دو مجرموں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے والے ’سابق جلاد‘ جو دو مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, وقارمصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق

سنہ 1870 کے بعد کی چند دہائیوں میں امریکا میں پیسے کی ہوس اور سیاسی بدعنوانی یا کرپشن عروج پر تھی۔

مارک ٹوین اور چارلس ڈڈلی وارنر نے تجوریاں بھرتے صنعت کاروں اور بدعنوان سیاست دانوں سمیت اُس وقت کی کئی سرکردہ شخصیات کے خاکوں پرمشتمل ناول ’دی گلڈڈ ایج‘ لکھا تو اس دَور کو بھی ’گلڈڈ ایج‘ کا نام دے دیا گیا، سادہ الفاظ میں یہ امریکہ میں ’دھوکے کا دَور‘ تھا۔

امریکا کے دو بار صدر رہنے والے سٹیفن گروو رکلیولینڈ نے بھی سیاست کی ابتدا اِسی دور میں کی مگر وہ یک سر مختلف تھے۔ ان کی صدارت کی یہ دونوں مدتیں غیرمسلسل تھیں اور یہ اعزاز امریکہ کی تاریخ میں صرف انھی کو حاصل ہوا۔ مگر اور بھی بہت سے ایسے کام صدر کلیولینڈ کے نام سے جڑے کہ وہ منفرد ٹھہرے۔

سٹیفن گروور کلیولینڈ 18 مارچ 1837 کو نیو جرسی میں پیدا ہوئے، والد کی وفات کے بعد گھر چلانے کے لیے اٹھارہ سال کی عمر میں کلیولینڈ قسمت آزمانے نکلے۔ قسمت آزمائی کی اسی کوشش میں جب وہ نیو یارک پہنچے تو اگلے تقریباً تیس سال کے لیے وہیں کے ہو رہے۔

یہیں سنہ 1871 میں ایری کاؤنٹی کے شیرف منتخب ہونے والے کلیولینڈ ابتدائی طور پر یہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ پہلے ہی سے قانون کی پریکٹس کر رہے تھے اور سیاست میں ان کی دلچسپی بہت کم تھی۔

ڈیموکریٹک پارٹی میں کلیولینڈ کے دوست چاہتے تھے کہ وہ اپنی ایمانداری، دیانت داری اور عوامی خدمت کی بنیاد پر انتخاب لڑیں۔ اس وقت بدعنوانی ہر جگہ تھی اور ایری کاؤنٹی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی۔ ڈیموکریٹس نے کلیولینڈ کو اس کام کے لیے بہترین سمجھا۔ کاؤنٹی شیرف ایک اچھی تنخواہ والا عہدہ تھا سو انھوں نے ہچکچاتے ہوئے یہ نامزدگی قبول کر لی۔

انھوں نے کہا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ان کے عہدے اور خود ان کی عزت پر کوئی حرف آئے۔ وہ قانون کو بے خوف ہو کر لاگو کرتے اور اپنی ہر ذمہ داری کو پورا کرتے، تب انھیں ’بِگ سٹیو‘ کہا جاتا تھا۔

صدر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دو مجرموں کو خود پھانسیاں دیں

انھیں شیرف بنے ایک ہی سال ہوا تھا کہ ایک شخص پیٹرک موریسی کو نشے میں اپنی ماں کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ شیرف دس ڈالر کے عوض کسی اور جلاد سے بھی یہ کام لے سکتے تھے لیکن انھوں نے خود ہی پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ۔

چھ ستمبر 1872 کو مستقبل کے صدر نے لیور دبایا جس سے موریسی کے پاؤں کے نیچے سے تختہ نکل گیا اور وہ ہوا میں جھول گئے۔ نیو یارک ٹائمز نے بہت بعد میں رپورٹ کیا کہ ’اس چھوٹے سے سانحے کے باعث کلیولینڈ کئی دنوں تک بیمار رہے۔ وہ اتنے سخت مزاج اور غضبناک نہیں تھے جتنا بہت سے لوگ انھیں سمجھتے تھے۔‘

مگر جلد ہی انھیں ایسے ہی ایک اور تجربے سے گزرنا تھا۔

جان گیفنی نامی شخص نے تاش کے کھیل کے دوران ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ ایک بار پھر کلیولینڈ نے خود سزا دینے پر اصرار کیا۔ جب انھوں نے لیور کھینچا، تو 5 فٹ کی اونچائی سے گرنے سے گیفنی کی گردن تو ٹوٹ گئی لیکن ان کے جسم سے روح پرواز کرنے میں لگ بھگ 23 منٹ لگے۔

کلیولینڈ نے اس کے بعد کبھی کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی۔ لیکن وہ یہ انفرادیت اپنے نام کر چکے تھے کہ وہ واحد ایسے امریکی صدر بنے جنھوں نے ذاتی طور پر دو قاتلوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔

بطور شیرف صرف ایک مدت کے بعد ہی انھوں نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔

’ویٹو میئر‘

کلیولینڈ نے اپنی سیاسی شروعات بفلو شہر کے ایک اصلاحی میئر کے امیدوار کے طور پر کی۔ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔

محقق جارڈن ہِلمن کے مطابق وہ ’ویٹو میئر‘ کے طور پر جانے جانے لگے کیوںکہ وہ مقامی حکومت میں ایسے مشکوک حکمنامے مسترد کر دیتے جن سے بدعنوانی کی بو آتی تھی۔ آج بھی کلیولینڈ کا ایک کانسی کا مجسمہ بفلو سٹی ہال کے باہر کھڑا ہے۔

تاہم گورنر کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر ان کی نامزدگی کی وجہ سے ان کا میئر شپ کا دور مختصر ہو گیا۔ گورنر کا انتخاب بھی انھوں نے تب تک کی سب سے بڑی اکثریت سے جیتا۔

سنہ 1884 کے قومی انتخابات تک کلیولینڈ کو اُن کی دیانت داری کی وجہ سے ’گروور دی گڈ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی لیے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کے طور پر ان کی کامیابی لگ بھگ یقینی تھی۔

مگر ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے صرف ڈیڑھ ہفتہ بعد، بفلو نیوز میں ’ایک خوفناک کہانی‘ کی سرخی کے ساتھ ایک تحریر شائع ہوئی جس میں کلیولینڈ کو ایک ’ناجائز بیٹے کے باپ‘ کے طور پر ’بے نقاب‘ کیا گیا تھا۔ یہ کلیولینڈ اور ریپبلکن امیدوار جیمز جی بلین، جن کی شہرت اچھی نہیں تھی، کے درمیان ذاتی الزامات کا شاخسانہ تھا۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایڈم آگسٹین کی انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ جب ریپبلکن کہتے ’مجھے اپنے والد چاہییں‘ تو کلیولینڈ بے خوف رہتے۔ انھوں نے ڈیموکریٹک رہنماوں کو ہدایت کی کہ لوگوں کو ’سچ بتائیں‘۔

سچائی، جیسا کہ کلیولینڈ نے خود اعتراف کیا، یہ تھی کہ اُن کا ایک خاتون ماریہ ہالپین کے ساتھ معاشقہ تھا جس سے ایک بچہ پیدا ہوا اور جب ماریہ نے کلیولینڈ کا نام بچے کے باپ کے طور پر لکھوایا تو انھوں کفالت کی غرض سے خرچ دینے پر رضامندی ظاہر کی حالانکہ انھیں یقین نہیں تھا کہ آیا بچہ واقعی اُن ہی کا ہے یا نہیں۔

وہ پھانسیوں سے بھی کبھی پیچھا نہ چھڑا سکے۔ جب انھوں نے صدر کے لیے انتخاب لڑا تو ان کے مخالفین نے انھیں ’بفلو ہینگ مین‘ یعنی ’بفلو کا جلاد‘ کا نام دیا۔

تاہم، آخر میں کلیولینڈ غالب رہے۔

صدارت کا دور: وائٹ ہاؤس میں اپنا فون خود سنتے

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گروور کلیولینڈ خانہ جنگی کے بعد منتخب ہونے والے امریکہ کے پہلے جمہوری صدر تھے۔ اپنی پہلی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے شہریوں کو سرکاری ملازمین کی نااہلی اور بدعنوانی سے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اور عوامی ملازم یہ اصرار کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ پارٹی کی ماتحتی کی بجائے میرٹ اور قابلیت کو تسلیم کیا جائے۔‘

وہ ذاتی طور پر وائٹ ہاؤس کا فون خود سنتے۔ وہ واحد صدر تھے جن کی وائٹ ہاؤس میں شادی ہوئی۔

اس وقت کلیولینڈ کی عمر 49 سال تھی۔ ان کی اہلیہ فرانسس فقط 21 سال کی تھیں۔ وہ کسی بھی امریکی صدر کی کم عمر ترین بیوی ہیں۔

فرانسس کلیولینڈ بہت مقبول خاتون اول ثابت ہوئیں۔ یہ شادی خوشگوار تھی۔ لیکن 1888 کی صدارتی مہم کے دوران فرانسس کو عوامی طور پر ریپبلکن کی طرف سے پھیلائی جانے والی افواہوں کی تردید کرنا پڑی کہ کلیولینڈ نے شراب پی کر غصے میں انھیں مارا تھا۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شادی کے وقت کلیولینڈ کی عمر 49 سال جبکہ اُن کی اہلیہ فرانسس فقط 21 سال کی تھیں

وائٹ ہاؤس ہی میں اُن کی اولاد ہوئی۔ ’بے بی روتھ‘ کینڈی بار کا نام ان کی بیٹی روتھ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان کے علاوہ کلیولینڈ کے چار بچے تھے۔

وہ پہلے صدر تھے جنھوں نے صدارت کے دوران میں اداکاری بھی کی۔ ایک فوٹو پلے میں انھیں ایک بل پر دستخط کرتے ہوئے فلمایا گیا تھا۔

اپنی پہلی مدت میں کلیولینڈ نے 400 سے زیادہ بلوں کو ویٹو کیا، جو پچھلے تمام صدور کے مشترکہ ویٹو کیے گئے بلوں کی تعداد سے دوگنا تھے۔ یوں ’ویٹو صدر‘ بھی کہلائے۔

ایڈم آگسٹین کی انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ وہ ایسا بنیادی طور پر اس نظریے سے کرتے کہ قانون سازی کی زیادتیوں کو روکنا صدر کا کام ہے۔ اسی وجہ سے انھیں اپنی پہلی مدت کے دوران کافی مقبولیت ملی۔ لیکن اسی نظریے کی وجہ سے انھیں اگلی مدت کے لیےعوامی حمایت نہ مل سکی جب انھوں نے امریکا کے تب تک کے بدترین معاشی بحران سے نمٹنے میں حکومت کے مثبت کردار کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کلیولینڈ نے 1888 میں دوبارہ انتخاب لڑا تو صدارتی مہم کا بڑا مسئلہ پروٹیکٹو ٹیرف تھا۔ کلیولینڈ نے ٹیرف کی شرح کی مخالفت کی اور اسے امریکی صارفین پر عائد غیر ضروری ٹیکس قرار دیا، جبکہ ریپبلکن امیدوار بنجمن ہیریسن نے تحفظ پسندی کا دفاع کیا۔

انتخابات کے دن، کلیولینڈ نے ہیریسن کے مقابلے میں تقریباً 100,000 زیادہ مقبول ووٹ حاصل کیے، لیکن ہیریسن نے الیکٹورل کالج میں اکثریت (233 میں سے 168) حاصل کر کے الیکشن جیت لیا کیوںکہ نیو یارک اور انڈیانا کی اہم ریاستوں میں ٹیرف کے حامی کاروباری لوگوں نے بھرپور مہم چلائی تھی۔

تاہم اسی ٹیرف کی وجہ سے ہیریسن کے دور میں خزانہ کا سرپلس اڑ گیا اور یوں اگلی مدت پھر کلیولینڈکے نام رہی۔ وہ واحدسربراہ تھے جو غیر مسلسل (ایک چار سالہ مدت کے وقفے سے) دو مرتبہ یعنی امریکہ کے بائیسویں اور چوبیسویں صدر بنے۔ صدر بننے پر انھیں معیشت کے شدید بحران سے نمٹنا پڑا۔ کاروباری افراد کی مدد سے وہ اس بحران سے تو نکل آئے لیکن عوام نے جانا کہ اب وہ ان سے دور ہو گئے ہیں۔

اسی مدد کے تسلسل میں شکاگو میں ہڑتال ختم کروانے کے لیے فوج بھیجی تو مزدور ان سے ناراض ہو گئے، یہاں تک کہ ان کی پارٹی نے بھی ولیم جیننگز برائن کے حق میں کلیولینڈ کو مسترد کر دیا۔ یوں وہ اب تک کے پہلے اور واحد صدر بنےجنھیں ان کی اپنی پارٹی نے ایسے مسترد کیا ۔

کلیولینڈ ریٹائر ہو کر پرنسٹن، نیو جرسی چلے گئے، جہاں وہ پرنسٹن یونیورسٹی میں پبلک افیئرز کا مضمون پڑھانے لگے۔ جوں جوں امریکا میں خوش حالی لوٹی، کلیولینڈ کو وہی عوامی پذیرائی دوبارہ ملنے لگی جس سے وہ پہلے لطف اندوز ہوتے تھے۔ کلیولینڈ کو اپنی ایماندارانہ ساکھ اور اسے برقرار رکھنے کی کوششوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

رابرٹ والش نیویارک میں جرم و سزا پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سزائے موت کے ساتھ کلیولینڈ کا جوڑ جاری رہا۔

جب 1883 سے 1885 تک وہ نیویارک کے گورنر تھے تو پانچ لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ بطور گورنر کلیولینڈ فیصلہ اُن کا تھا کہ آیا ان مجرموں کو یہ سزا دی جائے یا نہیں جو انھوں نے ذاتی طور پر ایری کاؤنٹی کے شیرف کے طور پر دی تھی۔ ان کی پہلی صدارتی مدت میں بھی روکسلانا ڈروس نیویارک ریاست کی آخری خاتون مجرم بنیں جنھیں فروری 1887 میں پھانسی دی گئی۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد پھانسی کے پھندے کی جگہ بجلی کی کرسی نے لے لی لیکن کلیولینڈ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے والے واحد سابق جلاد قرار پائے اورموریسی اور گیفنی امریکاکے واحد مجرم جنھیں صدر نے ذاتی طور پر پھانسی دی۔