باغ عدن، کربلا اور پہیے کی ایجاد: اس سڑک کا سفر جو آپ کو انسانی تہذیب کی جائے پیدائش تک لے جاتی ہے

عراق

،تصویر کا ذریعہSIMON URWIN

  • مصنف, سائمن ارون
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

عراق کے وسط میں واقع ایک ایسی سڑک ہے جس پر سفر کرتے ہوئے آپ وہ مقامات دیکھ سکتے ہیں جہاں بنی نوع انسان نے پہلی بار لکھنا سیکھا، حساب کا علم استعمال کیا اور جہاں پہیہ ایجاد کیا گیا۔

ایڈونچر ٹریول کمپنی سے تعلق رکھنے والے جیمز ول کوکس کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی خوبصورت راستہ نہیں ہے لیکن ’روٹ ون‘ کی خوبصورتی اس بات میں ہے کہ یہ آپ کو کہاں لے جاتی ہے: دنیا کی قدیم تہذیبوں کی جائے پیدائش جو انسانیت کی عظیم اختراعات کا گھر ہے۔‘

میرے سفر کا انتظام جیمز ول کوکس کے ذمے تھا۔ بصرہ سے بغداد تک 530 کلومیٹر طویل اور دو دنوں پر محیط اس سفر کے آغاز سے قبل وہ مجھے کچھ کام کی باتیں بتا رہے تھے۔ قدیم میسوپوٹیمیا کے مرکز تک پہنچنے کے لیے ہم نے عراق کی پہلی اور سب سے طویل سڑک کو استعمال کرنا تھا جو 1200 کلومیٹر طویل ہے۔ اسے ’روٹ ون‘ کہا جاتا ہے۔

تنازعات کی حالیہ تاریخ کو ایک جانب رکھیں تو یہ خطہ کئی عالیشان تاریخی سلطنتوں کی عظمت کی داستان سناتا ہے۔ بابل، سمیری، آشوری جیسی تاریخی اور قدیم سلطنتیں بھی ان میں شامل ہیں۔

جیمز ول کوکس نے مجھے یقین دلایا کہ میں اس سفر کو کبھی نہیں بھلا سکوں گا لیکن مجھے چند اصول یاد رکھنا ہوں گے: ’قدامت پسند (روایتی) لباس پہنیں، کسی چیک پوائنٹ کی تصویر مت کھینچیں اور خود کو زیادہ نمایاں مت کریں۔‘

بصرہ عراق کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جہاں میں ہوائی جہاز کے ذریعے پہنچا تھا۔ یہ شہر ’شت العرب‘ دریا کے ساتھ ہے جو دجلہ اور فرات کے ملنے سے بنتا ہے۔ انھی دو دریاؤں کے نام سے میسوپوٹامیا کا نام پڑا جس کا یونانی زبان میں مطلب ہے ’دو دریاوں کے بیچ میں۔‘

عراق

،تصویر کا ذریعہSIMON URWIN

یہ بصرہ ہی تھا جہاں سے الف لیلہ کے افسانوی کردار ’سند باد‘ نے اپنے مافوق الفطرت سفر کا آغاز کیا تھا۔ سندباد کے مقابلے میں میرے سفر کا آغاز کچھ عام سا تھا۔

اپنے ڈرائیور سے ملاقات کے بعد ہم ’روٹ ون‘ پر چڑھے تو دو گھنٹے تک ٹریفک میں پھنسے رہے۔ یہاں دور دور تک تیل کے کارخانے ہیں جو آسمان میں گیس کے شعلے پھینکتے ہیں۔

تقریبا 150 کلومیٹر کے سفر کے بعد جب ہم ’الاحوار‘ میں داخل ہوئے تو صحرا نخلستان میں تبدیل ہو گیا۔ اس مقام کے بارے میں چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہیں وہ باغ عدن تھا جہاں آدم و حوا کو بہشت سے اُتارا گیا تھا۔

جنوبی عراق کے اس نشیبی مقام پر دنیا کے سب سے بڑے ڈیلٹا نظام میں سے ایک موجود ہے جس کو 1990 میں صدام حسین کے حکم پر خشک کر دیا گیا تھا۔ تاہم رفتہ رفتہ یہ اپنی اصلی حالت میں واپس آ رہا ہے۔

شبیایش کے قصبے میں رزاق ابو ہیدہ نامی مچھیرا روایتی کفایہ پہنے میرا انتظار کر رہا تھا۔ انھوں نے اپنی کشتی کی موٹر کھینچ کر سٹارٹ کی اور ہم دریا کی ساحلی بھول بھلیوں میں اُتر گئے جہاں معدان یا عرب الاھوار یعنی دلدلی علاقوں کے عرب پانچ ہزار سال سے بسے ہوئے ہیں۔

اب شبایش کے قریب صرف 25 الاھواری خاندان باقی ہیں۔ ہم رزاق کے روایتی سرکنڈوں سے بنے گھر، جسے المضیف کہا جاتا ہے، پر رُکے تو ان کی اہلیہ نائمہ مشروب لے کر آئیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ بلکل تازہ دودھ ہے۔‘ برتن میں بھینس کے کچھ کالے بال بھی تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ مویشیوں کی دیکھ بھال، مچھلیاں پکڑنے اور اپلوں پر روٹی پکانے میں ہی ان کا دن گزر جاتا ہے۔ باقی وقت میں وہ گھر کی مرمت کے لیے سرکنڈے جمع کرتے ہیں۔

یہاں کی آبادی کی اکثریت جدید زندگی کی تلاش میں قریبی قصبوں منتقل ہو چکی ہے لیکن یہ دونوں اپنی سادہ زندگی سے خوش ہیں۔ ان کے لیے زندگی اب تک ویسی ہی ہے جیسی اس وقت تھی جب ان کے آباؤاجداد اس علاقے میں آباد ہوئے تھے اور سمیری تہذیب کی عظیم شہری ریاستوں سے تجارت کرتے تھے۔

سمیری میسوپوٹیمیا کی سب سے پہلی تہذیب تھی جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ ان کو پہیہ، علم حساب، لکھائی، ہائیڈرالک انجینیئرنگ، ہل اور کشتی کا بادبان ایجاد کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

لاناہ حداد عراق کے اکیڈیمک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ماہر آثار قدیمہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سمیری تہذیب کی کامیابی کا راز زرخیز ہلال کے مشرق میں آبادکاری تھا کیوںکہ اس علاقے کی زمین اچھی ہونے کی وجہ سے خوراک کی فراوانی ہوئی اور یوں لوگوں کے پاس اختراع اور ایجادات کے لیے کافی وقت ہوتا تھا۔‘

افریقہ، ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے اس خطے کے لوگوں نے عالمی تجارت پر راج کرنا شروع کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ مقام پانچ ہزار قبل از مسیح سے 13ویں صدی میں منگول فتوحات تک تمام مصنوعات کی نقل حرکت کا مرکز بنا رہا اور مقامی لوگ امیر اور طاقتور بن گئے۔‘

بابل

،تصویر کا ذریعہSIMON URWIN

ان کا کہنا ہے کہ دیگر تہذیبوں کے برخلاف سمیری لوگوں نے مفتوحہ اقوام کی ہر چیز کو تہہ و بالا نہیں کیا بلکہ ان کی ایجادات کی عزت کی اور ان کو بہتر بنایا۔ سمیری ایجاد کردہ لکھائی کے نظام نے اس تہذیب کی مدد کی کہ وہ اپنا علم محفوظ رکھ سکے۔

لاناہ حداد کا کہنا ہے کہ یوں قدیم مشرق وسطیٰ کی سب سے پہلی منظم لائبریری، آشور بانیپال کی شاہی لائبریری، وجود میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی دنیا میں تحریر شدہ قانون کی ابتدائی شکل بھی یہاں سے ہی وجود میں آئی جسے ’حمورابی کا ضابطہ‘ کہا جاتا ہے۔

282 قوانین کا یہ نظام بادشاہ حمورابی کے دور اقتدار میں سامنے آیا جنھوں نے بابل کو میسوپوٹامیا کی سب سے عظیم شہری ریاست میں بدل دیا۔

ہم تقریباً تین گھنٹے سفر کے بعد اس شہر کے کھنڈرات تک پہنچے۔ بادشاہ نبوکدنضر دوم کے دور میں بابل دنیا کا سب سے بڑا شہر بن چکا تھا۔ انھوں نے ہی دنیا کے سات قدیم عجوبوں میں سے ایک بابل کے معلق باغات، مشہور مینار بابل اور اشتر دروازے کی تعمیر کروائی جو آج بھی اس تاریخی شہر میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے۔

اس دروازے کو نیلی اینٹوں سے سجایا گیا ہے جن پر بیلوں، چیمو مائل پھول اور ڈریگن سے مزین بابل سلطنت کی علامت نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بابل میں اس علامت سے جھریوں سے لے کر مردانہ کمزوری تک تمام مسائل کا علاج کیا جاتا تھا۔

اس دروازے کی بنیاد اصلی ہے لیکن اوپر والا حصہ 19ویں صدی میں برلن کے میوزیم لے جایا گیا تھا جسے صدام حسین کے دور میں ازسرنو تعمیر کیا گیا۔

شہر کے وسط میں جب بادشاہ نبوکدنضر کے نام کی مٹی کی اینٹیں دریافت ہوئیں تو صدام حسین نے ڈھائی ہزار سال پرانی بنیادوں کے اوپر نئی دیواریں تعمیر کرنے کا حکم دیا جن پر یہ پیغام درج ہے کہ: ’فاتح صدام حسین کے دور میں۔۔۔ خدا انھیں عظیم عراق کے محافظ، اس کی تہذیب کے معمار اور عظمت بحال کرنے والے کے طور پر سلامت رکھے۔‘

ایک قریبی پہاڑ پر صدام حسین کے لیے ایک محل بھی تعمیر کیا گیا جو ان کی سو سے زیادہ رہائش گاہوں میں سے ایک تھا۔ یہاں ہر وقت عملہ موجود رہتا تھا کہ صدام حسین کسی بھی وقت رات گزارنے آ سکتے ہیں۔ لیکن وہ یہاں کبھی نہیں آئے۔

کربلا

،تصویر کا ذریعہSIMON URWIN

ہمیں اتنی عالیشان اور پرآسائش رہائش گاہ تو میسر نہیں تھی لیکن گیسٹ ہاؤس میں ڈرائیور کے ہمراہ میں نے ملفوف بيتنجان اور عراقی مہمان نوازی کا بھرپور مزہ لیا۔ اگلی صبح موذن کی جانب سے اذان دیے جانے پر آنکھ کھلی تو ہم 65 کلومیٹر دور کربلا شہر کی جانب روانہ ہوئے۔

کربلا شیعہ اسلام کا سب سے مقدس مقام ہے جہاں پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین کا مزار موجود ہے۔ یہاں سالانہ چار کروڑ افراد زیارت کے لیے آتے ہیں۔

مزار کے احاطے میں مجھے تابوت نظر آئے جن کو دفنانے سے پہلے لایا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو 16ویں صدی میں شروع ہوا تھا جب انڈیا اور ایران جیسے دور دراز مقامات سے شیعہ مسلک کے افراد مرنے والوں کی لاشیں یہاں دفن کرنے کے لیے لاتے تھے۔

کربلا کے علاوہ 75 کومیٹر دور نجف میں بھی لوگوں کو دفنایا جاتا ہے۔ 1400 سال قبل نجف کے وادیِ السلام قبرستان کی بنیاد رکھی گئی تھی جو اب دنیا کا سب سے بڑا مدفن ہے۔ یہاں تقریبا 60 لاکھ افراد دفن ہیں جن کی اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے۔

قبرستان کے 600 منتظمین میں سے ایک قرار ایاد نے کہا کہ ’پرندوں نے مسلمانوں کو سکھایا کہ لاش کو دفن کرنا ہے، جلانا نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو ایک پرندے نے پروں کے ذریعے مٹی اور پتھروں سے اسے ڈھک دیا۔‘

نجف

،تصویر کا ذریعہSIMON URWIN

انھوں نے بتایا کہ اسلامی روایات کے مطابق یہ مانا جاتا ہے کہ تدفین کے بعد دو فرشتے مرنے والے کی قبر میں اس کے ایمان کا امتحان لینے آتے ہیں اور درست راہ پر چلنے والا جنت میں جاتا ہے لیکن گناہ گار کو جمعے کے دن کے علاوہ ہر روز فرشتے سزا دیتے ہیں جب تک ان کے بارے میں فیصلہ تبدیل نہ کر دیا جائے۔

موت کے بعد کی زندگی کی اس منظر کشی کا سُن کر میں نے قبرستان کا دورہ کرنے والے ایک خاندان سے سوال کیا کہ کیا مسلمان موت سے ڈرتے ہیں۔ وہ اپنے ایک عزیز کی قبر کو گلاب کے پانی سے دھو رہے تھے۔

زینب الحکیم نے جواب دیا ’امیر ڈرتے ہیں کیوں کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑنا نہیں چاہتے۔ شاید غریب اپنی مشکلات سے فرار کے لیے مرنے کی خواہش رکھتے ہوں۔ لیکن ہم میں سے زیادہ تر نہیں ڈرتے۔ ہم مانتے ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے اور یہ کہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے۔‘

نجف سے روانہ ہو کر ہمیں روٹ ون تک واپس آنے کے لیے ایک گھنٹا سفر کرنا پڑا۔ 160 کلومیٹر کے بعد عراق کا دارالحکومت ہمارے سامنے تھا اور ہم اس کے تاریخی مرکز کی جانب رواں دواں تھے۔

یہاں لکھا ہوا تھا ’بغداد میں خوش آمدید، امن کا شہر‘۔ ہم ایران اور عراق جنگ میں مرنے والوں کی یادگار شہدا کے قریب سے گزرے اور پھر دریا کے کنارے پرانے شہر میں داخل ہوئے جو کسی زمانے میں تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔

میں ایک ہزار سال پرانے بازار ال سفافیر میں داخل ہوا جہاں قدیم دور میں تانبے کی مصنوعات بنتی تھیں۔ امیر سید ال سافار نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہاں 126 دکانیں تھیں لیکن اب 16 ہیں۔

عراق

،تصویر کا ذریعہSIMON URWIN

ال سافار کے مطابق انڈیا اور چین سے سستی مصنوعات کی بھرمار کی وجہ سے مقامی صنعت زوال پذیر ہو چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے دکھ ہوتا ہے لیکن پرانے وقتوں سے یہی ہوتا رہا ہے۔ نئی معاشی اور سیاسی طاقتیں آتی ہیں۔ عراق کی تاریخ کی کتاب میں ایک صفحہ ہی پلٹا جا رہا ہے۔‘

ان کے یہ الفاظ میرے سفر کا مناسب اختتام تھے۔ میسوپوٹامیا کی قدیم سلطنتیں جن کو یہ ہائی وے ملاتی ہے وقت کے ساتھ مٹی میں مل گئیں لیکن ان کی نشانیاں صدیوں بعد بھی اب تک انسانیت کے کام آ رہی ہیں۔