیمپ میں ٹریننگ کے وقف کردہ گھنٹوں کے مقابلے میں ان کے یہاں آ کر ٹریننگ کرنے کا وقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اور بعض اوقات وہاں موجود شائقین کی طرف سے بھی اس میں خلل پڑتا ہے۔

پھوگاٹ کہتی ہیں کہ ’دل سے ہم جانتے ہیں کہ ٹریننگ کا یہ معیار شاید کافی نہیں ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان حالات میں کیا بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں۔‘

ان کے رہنے کے حالات بھی کچھ مناسب نہیں ہے جس کی وجہ سے توجہ کو مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

رسیلرز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنہ 2016 میں اولمپکس مقابلوں میں ریسلنگ کا تمغہ جیتنے والی پہلی انڈین خاتون پہلوان ساکشی ملک کہتی ہیں کہ ’اگرچہ تربیتی کیمپ کی زندگی بھی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن یہ وہ زندگی ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ لیکن یہاں مناسب خوراک، نیند اور آرام کے بغیر رہنا اس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایسا کرنا پڑے گا۔‘

پونیا کا مزید کہنا ہے کہ ’مسئلہ ہارنا نہیں لیکن اپنا بہترین کھیل پیش کرنے کے قابل ہونا ہے۔‘

وہ سوال پوچھتے ہوئے کہتے ہیں ’مگر ان حالات میں ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہم نے اچھے طریقے سے ٹریننگ ہی نہیں کر سکتے۔‘

کھیل کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے سنگیپتا کہتے ہیں کہ پہلوانوں کی مقابلوں میں حصہ نہ لینے یا مقابلہ نہ کرنے میں ناکامی انڈیا کے جیت کے امکانات کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ملک میں اب بھی باصلاحیت پہلوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’لیکن نکتہ یہ ہے کہ یہ احتجاج انصاف کے بارے میں ہے اور اس طرح کے سنگین الزامات کے لیے مناسب کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟‘

پہلوانوں کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور پہلوان آ سکتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے، چاہے ان کے کیریئر کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

ساکشی ملک کہتی ہیں کہ ’ آواز اٹھانا یا بولنا پہلوان کا کام نہیں ہے، ہمارا کام ٹریننگ کرنا، کھیلنا اور جیتنا ہے لیکن آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اسے جاری رکھیں گے۔‘

ونیش پھوگاٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنا مشکل ہے کیونکہ ’ہم یہ کر سکتے تھے اور ہم وہ تمغہ جیت سکتے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب اپنی بہترین فارم میں ہیں اور اپنے عروج پر نہ کھیلنا ہمیں اندر سے مار دے گا۔‘